تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-12-2014

معجزے کا انتظار

کسی قدر وزیرِ اعظم نواز شریف مگر ان سے کہیں زیادہ عمران خاں کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ ایسے لوگ اپنا ہدف حاصل نہیں کر پاتے اور حالات ان کے مقدّر کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ 
سفر درپیش ہے۔ شاید آج لکھ نہ سکتا مگر برادرم ارشاد عارف کی تحریر نے اکسایا۔ تجزیہ ان کا جامع ہے بلکہ قابلِ رشک۔ چند گزارشات البتہ ہیں۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو مگر مذاکرات کی بیل مجھے منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ فریقین میں باہمی اعتماد کا خوفناک فقدان ہے۔ بات چیت حکومت کی نفسیاتی ضرورت ہے، ایک آدھ نہیں، کئی اسباب سے جس کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ فقط عمران خان کا دھرنا اور جلسے ہی نہیں، کئی میدانوں میں اس کی ناکردہ کاری، فوج سے اس کے تعلقات کی نوعیت، امن و امان کی تباہی اور جنرل راحیل شریف کا دورۂ امریکہ بھی میاں محمد نواز شریف کے لیے خلجان کا باعث ہے۔ اپنی پارٹی کے بے پناہ تحرّک اور عوامی پذیرائی کے باوجود عمران خان بھی بعض سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔ 
شمالی پنجاب کے لیے پارٹی کے صدر صداقت عباسی بیس دن سے معطل ہیں۔ کپتان کے کنٹینر پہ چڑھنے سے انہیں روکا گیا‘ تو اس کے کزن احمد نیازی سمیت سکیورٹی اہلکاروں کو انہوں نے مارا پیٹا۔ بتایا گیا ہے کہ انہی صاحب کی معطلی کے نتیجے میں راولپنڈی کے حلقے این اے 54 سے 68 ہزار ووٹ حاصل کرنے والی حنا منظور نے استعفیٰ دیا ہے۔ صداقت عباسی ان عہدیداروں میں شامل ہیں، اوّل روز سے جن کا انتخاب متنازع رہا۔ عمران خان کے سیکرٹری نعیم الحق کا کہنا ہے 
کہ انہوں نے ایک جعلی فہرست کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔ اس پر بھی علی الاعلان وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پورے پوٹھوہار میں عمران خان کسی کو ٹکٹ نہ دے سکیں گے۔ دوسرے کئی عہدیداروں کا حال بھی یہی ہے۔ اسی لیے جسٹس وجیہ الدین احمد کی سرکردگی میں قائم کمیٹی نے مارچ میں نئے الیکشن کرانے کی سفارش کی ہے۔ پارٹی کے بعض ذمہ دار عہدیداروں کے مطابق عمران خان اس پر ناراض ہوئے۔ ناراض تو وہ اعجاز چوہدری اور بعض دوسرے منصب داروں کے ساتھ بھی ہیں۔ شاہ محمود کے لیے کپتان نے ایک بہت ہی سخت لفظ استعمال کیا، جو لکھّا نہیں جا سکتا۔
کپتان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وسط مدّتی الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔ مڈ ٹرم الیکشن تو رہے ایک طرف، اسلام آباد پہنچتے ہی انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کا استعفیٰ لیے بغیر وہ ٹلیں گے نہیں۔ سول نافرمانی کا اعلان کیا اور سمندر پار پاکستانیوں سے بینکوں کی بجائے ہنڈی استعمال کرنے کا کہا۔ ایسے انتہا پسندانہ مشورے انہیں کس نے دیے؟ بہت سی سنسنی خیز داستانیں اس سلسلے میں سنائی دیتی ہیں، جن کے بیان کرنے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ دو واقعات زیادہ اہم ہیں۔ اوّل جب خوشخبری سنائی کہ امپائر کی انگلی بس اٹھنے ہی والی ہے۔ ثانیاً جب یہ کہا: اپنی ٹیم کو میں نے بتا دیا ہے کہ بے شک وہ بات کرتی رہے، میں استعفیٰ لیے بغیر نہ جائوں گا۔ 
عام جلسے منعقد کرنے کے لیے دور دراز کے شہروں میں وہ پہنچے تو والہانہ ان کا استقبال کیا گیا‘ مگر 30 نومبر کا جلسہ ان کی توقعات کے مطابق نہ تھا۔ اسی پر اعجاز چوہدری سے انہوں نے باز پرس کی جو گنتی کی چند کاروں کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔
شاندار کوریج نے تاثر خراب ہونے نہ دیا وگرنہ واقعہ یہ ہے کہ 30 نومبر کو مظاہرین کی تعداد عمران خان کی توقعات سے بہت کم تھی۔ دانا لوگوں کا کہنا ہے کہ کپتان ایک معجزے کی امید کے ساتھ سرگرم ہے۔ 14 اگست کو دس لاکھ مظاہرین کے ساتھ اس نے دارالحکومت پہنچنے کا اعلان کیا تھا۔ صرف موٹر سائیکلوں کی مجوّزہ تعداد ایک لاکھ بتائی گئی تھی۔ اس کے باوجود کہ آخری مرحلے میں حکومت نے کوئی خاص مزاحمت نہ کی، کسی بھی مرحلے پر وہ 30، 40 ہزار سے زیادہ نہ تھے؛ حتیٰ کہ علّامہ طاہرالقادری کے مریدین کی تعداد گاہے ان سے زیادہ ہو جاتی۔ 30 نومبر سے پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھیے، اب کی بار بھی وہ ایک ملین حامیوں کے ساتھ یلغار کا عزم رکھتا تھا۔ اگرچہ کوئی دوسری پارٹی اسلام آباد میں اس سے آدھا جلسہ بھی نہیں کر سکتی مگر خان کا خواب بہرحال پورا نہ ہو سکا۔ پورے ملک کو بند کر دینے کے دعوے سے اب بتدریج وہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔
مذاکرات اس پسِ منظر میں ہوں گے اور ان لوگوں کے ساتھ، جنہیں مسلسل وہ چور، ڈاکو اور لٹیرے کہتا رہا۔ کبھی معاف نہ کر نے والے میاں محمد نواز شریف اور پارٹی کے عقاب تو رہے ایک طرف، نون لیگ کے حلیف جناب آصف علی زرداری کا حال یہ ہے کہ کپتان پر وہ دانت پیس رہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے فصلی بٹیرے انہیں تحریکِ انصاف کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی خان اور محمود اچکزئی سمیت، سبھی کپتان کے مقابل متحد ہیں۔ کیا وہ تحریکِ انصاف اور نون لیگ میں ایسا سمجھوتہ گوارا کر لیں گے، جس سے عمران خان کی کامیابی کا تاثر اجاگر ہو؟ عمران خان کی حکمتِ عملی کا بنیادی نقص صرف یہ نہیں کہ سال بھر اسے انتظار کرنا چاہیے تھا تاآنکہ حکومت نامقبول ہو جاتی۔ یہ بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں اس نے کئی لشکروں پر حملہ کیا۔ ان میں سے ہر شائیلاک اب اپنے حصے کا ایک پونڈ گوشت کاٹنے کی کوشش کرے گا۔ اپنے نفع و نقصان کے باب میں سیاستدان تاجروں سے زیادہ بے رحم ہوتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے اعصاب پر عمران خان سوار ہیں کہ لندن میں بھی انہی کے بارے میں بات کر تے رہے۔ ان کی خوش قسمتی مگر یہ ہے کہ چین سے سرمایہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ پھر یہ کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 39 فیصد گر گئیں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ درآمدی بل شاید 7.6بلین ڈالر تک کم ہو جائے۔ مزید برآں سمندر پار پاکستانی کچھ زیادہ روپیہ بھیج رہے ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں 1400 میگاواٹ اضافہ ہوا ہے۔ مہلت مل سکی تو آئندہ ڈیڑھ دو سال کے اندر بجلی کا بحران محدود ہوتا نظر آئے گا۔ 
عمران خان کی حکمتِ عملی کا ایک اور بہت ہی بڑا نقص یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ہی نہیں بلکہ چین کو بھی غیر ضروری طور پر انہوں نے ناراض کیا۔ غور سے دیکھیے تو کاروباری طبقے کو بھی، نون لیگ جس کی سرپرست ہے۔ ان سب عوامل کو انہیں ملحوظ رکھنا چاہیے تھا مگر ان کا غیر سیاسی ذہن اور ان کے ''دانا‘‘ مشیر۔ صداقت عباسی، اعجاز چوہدری اور سکول کے لڑکوں ایسی تقاریر کرنے والا شاہ محمود!
عمران خان کی سب سے بڑی طاقت جوش و خروش سے بھرے کارکن ہیں، ہر قربانی دینے پر جو آمادہ ہیں۔ اس خیرہ کن طاقت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے تنظیم ضروری ہے، تربیت اور موزوں عہدیدار۔ خان صاحب ان چیزوں کو مگر کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ 
مذاکرات ملک کے مفاد میں ہیں۔ نتیجہ خیز ہو سکیں تو بڑی خوش بختی ہو گی۔ دونوں طرف سے مگر خلوص اور احتیاط لازم ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اس عمل میں عسکری قیادت کی خاموش مگر خوش دلانہ حمایت بھی۔ بدترین بحرانوں سے گزرنے والے پاکستانی سیاستدانوں نے کچھ زیادہ نہیں سیکھا۔ یہ المیے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ وہ کچھ سیکھنے کے آرزومند ہی نظر نہیں آتے۔ 
کسی قدر وزیرِ اعظم نواز شریف مگر ان سے کہیں زیادہ عمران خاں کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ ایسے لوگ اپنا ہدف حاصل نہیں کر پاتے اور حالات ان کے مقدّر کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved