تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     04-12-2014

زندگی کو زندگی کی طرح جینے کا ہنر…!

ہم جو کبھی سٹیفن کووے اور کبھی ڈیل کارنیگی کی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور ان کی موٹی ویشنل تحریروں کے حوالے دیتے ہیں‘ ہمیں سرمد طارق کی خبر ہی نہ ہوئی کہ وہ کس طرح سے لوگوں کے لیے امید کی کرن اور زندگی کی تحریک دینے والی ایک طاقت تھی۔ اس وقت میں اس کی شاندار شخصیت نہ لکھ سکی مگر اب خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر میں نے اس پر لکھنا چاہا تو مجھے یہ جان کر عجیب دھچکا لگا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ 30 اپریل 2014ء کو اپنی زندگی تمام تر تکلیفیں سمیٹ کر‘ اگلی زندگی کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ اس کی وفات کی خبر کیسے نظروں سے اوجھل رہی...
سرمد طارق کون تھا۔ ایک نوجوان جو صرف 38 برس جیا۔ ان 38 برسوں میں سے 23 سال اس نے ویل چیئر پر ان گنت بیماریوں سے لڑتے ہوئے گزار دیے۔ طب کی اصلاح میں وہ Quadriplegic تھا۔ یعنی گردن سے نیچے مفلوج دھڑ کا مالک۔ 15 برس کی خواب دیکھنے والی عمر میں سرمد تیراکی کرتے ہوئے ایک حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ اس مفلوج دھڑ کے ساتھ اس نے 23 سال ویل چیئر پر گزارے‘ ازراہِ تفنن وہ خود کو ''چیئر‘‘ مین بھی کہا کرتا۔ اپنی زندگی میں وہ ان گنت تکلیف دہ آپریشنز اور میڈیکل ٹریٹمنٹس سے گزرا... مگر ہر بار زندگی کے بارے میں اس کی خوش گمانی اسے پہلے سے زیادہ پُرامید اور پُرعزم بناتی رہی۔ اسی بیماری‘ اسی معذوری کے ساتھ اس نے 26 مارچ 2014ء کو ایک شاندار ریکارڈ قائم کیا‘ اس نے خیبر سے کراچی تک 1847ء کلو میٹر کا فاصلہ‘ 33 گھنٹے میں‘ اپنی ہینڈ کنٹرولڈ کار میں بغیر رُکے (Non stop) طے کیا اور یوں کم سے کم وقت میں اتنا فاصلہ طے کرنے والے دنیا کے پہلے Quadriplegic ایتھلیٹ کا اعزاز اپنے نام کیا۔ 
اسی طرح اس نے 30 جنوری 2005ء کو اپنی ویل چیئر پر 42 کلو میٹر کی میراتھن ریس مکمل کی۔سرمد طارق پاکستان کا پہلا ویل چیئر بائونڈ ایتھلیٹ تھا۔ اسی سال‘ سرمد نے نیویارک میں ہونے والی عالمی ویل چیئر ایتھلیٹ میراتھن میں پاکستان کی نمائندگی کی اور شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ 
سرمد طارق صرف ایتھلیٹ ہی نہیں تھا بلکہ اس کے اندر ایک کمال کا لکھاری بھی موجود تھا۔ وہ انگریزی میں اپنے خیالات اپنے بلاگ پر لکھتا... اور یوں پڑھنے والوں کو زندگی کے ایک بالکل نئے رُخ سے دعوت فکر دیتا۔ میں نے جب سرمد طارق کی تحریریں پڑھیں تو میرے آنسو مسلسل بہتے رہے۔ معذوری اور بیماری کے کٹھن مراحل میں امید کے جگنو پکڑتے ہوئے وہ زندگی کو ایک نئے آئینے سے دیکھتا ہے اور پڑھنے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ انگریزی زبان میں اپنے احساسات کا اظہار خوبصورت انداز میں کرتا کہ بات دل میں اُتر جائے۔ اس کے الفاظ میں ایک ایسی روشنی ہے جو مایوس اور بے دل انسان کو بھی زندگی کا روشن پہلو دکھاتی ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ شخص‘ جو گزشتہ 23 سال سے گردن کے نیچے دھڑ سے مفلوج ہے‘ امید اور شکر کی کس منزل پر موجود ہے اور ہم ساری نعمتیں ہونے کے باوجود کتنے ناشکرے ہیں۔ 
امریکہ سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والا سرمد طارق‘ اپنی ناقابل یقین قوتِ ارادی‘ بے مثال عزم اور حیرت انگیز امید خوش دلی کے ساتھ ان لوگوں کے لیے لائف کوچ بن گیا جو زندگی میں کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو گئے۔ سرمد طارق مختلف یونیورسٹیوں میں تحریکی مقرر (Motivational Speaker) کی حیثیت سے بلایا جاتا اور نوجوان ایسے شخص کی بات غور سے سنتے جو خود ویل چیئر پر بیٹھا ہے‘ مگر پُرامید اور پُرمزاج باتوں سے لوگوں کا دل جیت لیتا ہے۔ 
سرمد طارق کو جاننا اور اس کے خیالات کو پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ سرمد طارق جیسی شخصیت کو قومی سطح کا کوئی ایوارڈ‘ کوئی اعزاز کیوں نہ ملا۔ ایک شخص جو پاکستان کا پہلا ویل چیئر بائونڈ ایتھلیٹ تھا‘ جس نے ملک سے باہر بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ کارلیس کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ جو ایک لائف کوچ اور تحریکی مقرر تھا‘ ایک لکھاری تھا اور سب سے بڑی بات، اس نے کئی زندگیوں کو پھر سے جینے کا حوصلہ دیا جو معذوری اور بیماری سے شکست کھا چکی تھیں۔ کسی سطح پر ایسی عظیم پاکستانی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تھا ایسے لوگ تو رول ماڈل ہوتے ہیں‘ معاشرے کا روشن چہرہ ہوتے ہیں‘ یقینا ایسے اور بھی لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہوں گے‘ جو سرمد طارق کی طرح رب کی طرف سے دی گئی بیماری‘ معذوری‘ دکھ اور تکلیف کو محبت سے شکر سے قبول کرتے ہیں ا ور پھر اس شکر کی روشنی کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ 
سرمد طارق اللہ کا ایک ایسا ہی خاص بندہ تھا۔ اس کی تحریریں آج بھی پڑھنے والوں کو زندگی کے ایک نئے رُخ سے آشنا کر کے‘ امید اور تحریک دیتی ہیں۔ 
Things about pain‘ سرمد طارق کی ایک تحریر ہے جس میں وہ رمز سے بھری خوبصورت باتیں لکھتا ہے‘ چند باتیں آپ سے شیئر کرتے ہیں۔ 
٭ زندگی ایک ویڈیو گیم کی طرح ہے۔ جب یہ مشکل ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اچھا کھیل رہے ہیں اور ہائر لیول پر پہنچ چکے ہیں۔ 
٭ جرأت اور برداشت (Courage) کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں درد محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں درد کو اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتا۔ 
"Convincing myself, that nothing bad would ever happen is futile. Becoming the person who can transform any tragedy into opportunity is much more fun". 
یہ تھا سرمد طارق جو زندگی کے ہر درد کو ہنسی اور ہر بحران کو مواقع میں بدلنے کا ہنر جانتا تھا اور شاید زندگی کو زندگی کی طرح جینے کے لیے ہم سب کو یہ ہنر سرمد طارق سے سیکھنا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved