تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-12-2014

کارِسیاست و خوارِسیاست

30 نومبرعام دنوں کی طرح نہیں گزرا۔''دنیا نیوز‘‘ کے صحافیوں اور کارکنوں کو عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے کا انعام مل گیا۔ ویڈیو کوریج کرنے والے یونٹ پر‘جسے پیشہ ورانہ زبان میں ڈی ایس این جی کہا جاتا ہے اور جس میں سیٹلائٹ نشریات کے حساس آلات موجود ہوتے ہیں‘ فیض آباد انٹرچینج کے قریب‘ نامعلوم موٹرسائیکل سوار شدت پسندوں نے دستی بم پھینک دیا، جس سے دوکارکن زخمی ہو گئے جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ گزشتہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف جاری احتجاجی مہم میں ''دنیا‘‘ گروپ شامل تو نہیں رہا، لیکن دہشت گردوں نے اپنے ردعمل سے یہ ضرور ظاہر کر دیا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں؟میڈیا کی بدقسمتی ہے کہ سب‘اپنے لئے کوریج مانگتے ہیں، لیکن سبھی اس پر ناراض بھی ہوتے ہیں۔ تنگ نظری کے اس ماحول میں‘ سب یہی چاہتے ہیں کہ ان کا موقف تو میڈیا پر ضرور پیش کیا جائے، مگر ان کے مخالفین کا نہیں۔ جو چیز ہمارے لئے آزادیٔ اظہار ہے‘ وہ ''متاثرین‘‘ کے لئے جانبداری۔ کیا کریں؟ ہمارا کام ہی ایسا ہے۔ عمران خان نے اس روز بلاشبہ ایک تاریخی جلسہ کیا۔ جلسے میں حاضرین کی تعداد کو جتنا بھی زیادہ لکھ دیا جائے‘ کم ہو گی۔ اتنے بڑے ہجوم میںشرکاء کی گنتی کسی کے بس میں نہیں ہوتی۔ میں سیاسی جلسوں کو صرف دو خانوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ یا وہ کامیاب ہوتے ہیں، یا ناکام۔ استطاعت کی طرف دیکھیں‘ تو حکومت کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں‘ جنہیں بروئے کار لا کر ‘و ہ لاکھوں حاضرین کو جمع کر سکتی ہے، لیکن اسے کوئی بڑا جلسہ قرار نہیں دیتا، جبکہ اپوزیشن کے چھوٹے جلسے بھی کامیاب کہلاتے ہیں۔ جلسوںمیں شامل ہونے والے تمام کے تمام لوگ‘ انتہائی جذباتی‘ پُرجوش اور اپنے مطالبے پورے کرانے کے لئے‘ بے تاب ہوتے ہیں، جبکہ سرکاری جلسوں کے حاضرین بیزار‘ بے تعلق اور بے بس ہوتے ہیں۔ سرکاری اہلکار‘ انہیں جبراً لے کر آتے ہیں اور جلسہ ختم ہونے پر انہیں وہیں چھوڑ کے‘ زبردستی لائے گئے لوگوں سے بھی زیادہ رفتار سے فرار ہو جاتے ہیں۔ 
پاکستان میں کم و بیش ہر حکومت شدید عوامی احتجاجوں ‘ مظاہروں اورجلوسوں کے نتیجے میں جاتی ہے۔ آمروں کی تو خیر مجبوری ہے کہ ان کے عرصہ اقتدار کا تعین نہیں ہوتا، منتخب حکومتوں کا بھی بہرحال وقت معین ہوتا ہے، مگر ہوتا یوں رہا کہ انہیں بھی نکالنے کے لئے عوام کو سڑکوں پر آنا پڑا۔ صرف پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت‘ اپنے وقت پر رخصت ہوئی۔ انتخابات کرائے اور گھر چلی گئی۔ ہمارا سیاسی ریکارڈ بہت شرمناک اور تکلیف دہ ہے۔ سیاستدان باہمی مسائل افہام و تفہیم سے حل نہیں کر سکتے۔ ہمیشہ بحث اور تکرار کرتے کرتے‘ اپنی ''دمیں اور چونچیں‘‘ گم کر بیٹھتے ہیںاور فوجی آمر آ کر انہیںاقتدار سے باہر کر دیتے ہیں۔ 90ء کا عشرہ اس حوالے سے‘ ہماری تاریخ کا یادگار دور ہے۔ نئی حکومت آتے ہی محاذآرائی شروع کر دیتی تھی۔ دو تین سال گزرنے سے پہلے ہی کشیدگی‘ تصادم کے قریب پہنچنے لگتی‘ دھم سے فوجی حکمران بیچ میں کود کر‘ ایک کی جگہ‘ دوسرے کو لا بٹھاتے۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ تو یہ ہوتا ہے کہ برسراقتدار شخص کو باہر نکال کر ‘ جنرل حضرات خود کرسی اقتدار پہ جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔ میں نے بہت سی حکومتیں بدلتے دیکھی ہیں، لیکن اصل میں ایک بھی نہیں بدلی۔ سب کچھ وہی ہو رہا ہے‘ جو پہلے والے کرتے کرتے نکالے گئے۔ حکمرانوں کا عزت سے رخصت ہونا ‘پاکستانی ریت روایت کے خلاف ہے۔ اس مرتبہ دو تین سال کا ضروری عرصہ گزرنے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔ حکومت آرام سے اپنا وقت گزارنا چاہتی‘ تو ان چار حلقوں میں آڈٹ کرا دیتی‘ جن میں تحریک انصاف نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن ہماری حکومتیں نہ عوامی مسائل حل کر سکتی ہیں اور نہ اپنے۔ ہمیشہ اسی انتظار میں رہتی ہیں کہ کوئی آگے بڑھ کر انہیں نکالے۔ صرف چار حلقوں کے سوال پر‘ حکومتی 
پارٹی اور تحریک انصاف نے ‘ چند مہینوں میں ہی محاذآرائی شروع کر دی تھی۔ اب اس میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ میرا بھی یہ خیال نہیں کہ فوج دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے ابھی تیار ہے، لیکن تحریک انصاف کے ایک سابق صدر نے یہ اطلاع دے کر سب کو حیران کر دیا کہ ''فوج اقتدار پر قبضے کی تیاری کر چکی تھی۔‘‘ اس انکشاف کو کافی عرصہ گزر گیا، لیکن فوج ابھی تک نہیں آئی۔ برسرپیکار فریق اگر چاہتے‘ تو باہمی بات چیت کے ذریعے تنازع طے کر سکتے تھے، مگر وہ پاکستانی سیاستدان ہی کیا؟ جسے اپنے جھگڑے آپس میں طے کرنا آتے ہوں۔ جب تک کوئی تیسرا آ کر‘ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا‘ وہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے رہتے ہیں۔مجھے تو ڈر ہے کہ اس مرتبہ فوج انہیں‘ آپس میں لڑنے سے نہیں روکے گی اور لڑتے لڑتے‘ دونوں بے ہوش ہو جائیں گے۔ جب لڑائی میں شدت آ جائے‘ تو زبان بلکہ دہن‘ دونوں بگڑنے لگتے ہیں۔ آج کل حکومت اور تحریک انصاف کی یہی کیفیت ہے۔ حکومت نے پانچ سات اعلیٰ عہدیداروں کو دشنام طرازی کے ادنیٰ کام پر رکھ چھوڑا ہے۔ وہ روزانہ صبح سے شام تک حریف کی توہین آمیزی کے لئے‘ ایک سے بڑھ کر ایک‘ سوقیانہ لفظ ڈھونڈتے ہیں اور عمران خان پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ کسی دوسرے کا نمبر ہی نہیں آتا۔ عمران ‘ حکومت کا پیچھا چھوڑیں‘ تو کسی دوسرے کا نمبر بھی آئے۔ زرداری صاحب ابھی سے قطار میں لگ گئے ہیں اور انہوںنے باقاعدہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ''کپتان پچ خالی کرے گا‘ تو پھر میں سامنے آئوں گا۔ ‘‘وہ جانتے ہیںکہ جب حکومت کی جان‘ عمران خان سے چھوٹے گی‘ تو وہ پہلے ہی نڈھال ہو چکی ہو گی۔ یا تو ان کا نمبر آنے تک گر جائے گی، یا گرنے والی ہو گی۔ ماضی میں دشنام طرازی کی ''ذمہ داریاں‘‘ ایک آدھ سرکاری کارندہ ہی پوری کر لیتا تھا، بلکہ گالیاں دینے والا ایک ہوتا تھا اور کھانے والے درجنوں۔ اس بار حساب الٹا ہے۔ گالیاں دینے والے درجنوں ہیں اور کھانے کے لئے صرف ایک عمران خان۔ سرکاری گالی گروپ صرف اسی کام پر اکتفا نہیںکرتا، بلکہ اسے عمران پرمسلسل یہ الزام بھی لگانا پڑتا ہے کہ نامناسب الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ عمران کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ گالیوں کا کام سچائی سے لے لیتے ہیں اور ہر نیا سچ‘ حکومت کے لئے پہلے سے بڑی گالی ہوتا ہے۔حکومتی کارندے سوگالیاں دیتے ہیں‘ عمران ایک سچ بول دیتاہے۔ حکومت کی خوراک پوری ہو جاتی ہے۔ اگر حکومت کو کام میں دلچسپی ہوتی‘ تو وہ چار حلقوں کا قضیہ ختم کر کے‘ اب تک عوام کے درجنوں مسائل حل کر چکی ہوتی، لیکن اپنے اپنے شوق کی بات ہے۔ جتنا مزہ حریف کے ساتھ لڑنے میں آتا ہے‘ اتنا عوام کی خدمت میں نہیں آتا۔ 
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ عمران کو سیاست میں کودنے کی کیا سوجھی؟ کرکٹ میں بڑے بڑے نام آئے، لیکن جو گلیمر عمران کا تھا‘ اسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست صرف ہماری سرحدوں کے اندر محفوظ ہے، جبکہ کرکٹ ‘ دنیا کی ایک تہائی نہیں‘ چوتھائی آبادی کا محبوب کھیل ہے۔ 18سال میں انہیں صرف گزشتہ 100دنوں کے دوران میڈیا‘ پر آنے کا موقع ملا۔ اگر وہ کرکٹ کے میدان میں رہتے‘ توہر سال کم از کم ڈیڑھ دوسو دن تو ٹی وی چینلز پر موجود رہتے۔ جلسے کی تقریر صرف ایک گھنٹے کے لئے ہوتی ہے۔ جبکہ کرکٹ میچ پر کمنٹری کرنے والے کو وقت بانٹ کر بھی تین چار گھنٹے کا مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میچ کے بعد بھی تبصرے ہوتے رہتے ہیں اور یہ انتہائی عزت کا کام ہے۔ ناظرین اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سیاستدان کی طرف کوئی پیار سے نہیں دیکھتا۔ صرف اقتدار کا شوق ان لوگوں کو گالیاں کھانے کی ہمت دیتا ہے۔ اگر سیاست ایمانداری سے کی جائے‘ تو اقتدار بوجھ کے سوا کچھ نہیں اور اگر پاکستانی سیاستدانوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے کے لئے کی جائے‘ تو میں سمجھتا ہوں‘ دولت آپ جتنی چاہیں کما لیں‘ آپ کو براہ راست سکون‘ آرام اور مسرت کے لئے‘ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی کام دے دیتا ہے۔ باقی رقم یا تو بنکوں میں پڑی رہ کر‘ دوسروں کے کام آتی ہے،یا گھر میں رکھیں‘ تو ڈاکو اس کے مزے لے جاتے ہیں اور آخری بات یہ کہ جس جس درجے کے لوگ عمران خان کے منہ لگ رہے ہیں‘ کرکٹر عمران خان‘ ان کا سلام بھی مشکل سے قبول کرتا۔ان پر مامور کئے گئے گالی گروپ کے لئے عمران کوگالیاں دینے میں عزت ملتی ہے۔ یہ تو مجھے پتہ ہے کہ خان صاحب ضد چھوڑنے والے انسان نہیں۔ مناسب یہی ہوتا کہ جو ضد انہوں نے سیاست میں کی ہے‘ کسی اچھے کام پر کر لی ہوتی۔ مجھے بارہا سیاست میں جھک مارنے کا موقع ملا، لیکن میں ہمیشہ یہ سوچ کر محفوظ رہا کہ جھک ہی مارنی ہے‘ تو کسی شریفانہ کام میں ماریں گے۔ 
-----------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved