تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-12-2014

چلو آج چھٹی کرتے ہیں!

کالم لکھنے کا موڈ نہیں‘ آج چھٹی کرتے ہیں۔ ویسے بھی‘ کل والے نشے کی سرشاری ابھی باقی ہے کہ جنید کی سالگرہ تھی۔ شام کو گاڑی اس نے بھجوا دی تھی۔ مختصر سی تقریب تھی یعنی گھروالوں کے علاوہ تین چار مرد و خواتین اور بس۔ شام ڈھلے اپنی مسز کے ہمراہ آفتاب بھی آ گئے۔ کمرے کی روشنی میں مزید اضافہ ہوا۔ اویس اور بی بی کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ اس سے پہلے شہریار اور ارحم‘ دونوں پوتوں کے ساتھ سکریبل کی بازی لگائی۔ میں صاف جیت رہا تھا کہ مذکورہ جوڑی آ گئی اور سب کچھ بیچ میں چھوڑنا پڑا۔ دونوں پوتوں کا خیال ہے اور شاید ٹھیک ہی ہے کہ میں گیم کے دوران چِٹنگ کرتا ہوں کیونکہ اگر یہ گیم ہے تو یہ اس کا حصہ ہی ہے یعنی نو چِٹنگ‘ نو گیم۔ پھر مزہ تب آتا ہے جب آپ کی چِٹنگ پکڑی جاتی ہے! 
جنید میری کمزوری ہے اور سب کو اس بات کا علم بھی ہے گویا وہ میرا معشوق اور اس کی مسز‘ فرح میری رقیب۔ اولاد کی نعمت دنیا کے اس حیرت کدے کی غالباً سب سے خوبصورت چیز ہے‘ اگرچہ اسے فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ ہر روز اس طرح کی خبریں پڑھتے ہیں کہ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو گولی مار دی‘ وغیرہ۔ اللہ معاف کرے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری اولاد کی آپس کی محبت بجائے خود ایک اعجوبہ ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی کہ میں نے اسے رزقِ حلال کھلایا ہے۔ واجبی سی میری وکالت چلتی تھی جس دوران میں نے گھر بھی بنایا اور زمین بھی خریدی‘ گاڑیاں بھی رکھیں ورنہ پہلے ایک مدت سائیکل سوار رہا۔ میرے پاس نہایت خوبصورت ریلے سائیکل ہوا کرتی تھی جو ان دنوں پرمٹ پر ہی دستیاب ہوتی تھی۔ مجید امجد ان دنوں ساہیوال میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر تھے جنہیں اس پرمٹ پر اختیار تھا؛ چنانچہ انہوں نے میرے‘ اشرف قدسی اور اپنے لیے ایک ایک سائیکل نکلوائی تھی۔ 
عرض یہ کرنے لگا تھا کہ میں بیک وقت اوتھ کمشنر بھی تھا اور نوٹری پبلک بھی۔ میرے بے تکلف کو لیگ کہا کرتے کہ دیکھو جی کتنا بڑا شاعر اور صحافی ہے (یہ شاید ان کا خیال ہی تھا) اور پانچ پانچ دس دس روپے کی ٹھپیاں لگاتا ہے۔ میں انہیں کہتا کہ میں کئی دوسروں کی طرح پولیس کی دلالی کرتا ہوں نہ مجسٹریٹوں اور ججوں کی۔ حق حلال کے دو چار سو بنا کر لے جاتا ہوں اور اپنے بچوں کو پال رہا ہوں؛ چنانچہ میں نے پہلے انہیں ساہیوال کے کانوینٹ‘ اس کے بعد اوکاڑہ کینٹ کے پبلک سکول اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم دلوائی۔ جبکہ میری واحد بیٹی بھی راوین ہے چنانچہ میں ان کا عاشق ہوں اور وہ میرے۔ 
میں ٹیرس پر جس جگہ بیٹھا ہوں‘ اس کے کناروں پر گلاب کی جھاڑیوں کی باڑ ہے اور جو بات میں آپ کو بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک شاخ پر جو غنچہ جوان ہو چکا ہے اس کی ایک سمت سرخ ہے اور دوسری زرد۔ یہ کارستانی بھی مغربی ماہرینِ نباتات ہی کی لگتی ہے۔ 
ڈفی ہمیشہ سے مجھ سے دور دور ہی رہتا ہے اور کنی کتراتا ہے۔ آج میں نے پُچکارا تو آ کر قدموں میں لوٹنے لگا۔ یہ بھی عجیب محبت خوری چیز ہے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے‘ جب اس کی عمر چند دن ہی ہوگی‘ ڈسکہ سے میرے مرحوم اور عزیز ترین دوست منور نصراللہ خاں کے بیٹوں بابر اور محمد نے بھجوایا تھا۔ اس کے ساتھ ایک لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جس روز آیا تھا‘ اسی روز کھلے رہ گئے گیٹ سے نکل کر کہیں غائب ہو گیا۔ پریشانی ہوئی‘ اس لیے نہیں کہ اس کی قیمت اس وقت بھی کوئی ایک لاکھ روپے ہوگی کہ خالص لیبرے ڈار نسل کا تھا‘ بلکہ یہ کہ محمد اور بابر کہیں گے کہ اتنی محبت سے بھیجے گئے اس تحفے کے ساتھ انہوں نے یہ سلوک کیا ہے؛ تاہم تھوڑی تلاش کے بعد اسے ڈھونڈ نکالا‘ اور سب کی جان میں جان آئی کہ تینوں پوتیاں عائشہ‘ شانزے اور نیحا اس کی موجودگی سے بے حد ایکسائیٹڈ تھیں۔ نسل کے حساب سے تو کتوں کی بے شمار قسمیں ہیں؛ تاہم ان کے استعمالات بھی کچھ کم نہیں۔ ان سے شکار میں مدد لی جاتی ہے‘ گھر کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اپنی قوتِ شامعہ کی مدد سے چوروں کا سراغ لگانے کا کام بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کتوں کی لڑائی کے میچ بھی منعقد ہوتے ہیں۔ منور مرحوم یہ لڑائی دیکھنے کے لیے چیچہ وطنی بھی آیا کرتا تھا۔ اس کے ہر دو نورِ نظر بھی کتوں اور دیگر پالتو جانوروں اور پرندوں کے بے حد شوقین ہیں۔ اپنا ایک شعر یاد آرہا ہے‘ اس غزل کی ردیف بھینس تھی ؎ 
پالتو ہیں کہ فالتو، مت پوچھ 
میں، کبوتر، چکر، کتا، بھینس 
امریکی مزاح نگار مارک ٹوین لکھتے ہیں کہ میرے بچپن تک ہم اتنے غریب ہوا کرتے تھے کہ گھر میں کتا نہیں رکھ سکتے اور چوروں کو بھگانے کے لیے باری باری رات بھر کتوں کی طرح بھونکا کرتے تھے۔ پھر کتے کی وفاداری بھی مشہور ہے۔ ایک صاحب کتا خریدنے کے لیے کتوں کی دکان پر گئے‘ خریدنے کے بعد دکاندار سے بولے: 
''یہ کتا مہنگا تو ہے لیکن کیا یہ وفادار بھی ہے؟‘‘ 
''وفاداری کی کچھ نہ پوچھیے‘‘ دکاندار بولا‘ ''اسے اب تک کوئی بیس دفعہ فروخت کر چکا ہوں لیکن یہ ہر بار میرے پاس آ جاتا ہے!‘‘ 
آفتاب اور جنید کے بچوں سے تو یہیں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ آفتاب کے بچے ویک اینڈ پر یہیں آ جایا کرتے تھے لیکن اب امتحانات کی وجہ سے یہ سلسلہ موقوف ہے۔ کچھ عرصے کے بعد انشاء اللہ پھر سے رواں ہو جائے گا۔ بڑی پوتی عائشہ لندن میں زیر تعلیم ہے‘ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دسمبر میں واپس آئے گی تو ساری اداسیاں دور ہو جائیں گی۔ اویس کے تینوں بڑے بچے‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی‘ یہیں پر زیر تعلیم ہیں‘ جن سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ چھوٹی بیٹی مومنہ جسے ہم سب پیار سے کاکا کہتے ہیں کبھی کبھار اپنے والدین کے ساتھ آ کر مل لیتی ہے۔ اویس کا اپنا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ عید بقر عید کی صبح کو اوکاڑہ سے لازمی طور پر اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے آتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ 
واپسی پر پہلے جی او آر والے گھر گئے۔ وہاں شانزے اور نیحا کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہوئیں۔ شانزے جب بھی ملتی ہے‘ میری ٹِنڈ پر مِٹھی ضرور کرتی ہے۔ وہاں پر جو میرا کمرہ تھا‘ اس پر مسز آفتاب نے قبضہ جما رکھا ہے۔ باہر گیراج کی طرف اپنے دوستوں کی آمدورفت کی سہولت کے لیے جو دروازہ بنوا رکھا تھا‘ اس کے سامنے بھی بیڈ صوفہ لگ گیا ہے کہ اب میں تو وہاں سے کوچ کر آیا ہوں۔ کبھی کبھار کوئی دوست ہمت کر کے یہاں بھی آ جاتا ہے جہاں میں ہوتا ہوں۔ آفتاب اور اس کے علاوہ نوکر چاکروں کے ساتھ ساتھ ڈفی۔ عطیہ‘ میری بیٹی جسے ہم سب بی بی کہا کرتے ہیں‘ وہ بھی آتی جاتی رہتی ہے۔ اوکاڑہ گئے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ اویس کا تو اصرار رہتا ہی ہے‘ وہاں کے شاعر دوستوں مسعود احمد اور اے جلیل کا بھی‘ جنہیں ہم اَے جلیل کہا کرتے ہیں‘ تقاضا اب کئی دنوں سے زور پکڑ رہا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ ہمت کر کے کسی دن اُدھر سے ہو ہی آئوں۔ میں خود بھی ناسٹلجیا کا مریض ہوں جبکہ میری زندگی کا خوبصورت ترین حصہ اسی شہر میں گزرا ہے۔ اپنے ہم پیشہ وکیل اور صحافی دوست بھی یاد آتے ہیں‘ ان کے فون بھی آیا کرتے ہیں۔ آج کالم سے چھٹی کا دن ہے‘ اس لیے یہ سب لوگ کچھ یاد بھی آ رہے ہیں! 
آج کا مطلع 
گھر سے نکل گیا تو بھنور سے نکل گیا 
ڈوبا وہی جو خوابِ سفر سے نکل گیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved