تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     04-12-2014

کپتان کی بلندی

کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والے کپتان، عمران خان کا پاکستان کی موروثیت اور جاگیرداری کے پنجوں میں جکڑی ہوئی سیاست کے افق پر ابھرتے ہوئے اس کا اہم ترین کھلاڑی بننا اور حالات و واقعات پر اپنی گرفت جمانا گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران رونما ہونے والی وہ اہم ترین تبدیلی تھی جس کا ہم نے شاید ہی کبھی مشاہدہ کیا ہو۔ اس تیس نومبر کو اسلام آباد ریلی، جسے بلاشبہ کپتان ، بلکہ اسلام آباد میں ماضی یا حال میں کسی بھی رہنما کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جاسکتا ہے، سے اس تاثر کی تصدیق ہوئی کہ ملک میں عمران خان کی حمایت میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے پہلے اُن کی طرف سے پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں منعقد کی جانے والی ریلیاں کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔ ان میں خاص طور پر پنجاب میں کیے جانے والے جلسوں میں شرکا کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ تھی ۔ عمران کے ناقدین کے علاوہ اُن کے حامی بھی اتنی بڑی کامیابیوں کی توقع نہیں کررہے تھے۔ اُنھوں نے پاکستان کے اہم ترین مسائل، جیسا کہ طبقۂ اشرافیہ کی ہوشربا حد تک بڑھتی ہوئی بدعنوانی، سرکاری وسائل کی لوٹ مار، اقربا پروری، ناقص حکمرانی اور تعلیم اور صحت کے عوامی منصوبوں میں افسوس ناک حد تک کم سرمایہ کاری ، کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے سیاسی کلچر کو تبدیل کردیا ۔ 
جس دوران سیاسی میدان میں عمران خان کی یلغار جاری ہے، روایتی سیاسی جماعتوں نے ''جمہوریت کے بچائو‘‘ کی ڈھال کے پیچھے پناہ لینے میں ہی عافیت گردانی۔ اُنھوں نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت دکھائی اور کپتان کی احتجاجی سیاست کے خلاف متحد ہو کر صف بندی کی پالیسی اپنائی؛ تاہم عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اُن کے ہاتھ سے پیش قدمی کا موقع چھین کر اُنہیں دفاعی قدموں پر لا کھڑ ا کیا۔درحقیقت اُن کے پاس پی ٹی آئی کے اس نعرے کا کوئی توڑ نہیں کہ روایتی سیاسی جماعتیں اپنے عہدے اور اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرتی ہیں، تاہم اُنہیں امید تھی کہ عمران خان احتجاج کا ٹمپو برقرار نہیں رکھ پائیں گے اور دھرنے اور احتجاجی جلسے رفتہ رفتہ دم توڑ جائیں گے۔ تاہم موجودہ جلسوں نے اُنہیں چکرا دیا ہے کیونکہ نہ تو کپتان میں تھکاوٹ کے آثار دکھائی دیے اور نہ ہی ان کے نوجوان حامیوں میں۔ اس کی بجائے سیاسی نظام کو بدلنے کے نعرے بلند سے بلند ہوتے گئے ۔ یہ صورت ِحال دیگر سیاسی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ آج سے سو دن پہلے کوئی بھی موجودہ صورتِ حال کی توقع نہیں کررہا تھا اور نہ ہی اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ کیا ہم ایک نئی قسم کے سیاسی اور سماجی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ 
پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتیں اس صورت ِحال کی تفہیم کرنے میں ناکام رہیں ، یا پھر اُنھوں نے جان بوجھ کر پاکستان کے درمیانی طبقے اور اس میں اٹھنے والی اس بے مثال تحریک سے اغماض برتنے کی پالیسی جاری ۔ جب عوا م نے دیکھا کہ یہ روایتی سیاسی جماعتیں اُن کے مسائل اور شکایات سے لاتعلق ہیں تو وہ کپتان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ خاندانی سیاست پر مبنی جماعتوں کے پاس حقائق پسند عوام کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ تعلیم کے فروغ اور شہری علاقوں میں عوام کے آباد ہونے کے عمل نے ہنرمند اور ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل درمیانے طبقے کی وقعت کو بڑھا دیا ہے۔ کل کا علم نہیں لیکن آج اس طبقے کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ 
جمہوری سیاست میں رہنمائوں کی سربلندی میں ان کی ساکھ اور اس کے عوام کی نگاہوں میں مثبت تاثر کی بہت اہمیت ہے۔ یہ سوال ہمیشہ سے عوام کے ذہن میں رہتا ہے کہ کیا وہ اپنے رہنمائوں پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ہمارے زمینی حقائق یہ کہتے ہیںکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن)کے نزدیک عوام کی بہت کم اہمیت پائی گئی ہے۔سیاسی عمل میں عام آدمی کو اہمیت دینے کی بجائے اُنھوں نے قابل ِ انتخاب سیاسی خاندانوںکے نیٹ ورکس سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ایسا کرتے اور انتخابات جیتتے، ہوئے وہ پاکستان میں بتدریج رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی پر نظر نہ رکھ سکے، یا اپنی کامیابیوں کے زعم میںنظر انداز کرگئے۔ اس تبدیلی کا محور خاندانی اور موروثی سیاست سے بیزاری اورتبدیلی کے نعرے، جسے میڈیا اور سماجی بیداری نے مہمیز دیا ،کی عوامی حلقوں میں پذیرائی ہے۔ کچھ عرصے سے یہ روایتی جماعتیں اُس سیاسی حقیقت سے خود کوہم آہنگ کرنے میں ناکام ہیں جو پاکستان میں سرائیت کرتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس، عمران خان اس تبدیلی کے داعی بن کر میدان میں موجود ہیں۔ اس لیے جو کچھ وہ کہتے ہیں، لوگ سنتے اور یقین کرتے ہیں۔ درحقیقت اُنھوں نے ملک کے بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر عوام کے ذہن پر گہرے سیاسی نقوش مرتب کیے ہیں۔ یہ نقوش روایتی جماعتوں کے روایتی حربے نہیں مٹا سکیں گے۔ 
آخرمیں، کپتان کے سیاسی پیغام ۔۔۔شفاف الیکشن۔۔۔ نے ملک کے سیاسی ماحول میں زبردست ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ جو حلقے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی وابستگی نہیں رکھتے، وہ بھی اس پیغام کو رد کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان کئی سالوں سے بڑے تسلسل کے ساتھ میرٹ،حکومت امور میں شفافیت، احتساب اور ذمہ دار حکومت کی باتیں کررہے ہیں۔ چونکہ عوام کی اکثریت ناقص حکومتی کارکردگی، بدعنوانی، اقرباپروری اور عوامی فلاحی کاموں میں سرکارکی عدم دلچسپی دیکھ کر موجودہ روایتی سیاسی نظام سے بیزار تھی، اس لیے اُنھوں نے تبدیلی کے لیے اپنا وزن کپتان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ 
کپتا ن کی عوامی پذیرائی کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے انتخابی دھاندلی کو سیاسی ایشو بنا کر روایتی سیاست کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوام کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب جارہے ہیں کہ یہ بدعنوان اور گلاسڑا خاندانی سیاست پر مبنی نظام اُن کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ نوجوان افراد کپتان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ملک میں جدید تعلیم اور انصاف کی فراہم کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ روایتی مذہبی افراد کے نزدیک وہ استعماری طاقتوں کے خلاف وطن کی خودمختاری کی بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ فی الحال ان کاکوئی مالیاتی اسکینڈل منظرِ عام پر نہیں آیا‘ اس لیے عوام اُنہیں بجا طور پر تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ آج کا اہم ترین سیاسی بیانیہ تبدیلی ہے اوریہ تبدیلی روایتی سیاست کے خلاف ہے اور کپتان اس تبدیلی کے نقیب ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved