تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     03-12-2014

جعلی فتوے اور سوشل میڈیا

چند روز پیشترمجھے ایک برقی خط(email) موصول ہوا۔یہ کراچی کے ایک معروف مدرسے سے منسوب ایک فتویٰ تھا۔ مدرسے کے لیٹر پیڈ پر تین مفتیانِ کرام کے دستخط ثبت تھے۔اس کا موضوع شراب کی حرمت تھا۔اس فتوے میں شراب نوشی کو جائز قرار دیاگیا تھا۔میں اسے پڑھتے ہی کھٹک گیا۔میرے علم میں تھا کہ مسلمانوں کا کوئی فقہی مسلک یہ رائے نہیں رکھتا۔صحافت سے متعلق میرے ایک دوست ہیں جنہیں دینی اداروں کی سرگرمیوں سے دلچسپی ہے۔میں نے ازراہِ احتیاط انہیں اس خط کی نقل بھیجی کہ وہ اس کی حقیقت کا کھوج لگائیں۔جواب میں انہوں نے مجھے ایک اور فتویٰ کی نقل بھجوائی جس میں مذکورہ مدرسے کے ذمہ داران نے اس فتوے سے اعلانِ برأت کر رکھا تھا۔انہوں نے لکھا تھا کہ کس طرح ان سے منسوب بعض دوسرے فتاویٰ بھی گردش میں ہیں جو سراسر جعلی ہیں۔
یہ واقعہ ایک خطرناک سماجی رجحان کی نشان دہی کر تا ہے جو میڈیا کے سوئے استعمال سے پیدا ہو رہا ہے۔اس میں سرِفہرست سوشل میڈیا ہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسے بھی لوگوں کوبہت سی شکایات ہیں لیکن وہاں کسی حد تک تدارک کا امکان مو جود ہے۔ان کے لیے قوانین ہیں، عدالتیں ہیں اور سماجی دباؤ بھی۔پھر یہ کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے چہرے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔لوگ لکھنے اور کلام کر نے والوں کو جانتے ہیں۔سوشل میڈیا کاکو ئی چہرہ نہیں۔اس کے لیے کوئی موثرقانون نہیں۔'سائبر کرائم‘ کے باب میں اگرچہ اب قانون سازی کی گئی ہے ،اس کے باوجود مجرموں تک رسائی آسان نہیں۔ بہت سے لکھنے والے یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے نام سے جعلی اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں۔آج ہی خبر ہے کہ ان جعل سازوں نے ملک کے بعض اہم ترین اداروں کو بھی معاف نہیں کیا۔ان کے نام پر فیس بک کے جعلی اکاؤنٹ مو جود ہیں۔برقی خطوط سے جو خرافات بھیجی جاتی ہیں وہ بھی کم اشتعال انگیز نہیں۔
یہ رجحان اس لیے خطر ناک ہے کہ اس سے بارہا انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوئے۔کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف سکالرڈاکٹر شکیل اوج کے قتل پر جو کچھ لکھا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ ان کے خلاف ایک معروف دینی ادارے کا فتویٰ گردش میں رہا۔بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ اس مدرسے نے اس طرح کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب ڈاکٹرشکیل اوج دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسے سوشل میڈیا اور فتوے کا سوئے استعمال ایسے واقعات کاسبب بن سکتا ہے جن کی تلافی ممکن نہیں۔یہ محض ایک واقعہ نہیں،کھوج لگائیں تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ رویہ کیسے کیسے حادثات کا باعث بنا ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟اس سوئے استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ چونکہ یہ معاملہ اپنی نوعیت میں سماجی ہے،اس لیے صرف قانون سے اس کا علاج ممکن نہیں۔اس کے لیے موثر علاج وہی ہو سکتا ہے جو سماجی سطح پر کیا جائے۔صرف فتوے کے تناظر میں دیکھا جا ئے تو اس کے دو حل ہیں۔ایک یہ کہ لوگوں پر فتوے کی حقیقت واضح ہو۔ دوسرا یہ کہ سماج میںبلا تحقیق بات پھیلانے کی حو صلہ شکنی کی جائے۔ان دونوں کاموں کا تعلق سماج کی شعوری تربیت کے ساتھ ہے۔
فتویٰ عدالتی فیصلہ نہیں ہو تا۔یہ کسی مسئلے میں یا کسی استفتاکے جواب میں، ایک عالم یا ادارے کی رائے ہے۔ایک مسئلے میں کئی آرا ہو سکتی ہیں۔ہر عالم اپنے فقہی پس منظر میںجواب دیتا ہے۔طلاق کے معاملے میں،ایک حنفی عالم کا فتویٰ ہو گا کہ ایک نشست میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں۔اہلِ حدیث عالم کی رائے ہو گی کہ ایک واقع ہوئی ہے۔اب قابلِ نفاذ فتویٰ کون ساہے، اس کافیصلہ عدالت کرے گی۔ فتوے سے کسی خاص شخص کا مجرم ہو نا ثابت ہو تا ہو، تو بھی اسے عدالتی فیصلے کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ہمارے ہاں لوگ عام طور پر اس تمدنی تبدیلی کو پیشِ نظر نہیں رکھتے جو صدیوں کے ارتقا کے نتیجے میں آچکی۔ہماری تاریخ کے قدیم ادوار میں ریاست کسی ایک قانون کی پابند نہیں ہوتی تھی۔ریاست قاضیوں کا تقرر کرتی تھی اور وہ اپنے فہم کے مطابق فیصلہ دیتے۔یہ عدالتی نظائر آج ہماری علمی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔یہ بات کہ پوری ریاست کے لیے کوئی ایک قانون ہو، اس کی ضرورت پہلی بار عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے محسوس کی اور امام ابو یوسف سے یہ درخواست کی کہ وہ قانون کی کوئی ایک ایسی کتاب لکھیں جو ریاست میں رائج ہو جائے۔ 'کتاب الخراج‘ اسی درخواست کے جواب میں لکھی گئی۔ اس دور میں علما اور فقہا کے علمی حلقے ہوتے تھے اوروہ فتویٰ دیتے تھے۔یہ فتاویٰ ملک کا قانون نہیں تھے۔ایک دور میں مختلف آراء رکھنے والے لوگ ہوتے تھے اوروہ اپنے اپنے فہم کے مطابق رائے دیتے۔ حکم کا اختیار اس دور میں بھی ریاست ہی کے پاس تھا۔
آج ریاست کی ایک نئی صورت وجود میں آ چکی۔اس کی ایک بنیادی خصوصیت تقسیمِ اختیارات ہے۔اب قانون سازی کا حق علما کے پاس نہیں، پارلیمنٹ کے پاس ہے۔قانون کے اطلاق کا اختیار عدالت کو دیاگیا ہے۔ نفاذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت یا دوسرے الفاظ میں قاضی (جج) قانون ساز نہیں ہے۔وہ اس قانون کا پابند ہے جو پارلیمنٹ بنا دے۔اس تقسیم کودورِ حاضر کے علماء نے قبول کیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ ان کے فتویٰ کو قانون کا درجہ حاصل نہیں۔ سماج کو اس معاملے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ فتویٰ ایک مسئلے میں ایک عالم کے فہمِ دین کا بیان ہے۔عالم یہ تو بتا سکتا ہے کہ فلاں جرم میں اسلام، اس کے فہم کے مطابق، فلاں سزا تجویز کرتا ہے، لیکن کیا ایک فرد جو اس کا مرتکب ہوا ہے ،اس پر اس کااطلاق ہو سکتا ہے،اس کا تعین عدالت کا کام ہے۔اس لیے فتوے کے باب میں علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کو اس پس منظر سے آگاہ کریں۔ اگر ان سے کسی متعین شخص کے بارے میں سوال کیا جا ئے تو وہ اس کے جواب کو مسئلے تک محدود رکھیں۔قدیم ادوار میں یہی ہو تا تھا کہ زید یا بکر لکھ کر فرد کوخاص نہیں کیا جا تا تھا۔یہ بات کہ فلاں ابن فلاں، کیا چوری ،قتل یا کسی اور جرم کا مرتکب ہوا ہے، یہ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جا تا تھا۔اب بھی ایسا ہی کر نا چاہیے۔
اس کے ساتھ سماج کی تربیت کی جائے کہ وہ سنی سنائی بات پر اعتبار کرے ،نہ اس کی تشہیر کرے۔یہ ذمہ داری سب سے زیادہ رجحان ساز افراد اور اداروں کی ہے۔ سیاسی و مذہبی قیادت،علمی و فکری راہنما،میڈیا، منبر و محراب اور اساتذہ، سب کو اپنے اپنے دائرے میں لوگوں کی تربیت کر نی چاہیے۔اس کے لیے پہلے اپنی مثال پیش کر نا ہوگی۔میرے جیسا کالم نگار اگر سنی سنائی باتوں کی تشہیر کرتا ہے تووہ اصلاح کا اخلاقی جواز کھو بیٹھتا ہے۔ایک سیاسی راہنما اگرثبوت کے بغیر الزامات کو سیاسی کلچر بنا دیتاہے تو وہ دراصل اخلاقی بگاڑ میں حصہ ڈالتاہے۔ ایک مسجد کا خطیب اگر بلا تحقیق لوگوں پر الزامات عائد کر تا ہے توپھر سماج کی اخلاقی اقدارقائم نہیں رہ سکتیں۔ 
میں اس وقت سوشل میڈیا کا حصہ نہیں ہوں۔ میرا کوئی اکاؤنٹ نہیں۔ چند احباب نے میرے کالموں کے ابلاغِ عام کے لیے اہتمام کیا ہے۔ اس میں بھی سوائے کالموں کے کچھ نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ وقت کے ضیاع کے علاوہ مجھے اس کا کوئی حاصل دکھائی نہیں دیتا۔پھر اس کے سوئے استعمال نے بھی مجھے خوف زدہ کر دیا ہے۔کیا معلوم میرے نام سے کیا بات پھیلا دی جائے۔یہ خوف اگر عام ہو جائے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ یہ رحجان ساز لوگوں کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس باب میں عام لوگوں کو حساس بنا ئیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved