تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-12-2014

ٹوٹے اور خانہ پُری

عمران خان کا لب و لہجہ
بالآخر حکومت نے عمران خان کے خلاف جوابی تشہیری مہم شروع کردی ہے۔ اصولی طور پر نواز لیگ کی حکومت کو بچانے کا خرچہ خود اس جماعت یا اس کے قائدین ہی کو ادا کرنا چاہیے لیکن ملکی خزانے کے ساتھ آج تک جو کچھ روا رکھا گیا ،اس کا اندازہ عوام کی حالت ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات جہاں تک جلسوں اور دھرنوں میں استعمال ہونے والی عمران خان کی زبان اور لب و لہجے کا تعلق ہے تو یہ زبان کسی سیمینار میں استعمال نہیں کی جارہی بلکہ عمران خان کی اس للکار کا حصہ ہے جو وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے بروئے کار لارہے ہیں اور جس سے ان اجتماعات کے شرکاء کی صحت پر ہرگز کوئی اثر نہیں ہورہا جن کواس بوچھاڑ سے خبردار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بڑی سہولت کے ساتھ اس طرز کلام کو فراموش اور نظر انداز کیاجارہا ہے جو میاں شہبازشریف انتخابات سے پہلے اپنی تقریر میں اختیار کیا کرتے تھے ع
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ
کالا باغ ڈیم 
ایک طویل خاموشی کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے بلکہ ق لیگ کے رہنمائوں نے اسے اپنی تقریری مہم کا باقاعدہ حصہ بنالیا ہے اور بالخصوص پنجاب میں اس کو غیر معمولی پذیرائی مل
رہی ہے۔ مثلاً بہاولپور کے جلسے میں جب اس کے حق میں بات کی گئی تو شرکاء نے بھرپور تالیوں سے اس کی حمایت کی اور جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم پنجاب کی حد تک ،جس کی آبادی نصف پاکستان سے زیادہ ہے ،رفتہ رفتہ یہ ایک مقبول عام نعرہ بن جائے گا۔ صوبہ خیبرپختونخوا ہی سے تعلق رکھنے والے واپڈا کے سابق سربراہ شمس الملک اس منصوبے کے سب سے بڑے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ابھی اگلے روز ایک جلسے میں انہوں نے اس کی بھرپور وکالت کی ہے، سو ضرورت اس امر کی ہے کہ چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان وغیرہ میں ایسے سیمیناروں کا اہتمام کیا جائے جن میں اس مسئلے کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر ایک بار پھر کھل کر بحث کی جائے اور کوئی متفقہ نقطہ نظر تلاش کرنے کی سعی کی جائے ورنہ پنجاب میں جس پارٹی نے بھی اس کا جھنڈا اٹھا لیا، وہ اسی بنا پر یہاں غیر معمولی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے ۔ہم نیک و بدحضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ عمومی طور پر تو یہ ایک حد تک ثابت بھی کیا جاچکا ہے کہ اس ڈیم کے بننے سے صوبہ خیبرپختونخوا ڈوبے گا، نہ سندھ کے حصے کے پانی میں کوئی کمی آئے گی بلکہ انہیں اس سے فائدہ ہوگا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اس کی مخالفت کے پیچھے بھارت ہاتھ ہے جس نے اس سلسلے میں مبینہ طور پر کچھ سرکردہ لوگوں میں سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے، حتیٰ کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے سابق سربراہ جماعت علی شاہ کا نام بھی اس ضمن میں لیا جاتا ہے جو ایک اطلاع کے مطابق ملک سے فرار ہوچکے ہیں، واللہ اعلم بالصواب ۔
آخر کیوں نہیں؟
اِدھر اُدھر اور میڈیا چینلز پر بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر حکومت ان چار انتخابی حلقوں کو دوبارہ کھولنے سے کیوں اجتناب کررہی ہے جس کی وجہ سے ملک واقعتاً ایک بہت بڑے بحران میں مبتلا ہوچکا ہے حتیٰ کہ خود حکومت کو بھی انتہائی سنجیدہ قسم کے لاحق ہوچکے ہیں اور خود بقول حکومت ملکی معیشت کو اربوں روپے کا 
نقصان پہنچ چکا ہے اوررکنے کا نام ہی نہیں لے رہا توحکومت عمران خان کے اس سلسلے میں جائز مطالبات مان کر اس بحران کو ختم کیوں نہیں کردیتی جو حکومت کی توقعات اور اندازوں کے برعکس ختم بھی نہیں ہورہا۔ اس کا جواب بالکل سیدھا سا ہے کہ حکومت اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ ان حلقوں میں کھلی دھاندلی ہوئی ہے جو سپیکر ایاز صادق، وزراء خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور اگر ان حلقوں کی جانچ پڑتال سے یہ دھاندلی کھل کرسامنے آگئی تو یہ بجائے خود حکومت کے خاتمے کی ایک تمہید ہوگی اور یہی وہ احساس جرم ہے جو حکومت کو اس طرف آنے نہیں دے رہا اور جس سے لوگوں کے اضطراب اور عمران خان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور حکومت موصوف کے خلاف جوابی مہم چلانے پر مجبور ہوئی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ اس کا عوام پر کوئی اثر ہورہا ہے نہ عمران خان کی مقبولیت پر ،اس لیے حکومت کے آگے دیوار ہے اور پیچھے کھائی اور دونوں صورتوں میں اس کا بھلا ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، اور نہ ہی اسے کوئی درمیانی راستہ سوجھ رہا ہے ؎
غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں دا
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقت لیلیٰ
اوراب آخر میں بطور خانہ پری یہ تازہ غزل:
جو بھی اپنے تئیں جوڑا میں نے
اصل میں اور بھی توڑا میں نے
کس گھڑی جانیے کیا کر بیٹھوں
خود کو تنہا نہیں چھوڑا میں نے
سامنے گھور اندھیرا تھا، مگر
رخ تری سمت نہ موڑا میں نے
کر دیا اُس کو زیادہ واپس
رکھا اپنے لیے تھوڑا میں نے
کبھی سوئے ہوئے سے کچھ نہ کہا
جاگتے کو ہی جھنجھوڑا میں نے
سامنے اپنے ہی کیوں لا رکھا
آپ کی راہ کا روڑا میں نے
میرا اپنا ہی بیاں تھا جس کو
بعد میں توڑا مروڑا میں نے
دیکھیے اپنا یہ بھانڈہ کیسا
عین چوراہے میں پھوڑا میں نے
شعر پھیکا ہی رہا پھر بھی‘ ظفرؔ
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے
آج کا مقطع
جمانے والے ہو اپنا ہی کوئی رنگ، ظفرؔ 
کہ ہر جما ہوا پہلا مٹانے والے ہو 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved