ٹیلیویژن سے نابینائوں پر پولیس کو ظلم کرتے دیکھ کر میرے ذہن میں معاً خیال آیا کہ میاں شریف مرحوم و مغفور خود زندہ ہوتے یا ان کی اولاد میں سے کوئی پاکستان میں موجود ہوتا‘ تو اندھوں کی بیدردی سے درگت بننے کی خبر سننے یا ٹی وی پر دیکھنے کے ساتھ ہی‘ ان میں سے کوئی نہ کوئی فوری طور پر ان کی دادرسی کو پہنچتا۔ ان کے ساتھ ہونے والی وحشیانہ بدسلوکی پر اظہار افسوس کرتا اور مجرموں کو ترنت سزا دے کر‘ انہیں کیفر کردار کو پہنچا دیتا۔ ان مناظر نے میری روح کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وحشت و درندگی کے ان مناظر کو ہضم کیسے کروں؟ بصارت سے محروم یہ معذور لوگ‘ اپنی فریاد ذمہ داروں تک پہنچانے کے لئے‘ اکٹھے ہو کر باہر نکلے۔ ان کا قصور تھا کہ انہوں نے بھیک مانگے کی ذلت سے بچنے کی خاطر تعلیم حاصل کی اور اپنے مخصوص کوٹے میں سے نوکری مانگنے نکل کھڑے ہوئے۔ ٹھوکریں اور دھکے کھاتے کھاتے کسی طرح کلب روڈ پہنچ گئے‘ جہاں وزیر اعلیٰ کا دفتر ہے۔ اچانک ان پر پولیس پل پڑی۔ نابینائوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جو انسان دیکھ ہی نہ سکتا ہو‘ وہ اپنا بچائو کیسے کر سکتا ہے؟ انہیں دھکے‘ مکے اور لاٹھیاں پڑ رہی تھیں۔ وہ بچنے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔ وہی بدبخت پولیس والے‘ انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے دھکیل بھی رہے تھے اور ان کی پٹائی بھی کر رہے تھے۔ ایک نابینا شخص کو میں نے موٹر سائیکل پر گرے ہوئے دیکھا۔ اس کا سر موٹر سائیکل کی گدی پر اٹکا تھا۔ ٹانگیں پیچھے کھڑے موٹر سائیکل کے ہینڈل پر تھیں اور وہ بڑے اذیت ناک طریقے سے‘ دونوں موٹر سائیکلوں پر پھنسا پڑا تھا۔ وہ کافی دیر پڑا رہا ہو گا۔ کیونکہ ٹی وی پر کئی مرتبہ اسی حالت میں نظر آیا۔
شام 6 بجے ٹی وی کا خبرنامہ دیکھا‘ سکرین پر عزیزہ مریم کا ٹویٹ پیغام تھا۔ جس میں وہی درد‘ جو اس خاندان کی روایت ہے‘ ظاہر ہو رہا تھا۔ مریم بی بی نے لکھا کہ ''وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم دونوں بیرون ملک ہیں۔ ان میں سے کوئی یہاںہوتا‘ تو اب تک جرم کرنے والوں کو سزا مل چکی ہوتی۔‘‘ مریم بی بی غالباً اب آئینی اور قانونی پابندیوںکے ضرورت سے زیادہ استعمال کی بنا پر‘ رک گئی ہوں گی۔ ورنہ میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے موقع پر پہنچ کر وہی کچھ کرنا تھا‘ جو ان کے چچا یا والد گرامی کرتے۔ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کیوں نہیں پہنچ پائے؟ اس کی یقینا کوئی وجہ ہو گی‘ جو میرے علم میں نہیں‘ لیکن اندھوں پر لاٹھی چارج اور دھکم پیل کا یہ مظاہرہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا نہیں تو انوکھا واقعہ ضرور ہو گا۔ جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے‘ اپنا حق مانگنے کے لئے جمع ہونے والے نہتے نابینائوں پر ایسی کارروائی‘ دنیا میں کسی ملک کی پولیس نے نہیں کی ہو گی۔ میں تو اسی وقت سے اپنی قوم کے اخلاقی انحطاط کی حالت پر غور کرتے ہوئے اندازہ لگا رہا ہوں کہ کیا اخلاقی پستی کا اس سے نیچے کوئی درجہ ہو سکتا ہے‘ جو آج دیکھنے میں آیا؟ پولیس سے زیادہ غصہ مجھے اپنے آپ پر بھی ہے۔ جب میری قوم کا اخلاقی انحطاط شروع ہوا‘ تو اسے میں روکنے میں زیادہ موثر کردار کیوں نہ ادا کر سکا؟ اپنے آپ کو بہت ملامت کی۔ لیکن پھر وہی روایتی بزدلانہ عذر کہ ''میں اکیلا کیا کرتا؟‘‘ جرم یہ نہیں کہ میں اکیلا ہوا۔ جس جرم کا میں نے ارتکاب کیا‘ وہ یہ تھا کہ میں نے اکیلا ہونا برداشت کر لیا۔ میں نے خیر کی طاقتوں کو متحد کر کے‘ ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ نوجوانی میں جتنی سمجھ تھی‘ اس کے تحت معاشرے میں اپنے لئے جو کردار مجھے سمجھ میں آیا‘ حتی المقدور ادا کرتا رہا۔ سیاسی اور فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ جب میں نے سماجی زندگی میں حصہ لینا شروع کیا‘ اس وقت نوجوانوں کے لئے سیاست‘ خدمت کا نام تھی۔ میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں جو امیدوار حصہ لیتے‘ ان میں دو ایسے تھے‘ جن کے ڈیرے پر میں بھی خدمات انجام دیتا۔ بلدیاتی انتخابات میں شہر کئی چھوٹے چھوٹے انتخابی حلقوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک حلقے سے میرا کزن عنایت بھائی ہر انتخاب میں حصہ لیتا۔ اسے جیت ہار سے غرض نہیں تھی۔ اپنا شوق پورا کرتا۔ ایک دو بار وہ منتخب بھی ہو گیا تھا۔ دوسرا امیدوار عبداللہ تھا۔ میں دونوں کے لئے ووٹ مانگا کرتا اور وہ اپنی خدمات کی فہرست کا جو پمفلٹ مجھے تھماتے‘ میں گھر گھر جا کے ووٹروں کو پڑھ کے سنا دیتا۔ مجھے یاد ہے‘ ایک الیکشن میں پولنگ ایجنٹ بھی بنا تھا۔ یقین کیجئے کہ اس وقت کے موری ممبروں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ کرپشن کیسے کی جاتی ہے؟ سیاست میں خدمت اور عزت کے لئے حصہ لیتے اور روزی روٹی اپنی کماتے۔ قومی اسمبلی میں ہمارے حلقے سے شیخ سعید امیدوار بنتے اور کامیاب ہوتے۔ وہ ایک باعزت وکیل تھے۔ ان کی پریکٹس بہت اچھی تھی۔ وہ منتخب ہوتے یا نہ ہوتے‘ عوامی خدمت کا کام ہر حال میں کرتے رہتے۔ قومی اسمبلی کے دوسرے امیدوار‘ نواب افتخار ہوا کرتے تھے۔ وہ ان سے بھی زیادہ درویش منش انسان تھا۔ انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے‘ اپنی اپنی خدمات کا ذکر کیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جاتا کہ میں اپنے حریف سے زیادہ آپ کی خدمت کروں گا۔ پولیس کی بھی کوئی برائی میرے مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔ میرے والد آزادی سے پہلے اے ایس آئی تھے۔ وہ قلعہ پھلور میں طویل عرصے تک ریکروٹوں کو ٹریننگ دیا کرتے۔ پورے پنجاب میں کہیں نہ کہیں‘ ان کا کوئی نہ کوئی شاگرد یا کولیگ ضرور موجود ہوتا۔ ایک تو ویسے ہی لحاظ کا زمانہ تھا‘ دوسرے ابا جی کا حوالہ۔ مجھے پولیس والوں میں خوش اخلاقی ہی دکھائی دیتی۔ معاشرے کی عمومی اخلاقی حالت کی وجہ سے یا کسی حد تک ابا جی کے حوالے سے۔ میرا ایک بیٹا بھی پولیس افسر ہے۔ میں نے دونوں سے ایک ہی بات سن رکھی ہے کہ پولیس والوں کو پہلا سبق یہ سکھایا جاتا ہے کہ مظلوموں اور معذوروں کی مدد کرنا‘ آپ کا پہلا فرض ہے۔ تربیت کے دوران‘ انہیں یہ پہلا سبق بار بار پڑھایا جاتا ہے۔ باقی سارے سبق بھلائے
جا سکتے ہیں۔ لیکن انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے والا یہ سبق کوئی نہیں بھلا سکتا۔ برے سے برے خاندان میں‘ جنم لینے والے بچے کو انسانی ہمدردی کا پالنے ہی سے پتہ چل جاتا ہے۔ آپ چھوٹے بچوں کو دیکھیں۔ آپس میں لڑتے ہوئے‘ دوسرے کو چوٹ لگا بیٹھیں‘ تو فوراً ہی چوٹ کھانے والے کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگتے ہیں۔ انسان کی عمر کوئی بھی ہو اور وہ بنیادی انسانی اخلاق سے کتنا ہی کیوں نہ گر جائے؟ لیکن کمزوروں اور معذوروں پر ہاتھ اٹھانے کا حوصلہ پھر بھی نہیں پڑتا۔ لاٹھی سے مارنا تو دور کی بات ہے۔ یہ کہاں کے لوگ تھے؟ جو خمیر میں گھولی ہوئی انسانی فطرت کی یہ خصلت بھی گنوا بیٹھتے ہیں؟ میرا ذہن ابھی تک شل ہے۔ اپنے دوست نسیم باجوہ کے کالم میں پڑھے‘ اس واقعہ کو یاد کر رہا ہوں‘ جس میں ایک 36 سالہ جوڑے نے اپنی جمع پونجی ساتھ لے کر مالٹا میں جو کہ ایک جزیرہ ہے‘ باقی زندگی ‘سکون سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں رہنے سے انہیں پتہ چلا کہ ایشیا اور افریقہ سے روزی روٹی کی تلاش میں آنے والے بھوک کے مارے لوگوں کو دھوکے باز‘ کشتی میں بٹھا کر گہرے سمندر میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھٹکتے ہوئے کسی ملک کے ساحل سے جا لگتے ہیں اور کچھ درمیان میں ہی ڈوب جاتے ہیں۔ ان ڈوبنے والوں کی بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے‘ اس جوڑے نے سوا چھ لاکھ پونڈ (تقریباً 6 کروڑ روپے) سے ایک کشتی خریدی‘ جو افریقہ سے بھاگ کر یورپ جانے والوں کو ڈوبنے سے بچانے پر لگا دی گئی۔ اس جوڑے کی کل پونجی 10 لاکھ پونڈ تھی۔ گویا اس نے اپنے کل اثاثے کا 62.5 حصہ اس کار خیر پر لگا دیا۔ میں آج سوچ رہا ہوں کہ مذہب کے نام پر پاکستان میں دولت سے کھیلنے‘ بڑے بڑے مناصب پر فائز ہونے‘ مساجد کی آمدنی سے خوشحال زندگی گزارنے والے‘ مبلغین نے اگر اپنے خطبات میں اسلام کی حقیقی روح کے مطابق ایک فیصد بھی تبلیغ کی ہوتی‘ تو پاکستانی معاشرہ اخلاقی پستی کے اس درجے پر نہ پہنچتا۔ ہمارے گلے میں ان گنت برے کاموں کے طوق‘ اتنی زیادہ تعداد میں لٹک رہے ہیں کہ جو گردن کبھی شرم سے نہیں جھکی‘ ان طوقوں کی کثرت سے جھکتی جا رہی ہے اور یہ نیا طوق جو پولیس نے ہمارے گلے میں ڈالا ہے‘ اس کے بعد پتہ نہیں اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی بھی رہ گئی ہے یا نہیں؟ نواز شریف اور شہباز شریف‘ دونوں کے لئے یہ جھٹکا‘ ان کے احساس ذمہ داری پر چوٹ لگانے والی آخری ضرب ہونا چاہیے۔ ان دونوں کے دردمند دلوں میں موجود‘ انسانی ہمدردی کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سیاست میں وہ کچھ بھی کریں‘ دردمندی کا انسانی جذبہ اس ورثے سے کہیں زیادہ ہے‘ جو انہیں اپنے والد مرحوم سے ملا۔ یہ ایک چوٹ ہے‘ جو پولیس نے انہیں جگانے کے لئے لگائی ہے۔ ان کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ پولیس کو انسانی جذبات اور اخلاقیات سے دوبارہ آشنا کرنے کے لئے خصوصی مہم چلائیں اور پانچ سال تک مسلسل جاری رکھیں تاکہ پولیس کو اپنے پیشے کا پہلا سبق دوبارہ یاد آ جائے۔ وہ سبق جو آزادی کے بعد‘ مسلسل بھلایا جانے لگا اور آج یہ حالت ہو گئی ہے کہ دنیا میں اندھوں پر پہلی بار‘ لاٹھیاں برسانے کا معرکہ بھی پاکستان میں انجام دیا گیا۔