ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے مختلف نظام موجود ہیں اور یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری تعلیمی حالت بہت ہی خراب ہے۔ اسے درست کرنے کے کئی نسخے سامنے آ چکے ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ ملک میں ایک ہی نظام تعلیم ہونا چاہیے اور غریب‘ امیر متوسط طبقے‘ سب کے بچے ایک ہی قسم کے سکولوں میں پڑھیں اور سلیبس بھی مشترک ہونا چاہیے۔ کوئی انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کی الگ الگ گنجائش کا تو اظہار کرتا ہے مگر مدرسوں کی تعلیم کو اردو میڈیم کی تعلیم میں ضم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اگر حکومت کی طرف دیکھیں تو وہاں ایک ایسی حکمت عملی نظر آئے گی جس میں محض ان ملکوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جو تعلیم کے میدان میں پاکستان کی مالی مدد کر رہے ہیں۔ حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں اس بات کی ضرورت پر زور دیتی ہیں کہ تعلیمی اصلاحات ہونی چاہئیں مگر کوئی بھی قابل عمل ٹھوس منصوبہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں موجود نہیں ہے۔ تعلیم کے میدان میں ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر حقیقت پسندانہ نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ جس انداز میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں ان کو یکسر روک کر کوئی نیا نظام لانے کی بات کرنا واضح طور پر ایک ناقابل عمل خیال ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر جو طلباء طالبات نکلتے ہیں ان کی قابلیت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی صورتحال ملی جلی ہے۔ جو نجی ادارے مستحکم ہو چکے ہیں ان کے ہاں تعلیمی معیار پر توجہ دکھائی دے گی مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بہت زیادہ تعداد گلی محلوں میں قائم چھوٹے چھوٹے غیر رجسٹرڈ سکولوں کی ہے۔ ان سکولوں کو اکثر انتہائی نااہل قسم کے لوگ اور باقاعدہ ان پڑھ قسم کے ٹیچر چلا رہے ہیں۔ میں ایسے ایک سکول کی پرنسل کو جانتا ہوں جو بالکل ان پڑھ ہے۔ بس دستخط کر لیتی ہے مگر ڈھائی تین سو بچے اس کو میڈم پرنسپل کہتے ہیں اور وہ دو درجن کے قریب نیم خواندہ استانیوں کے ذریعے لاہور کے ایک گنجان آباد حصے میں ''تعلیمی خدمات‘‘ انجام دے رہی ہیں۔ موصوفہ کے شوہر سوزوکی وین میں بچوں کو گھروں سے سکول لانے لے جانے کے بزنس میں ہیں۔ میرے اندارے کے مطابق ملک بھر میں اس قسم کے تعلیمی ادارے ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی نظام کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجیے آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں سب سے زیادہ اہمیت ابتدائی تعلیم کو دی جاتی ہے۔ نرسری سے لے کر آٹھویں گریڈ تک اگر کسی بچے یا بچی کو صحیح تعلیم دے دی جائے تو ایسی مستحکم بنیاد فراہم ہو جاتی ہے کہ پھر اس پر خوبصورت تعلیمی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے لیکن اگر کسی بچے کو یہ مستحکم بنیاد فراہم ہی نہ ہو پائے تو پھر وہ بقیہ تعلیم حاصل کرنے سے معذور
ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں ڈگریاں وغیرہ تو سب کو مل جاتی ہیں لیکن تعلیم ناپید ہی رہتی ہے۔ پرائمری تعلیم کے اچھے انگلش میڈیم ادارے ہمارے ہاں بہت کم ہیں مگر جتنے بھی ہیں وہ اپنے سلیبس کے لحاظ سے بچوں کو کافی بہتر تعلیم دے رہے ہیں۔ ان اداروں کے کورسز مغربی دنیا کے نظام تعلیم سے مستعار لیے ہوتے ہیں لہٰذا یہاں اصلاح کی گنجائش محض اس حد تک ہے کہ یہ ادارے آہستہ آہستہ اپنے کورسز میں اپنی قومی اقدار کے حوالے سے تبدیلیاں لاتے جائیں تو یہ زیادہ سود مند ثابت ہوں گے اور ان اداروں سے اچھی تعلیم حاصل کر کے بچے اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑھیں گے مگر ان کی تعداد انتہائی کم ہی رہے گی تاوقتیکہ ہمارا ملک معاشی طور پر اتنا مضبوط ہو جائے کہ آبادی کی اکثریت اپنے بچوں کو ان مہنگے سکولوں میں پڑھانے کے اخراجات برداشت کر سکے۔ اس کا بھی امکان بہت کم ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے مدرسوں کا ہے۔ اب تو ہمارے ہاں اتنے زیادہ مدرسے ہیں کہ ہمارے سابق صدر جنرل مشرف نے ان کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او یعنی غیرسرکاری تنظیم قرار دیا تھا۔ ان مدرسوں کے بارے میں آپ کو یہ بھی سنائی دے گا کہ بعض مدرسوں نے کمپیوٹر بھی رکھ دیے ہیں‘ بعض مدرسے سائنسی اور دیگر دنیوی علوم پڑھانے کی بات بھی کرتے ہیں یہ بھی معیاری تعلیم فراہم نہیں کر پا رہے۔ ہمارے مدرسوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں جدید چیزوں کے استعمال کے باوجود جدید دنیا سے ایک واضح Disconnect موجود ہے۔ نتیجہ اس کا ہمارے سامنے ہے کہ ان مدرسوں سے فارغ التحصیل طلباء طالبات کوئی ایسی مستحکم تعلیمی بنیاد لے کر نہیں نکل رہے جس سے جدید دور میں اس ملک میں آگے بڑھانے کی کوئی سبیل پیدا ہوتی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدرسوں کے نظام میں کوئی ایسی بڑی شخصیت پیدا ہو جو علامہ اقبال کے Vision کے ساتھ ان مدرسوں کی حالت کو تبدیل کرے۔ محض علامہ اقبال کی نظمیں طلباء طالبات کو یاد نہ کروائے بلکہ اسلام کے راہبر اصولوں کو جدید دور میں آج کے تقاضوں کے مطابق اختیار کرے۔
اسی طرح بڑی سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت گلی محلوں میں قائم غیر رجسٹرڈ انگلش میڈیم سکولوں کی اصلاح کا کوئی منظم انداز اختیار کرے۔ ان کو سرکاری سکولوں کے ساتھ ضم کر کے بہتری کی کوئی سبیل پیدا کرے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرے۔ سب سے زیادہ سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے شعبے پر حکومت اپنے اخراجات میں کچھ تو اضافہ کرے۔ اب تو اس ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم پر جو خرچ کر رہی ہیں اس رقم کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں کی نسبت بھی ہمارے ہاں تعلیم پر اخراجات کم ہیں۔ جو تعلیمی صورتحال ہمارے ہاں موجود ہے اس کو اس طرح بتدریج درست کرنا اگر شروع کردیا جائے تو ممکن ہے ایک دو نسلوں کے بعد ہمارا تعلیمی مسئلہ حل ہو جائے وگرنہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں دنیا کی پسماندہ ترین ایسی قوم بننے جا رہے ہیں جو محض اپنے ماضی پر فخر کر کے ہی خوش رہتی ہے۔