عوام کا شعور جگانے کے لیے تین ماہ سے جاری سیاسی اور احتجاجی لڑائی اب پلان سی میں داخل ہوچکی ہے۔ کپتان نے کراچی، لاہور اور فیصل آباد کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ چوتھا نمبر پاکستان کا ہے۔ ویسے کپتان آج کل کچھ اِس طرح کے مُوڈ میں ہیں کہ ایشیا یا پھر پوری دنیا کو بھی بند کرنے کا اعلان فرماسکتے ہیں!
بڑے شہروں اور پورے ملک کو بند کرنے کے اعلان پر کپتان کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ساڑھے تین ماہ ہونے کو آئے ہیں، تحریک انصاف کی پتیلی احتجاج کے چولھے پر چڑھی ہوئی ہے۔ کپتان جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے تب بھی بہت لمبا اسپیل نہیں کراسکتے تھے۔ اُنہیں آرام دینے کے لیے چند اوورز دوسرے بالرز سے بھی کرائے جاتے تھے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ وہ رُکے بغیر، سانس لیے بغیر تقریروں کے اوور کرائے جارہے ہیں۔ ایسے میں لائن اور لینتھ کا بگڑنا فطری امر ہے۔ کپتان ساڑھے تین ماہ سے خطاب پر خطاب فرما رہے ہیں۔ ایسے میں اِنسان اندر سے خالی ہو ہی جاتا ہے۔ کوئی کتنا بولے گا اور ہر روز کیا بولے گا؟ ایسے میں اگر کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نکل بھی جائے تو تھوڑے بہت گریس مارکس دینے میں کچھ ہرج نہیں!
30 نومبر کے جلسے کا بڑا غلغلہ تھا۔ قوم کو آس دلائی گئی تھی کہ اُس دن کوئی بہت بڑا اعلان کردیا جائے گا، کوئی ایسا منصوبہ سامنے لایا جائے گا جو پُرسکون نیند کے مزے لوٹنے والی کی عادی ن لیگ کی راتوں کی نیند حرام کردے گا۔ تحریک انصاف کے لوگ تو 30 نومبر کو پاکستانی سیاست کا یومِ حساب بناکر پیش کر رہے تھے۔
کراچی، لاہور، فیصل آباد اور پھر پورے ملک کو بند کرنے کی تاریخیں دے کر کپتان نے نیا قضیہ کھڑا کردیا۔ تمام چینلز پھر ٹرک کی بَتّی کے پیچھے لگ گئے۔ کپتان نے کراچی، لاہور اور فیصل آباد کو مرحلہ وار بند کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی 16 دسمبر کو ملک بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اِس اعلان پر لے دے شروع ہوگئی۔ کیا کپتان کو جوشِ خطابت میں یہ بھی یاد نہ رہا کہ 16 دسمبر کو ملک کا مشرقی بازو الگ ہوا تھا؟ تنقید کے پتّھر برسے تو کپتان کو بڑے شہر اور ملک بند کرنے کا شیڈول بدلنا پڑا۔ نیا شیڈول یہ ہے کہ 8 دسمبر کو فیصل آباد، 12 دسمبر کو کراچی، 15 دسمبر کو لاہور اور 18 دسمبر کو ملک بند کیا جائے گا۔
بڑے شہر اور ملک بند کرنے والی بات ایسی مبہم ہے کہ اب شاہ محمود قریشی کو وضاحتی مشن پر نکلنا پڑا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شٹر ڈاؤن نہیں ہوگا، صرف سڑکیں بند کی جائیں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سڑکیں بند کرنے سے شٹر ڈاؤن کی راہ ہموار نہ ہوگی؟ اور سڑکیں بھی کیوں بند کی جائیں؟ کیا اِس طور حکومت کی راہ روکی جاسکے گی؟ سڑک پر تو عوام سفر کرتے ہیں۔ عوام کو سفر کے حق سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف اور کیسی دانش ہے؟ اور وضاحت کی گَدّی پر بھی اُنہیں بٹھایا گیا ہے جن کی اپنی گَدّی کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے!
بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ کپتان کو اب نوٹنکی ختم کرکے ٹنکی پر سے اُتر آنا چاہیے۔ تمام اہل وطن کی طرح ہم بھی یہی سمجھے کہ اُن کا اشارا بالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم ''شعلے‘‘ کے اُس سین کی طرف ہے جس میں بسنتی (ہیما مالنی) کی خالہ کو رشتہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے ویرو (دھرمیندر) نشے میں دُھت گاؤں کی ٹنکی پر چڑھ جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی شخصیات نے غلط حوالہ دیا ہے۔ ہمارا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ''شعلے‘‘ سمیت بالی وڈ یا لالی وڈ کی کوئی بھی فلم اُتنی تفریح فراہم نہیں کرسکتی جتنی تحریک انصاف پروڈکشنز کی ملٹی کلر پیشکش ''دھرنا‘‘ نے فراہم کی ہے!
اور پھر اِس بات پر غور کیجیے کہ ''شعلے‘‘ میں ویرو نے ٹنکی پر چڑھ کر اِس لیے نوٹنکی فرمائی تھی کہ بسنتی سے اُس کے رشتے کی بات چلانے کے لیے نیچے تماشائیوں میں جے (امیتابھ بچن) موجود تھا۔ کپتان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی بات آگے بڑھانے والا ''جے‘‘ کینیڈا سے یہاں تک تو سیدھی راہ سے آیا مگر اب کسی اور راہ پر گامزن ہے اور اُس کی طبیعت بھی ناساز ہے! ''یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘‘ والی حالت اب ''دوست دوست نا رہا‘‘ والی کیفیت میں بدل چکی ہے! رہے شیخ رشید تو اُنہیں رشتے کے لیے بھیجا نہیں جاسکتا کیونکہ نمائش پذیر سیاسی فلم میں بسنتی کی خالہ تو اُس کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں!
ہاں، ''شعلے‘‘ کے ٹنکی والے سین اور کپتان کے دھرنے میں صرف ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے، یہ کہ اب کپتان کے یومیہ خطاب کے موقع پر تقریباً اُتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جتنے ٹنکی والے سین میں تھے! ہاں، ذرا سا فرق یہ ہے کہ ویرو کو تماشائی اکٹھے کرنے کے لیے کسی ڈی جے کا سہارا نہیں لینا پڑا تھا!
مرزا تنقید بیگ کو بے مزا کرنے والوں میں اب کپتان سرفہرست ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مرزا کو کرکٹ پسند تھی۔ اور ظاہر ہے کہ کپتان بھی پسند تھے۔ جب کپتان نے سیاست کے گراؤنڈ میں قدم رکھا تو مرزا کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کپتان اِس خارزار میں قدم رکھیں۔ افسوس کہ کپتان نے مرزا کی خواہش کا احترام نہ کیا۔
اب مرزا دُکھی ہیں کہ اُن کا اندازہ اور خدشہ درست نکلا۔ سیاست نے کپتان کو دیا کچھ بھی نہیں اور چھین سب کچھ لیا ہے۔ ساڑھے تین ماہ سے احتجاجی مشعل کو روشن رکھنے کی خاطر اُنہیں پتا نہیں کیا کیا داؤ پر لگانا پڑا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو روز کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کا ہے۔
30 نومبر کے جلسے میں کپتان کچھ زیادہ بول گئے۔ ملک بند کرنے کے اعلان کو مخالفین کے ساتھ ساتھ اُن کی صلاحیتوں کے معترفین نے بھی ''کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا‘‘ والی ذہنیت سے تعبیر کیا ہے۔ جس دن ملک دو لخت ہوا تھا اُس دن بچے کھچے پاکستان کو بھی بند کرنے کا اعلان قوم کو حیران اور پریشان کیوں نہ کرتا؟
کوئی بھی معاملہ جب منطقی حد سے بڑھ جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کوئی دھرنا ساڑھے تین ماہ چلے تو اُس کے شرکاء کا کیا حال ہوگا؟
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں۔ ''عوام یہ تماشا دیکھ کر اُوب چُکے ہیں۔ ٹھوس پروگرام کے بغیر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاج بھی نہیں۔ حکومت کو پریشان اور بے حواس کرنے کی بھرپور کوشش اب شدید منفی اثرات پیدا کر رہی ہے یعنی حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں! دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب کپتان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈھائی تین گھنٹے کریز پر رہے اور محض دس پندرہ رنز اسکور کر پائے! کپتان اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی کارکردگی کس کام کی ہوتی ہے!‘‘
کپتان کو چاہنے والوں کی کمی نہیں مگر دوسری طرف اُن سے بدظن ہونے والے مرزا بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ حکومت کا تیا پانچا کرنے کی باتیں کرنے کے بجائے کپتان اگر اپنی پارٹی کی طرف سے کوئی واضح پروگرام دیں اور کچھ کر دکھانے کا عزم ظاہر کریں تو قوم اُن کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوگی۔ نئی نسل کو مست و سرشار کرنا بھی ضروری ہے مگر یہی سب کچھ نہیں۔ بھرپور سیاسی کامیابی پُختہ سوچ بھی چاہتی ہے۔ لمبی اننگز اِسی طور کھیلی جاسکتی ہے۔ کپتان سے زیادہ یہ بات کون سمجھ سکتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میچ میں ٹیسٹ میچ والی ذہنیت یا ٹیسٹ میچ میں ٹی ٹوئنٹی والا ٹیمپرامنٹ نہیں چل سکتا! اب اُنہیں نوٹنکی کا انداز ترک کرتے ہوئے حالات کی ٹنکی سے اُتر کر عوام میں آ جانا چاہیے۔