تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     03-12-2014

’’پاس پاس مگر ساتھ ساتھ نہیں‘‘

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ایک مختصر‘ اگرچہ جذبات سے عاری مصافحے نے 18ویں سارک سربراہ کانفرنس کو ناکامی سے بچا لیا۔ پہلے دن کی پوری کارروائی کے دوران‘ دونوں رہنما ایک ہی ڈائس پر بیٹھے‘ بچوں جیسی اکتاہٹ زدہ سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی کتراتے رہے۔ دوسرے دن‘ کانفرنس کے بعد‘ کٹھمنڈو کے نواح میں تفریحی مقام ڈھیلی خیل پر غیر رسمی تقریب کے دوران‘ میزبان نیپالی وزیر اعظم سیشل کوئرالہ نے دونوں کو وہ مصافحہ کرنے پر آمادہ کیا‘ جس کا بڑی دیر سے انتظار تھا۔
اس واقعے سے واضح ہو گیا کہ علاقائی تعاون کی تنظیم سارک بھارت ـ پاکستان کشیدہ تعلقات کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری بھی انہی کی ہے کہ یہ دونوں بداعتمادی اور کشیدگی سے پاک ایسی فضا پیدا کریں جو دنیا بھر میں امن و استحکام کی مساعی کو بارآور بنانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے مابین قیام امن کا خواب ہمیشہ کی طرح شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا‘ تو اس وسیع خطے میں اجتماعی اقتصادی ترقی تو دُور کی بات ہے‘ بامعنی علاقائی تعاون کے لیے جلد راہ ہموار ہونے کے امکانات بھی معدوم رہیں گے۔ 
لگ بھگ تین دہائیاں قبل سارک کا قیام اس عزم کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ رکن ممالک کے عوام کی سماجی و اقتصادی بہبود کے لیے علاقائی ترقی کا ایک فریم ورک تیار کیا جائے گا، لیکن ابھی تک اس عہد کی تکمیل کے آثار دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے اشاریے نہایت قلیل استثنا کے ساتھ رُو بزوال نہیں تو منجمد ضرور ہیں۔ بلاتعجب‘ جنوبی ایشیا کا شمار دنیا کے غریب ترین خطوں میں ہوتا ہے‘ اس کے عوام کی اکثریت آج بھی اذیت ناک غربت اور غیر انسانی حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ سارک کے آٹھ رکن ممالک میں سے پانچ... افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ مالدیپ اور نیپال اقوام متحدہ کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک (Least Developed Countries) کی کٹیگری میں شامل ہیں۔ سارک ممالک میں غربت‘ بھوک‘ بیماری‘ ناخواندگی اور تصادم کا ورثہ جُوں کا تُوں ہے‘ یہ رسمی اعلانات کے سوا کوئی بامعنی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس بار بھی کٹھمنڈو سربراہی کانفرنس کے اختتام پر ہمیں بلند و بالا عزائم پر مشتمل 36 نکاتی اعلامیہ سننے کو ملا‘ جس میں ماضی کی طرح ایسے عزائم کا اعادہ کیا گیا‘ جس کی اس خطے کے عوام کی بہبود کے لیے کوئی عملی قدر و قیمت نہیں ہے۔ 
کوئی ایسی بنیادی خرابی ضرور ہے جو اس خطے میں ترقی کا حقیقی تَموّج پیدا نہیں ہونے دیتی۔ ہم ہر سارک سربراہی اجلاس کے بعد اپنے لیڈروں سے ایک ہی رنگ کی خطابت سنتے چلے آ رہے ہیں... وہ ہمیشہ سارک کے چارٹر میں شامل اصولوں اور اہداف کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بلند آہنگ اعلانات دراصل محض اِس تلخ حقیقت پر ''اتفاقِ‘‘ کے آئینہ دار ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ہم اپنے عہد اور بالقوہ استعداد کو بالفعل بروئے کار نہیں لا سکے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کٹھمنڈو کانفرنس کی افتتاحی تقریر میں علاقائی بحران کا اس سے زیادہ واضح نقشہ نہیں کھینچ سکتے تھے: ''جب ہم سارک کی بات کرتے ہیں تو ہمیں عموماً دو ردعمل سننے کو ملتے ہیں... مایوسی اور تشکیک۔ افسوس! یہ صورت حال ایک ایسے خطے میں ہے جو اپنے جوانوں (یُوتھ) کی امیدوں سے چھلک رہا ہے۔ آئیے! ہم (سب مل کر) مایوسی کو امید میں بدل دیں‘‘۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ''ہم سارک کو اُس رفتار کے ساتھ آگے نہیں لے جا سکے جس کی ہمارے عوام کو توقع تھی۔ پوری دنیا میں کہیں بھی جنوبی ایشیا سے زیادہ اجتماعی مساعی کی فوری ضرورت نہیں اور کسی بھی دوسری جگہ اس کی نزاکت یہاں سے زیادہ نہیں ہے‘‘۔ 
بالفاظ دیگر انہوں نے بجا طور پر اعتراف کیا کہ جنوبی ایشیا دنیا کے دوسرے ان خطوں کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل پا رہا جو باہمی اختلافات اور تنازعات سے بالا ہو کر اقتصادی ترقی اور علاقائی استحکام کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ 
مودی نے انگریزی میں تیار شدہ تقریر سے اچانک ہٹ کر ہندی میں کہا: ''ہم آس پاس ہیں پر ساتھ ساتھ نہیں‘ ساتھ ساتھ ہونے سے طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے‘‘۔ پھر کہا: ''اپنے حجم اور محل وقوع کے لحاظ سے بھارت کی بھی ذمہ داری ہے۔ میں جانتا ہوں‘ بھارت کو قیادت کرنی ہے اور ہم اپنے حصے کا کام کریں گے۔ میں پُرامید ہوں کہ آپ بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں گے‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے پیشرو من موہن سنگھ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہمیں خطے میں باہمی ارتباط کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یقیناً، طبعی‘ اقتصادی اور ذہنی ''ارتباط‘‘ خطے کو قریب لانے اور اپنی صلاحیت و استعداد کو بروئے کار لانے کے قابل بنائے گا۔ 
اگر وزیر اعظم مودی وژن رکھتے ہیں‘ تو وہ جانتے ہوں گے کہ سارک کی اصل خرابی کیا ہے۔ یہ صرف خطے میں غربت اور پسماندگی تک محدود نہیں، اس کا تعلق جنوبی ایشیا کی مخصوص جیوپولیٹیکل صورت حال سے ہے‘ جس میں سارک کے تمام ممالک کی سرحدیں خطے کے سب سے بڑے ملک‘ بھارت سے تو ملتی ہیں مگر اس کے علاوہ ایک دوسرے سے نہیں۔ یہ جغرافیائی محل وقوع بڑی حد تک ان کے باہمی تعاون کو محدود کرنے کا سبب ہے۔ بھارتی سرحدوں کو بائی پاس کر کے ٹرانزٹ ٹریڈ مشکل ہے‘ اس لیے کہ بین العلاقائی تعاون کی تجاویز پر بھارت کو کنٹرول حاصل ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ سارک کے رکن ممالک کے مابین تجارت 4 سے 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھا پا رہی۔ بھارت‘ محض اپنے حجم اور مرکزی محل وقوع کی بنا پر کم و بیش خطے کی واحد ''طاقت‘‘ بن گیا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی آبادی عالمی رینکنگ کے اعتبار سے اتنی بھی کم نہیں، لیکن خطے کے باقی ممالک بھارت کی صف میں شامل نہیں ہوتے۔ بھارت کی جغرافیائی مرکزیت نے علاقے میں سرحدی اور آبی تنازعات کو بھی جنم دیا اور ان سب میں بھارت ملوث ہے۔ جوہری طور پر یہی تنازعات سارک کے نصب العین اور اس کی استعداد کے رُوبعمل آنے میں رکاوٹ ہیں۔ 
خطے کے باہمی تنازعات کے حل کا کوئی طریقِ کار یا لائحہ عمل (Mechanism) نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے امن‘ سکیورٹی اور ترقی میں سارک کا کردار انتہائی محدود ہو کر رہ گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر خطے میں بامعنی سماجی‘ اقتصادی اور ثقافتی تعاون ممکن نہیں ہو گا۔ یورپی یونین اور آسیان (ASEAN) سمیت دنیا کی علاقائی تنظیمیں کامل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن سارک شروع سے ہی اپنے مرکز گریز رجحانات اور باہمی بداعتمادی کی زد میں ہے۔ بلاشبہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی فضا ہی علاقائی تعاون کی موجب بنے گی۔ ایسی فضا پیدا کرنے کے لیے جنوبی ایشیا کو کشیدگیوں‘ تصادموں اور فوجی بجٹ میں اضافوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی اور اس کا انحصار یکسر بھارت پر ہے۔ علاقے سے عدم اعتماد اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی اور پانی کے تنازعات حل نہیں کرتا۔ بھارت اگر پاکستان کے راستے وسطی ایشیا اور اس سے آگے یورپ سے مربوط ہونا چاہتا ہے تو اسے پاک بھارت تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل سمیت علاقے میں جیوپولیٹیکل ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پہل کرنا ہو گی۔ 
اب وقت ہے کہ جنوبی ایشیا، جو تاریخی ورثے‘ تہذیب و تمدن اور مادی و انسانی وسائل سے مالامال ہے‘ اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور ناقابل تقسیم شناخت کو بازیاب کرے تاکہ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا متوازن کردار ادا کرتے ہوئے باہمی مفادات پر مبنی امن اور خوشحالی میں اپنا حصہ وصول کر سکے۔ لیکن کیا ہم بھارت کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہہ سکتے ہیں؟ 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved