جنرل راحیل شریف ‘ پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف ہیں‘ جنہوں نے غیرریاستی عناصر یا دہشت گردوں کے بارے میں ایک واضح تصور کے ساتھ اظہار خیال کیا۔غیرواضح تصور سے مراد وہ مخمصہ ہے‘ جس کا جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویزمشرف دونوں شکار تھے۔ یہ دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کے لئے افغان حکومت کے خلاف استعمال بھی کرتے تھے اورامریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یقین بھی دلاتے تھے کہ وہ ان کی امداد سے‘ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس دوغلے پن کا نقصان‘ افغانستان سے زیادہ پاکستان کو ہوا۔ افغانستان میں تو معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک‘ کبھی مرکزی اتھارٹی قائم نہیں ہوئی۔ مختلف علاقوں کے قبائلی سردار یا مسلح طاقت رکھنے والے گروہ‘ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں اپنی حکومتیں چلایا کرتے اور علامتی بادشاہت سے وفاداری کا اعلان کرتے رہتے۔ یہ طرزحکومت ‘ فرمانروائوں کی تبدیلیوں کے باوجود برقرار رہا۔ حتیٰ کہ سوویت افواج نے قبضے کے بعد جس سیاسی پارٹی کو اقتدار منتقل کیا‘ اس نے بھی انتظامی طور سے وہی نظام چلنے دیا۔ آج بھی امریکی فوج کی طویل موجودگی کے بعد‘ عملی طور پر افغانستان چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تقسیم ہے۔ ہر وارلارڈ اور قبائلی سردار‘ اپنے اپنے علاقے میںخودمختار ہے۔ مرکزی حکومت بہت تھوڑے علاقوں میں موثر ہے۔ بیشتر علاقوں میں اسے بھی مقامی وارلارڈز کے ساتھ سمجھوتوں سے کام چلانا پڑتا ہے۔ اسی طرح وہاں کے کچھ علاقوں پر طالبان بھی قابض ہیں‘ لیکن پاکستان کی یہ صورتحال نہیں تھی۔ ہم گئے تو تھے‘ افغانستان میں امریکیوں کی قائم کردہ حکومت کو ‘پورے ملک پر کنٹرول کے لئے مدد دینے‘ لیکن عملی طور سے ہم نے‘ ان دہشت گردوں کی حمایت کی‘ جو پاکستان سے افغانستان کے اندر داخل ہو کر‘ کرزئی حکومت کے خلاف کارروائیاں کرتے اور واپس پاکستان میں آ کر چھپ جاتے۔
اس پالیسی کے تحت ہمارے فوجی حکمرانوں نے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کو ہر طرح کی آزادی بلکہ سہولتیں فراہم کر رکھی تھیں۔ انہی میں سے وہ دہشت گرد گروہ اور جتھے پیدا ہو گئے‘ جو مسلح بھی تھے اورحکومتی کنٹرول سے آزاد بھی۔ ایک عرصے تک تو یہ مسلح جتھے‘ عوام کو لوٹنے میں لگے رہے۔بعد میں وہ حکومت کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے لگے۔ مسلح گروہوں کوکھلی چھوٹ ملتے دیکھ کر فرقہ پرست عناصر نے بھی مجاہدین کا روپ دھار لیا۔ جو پہلے صرف القاعدہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑتے تھے‘ کافی عرصہ پہلے انہوں نے‘ پاکستان میں واپس آ کراپنے جتھے بنا لئے اور خصوصاً شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر نشانہ بنانے لگے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بے شمار گروہ ایسے بن گئے ہیں‘ جو پہلے کسی طالبان تنظیم میں شامل تھے اور اب انہوں نے مختلف روپ دھار لئے ہیں۔ کوئی گروہ طالبان کے نام پر اغوا برائے تاوان میں مصروف ہے‘ کوئی بھتہ جمع کرنے میں لگا ہے‘ کوئی قبضہ مافیائوں کے لئے معاوضوں پر کام کرتا ہے۔ میں ان گروہوں کی اقسام اور خصوصی دائرہ کار کا احاطہ تو نہیں کر سکتا‘ لیکن یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ کراچی میں تو ان کے وارے نیارے ہیں‘ لیکن سندھ‘ پنجاب اور خیبرپختونخوامیں بھی ‘یہ عناصر اپنا جال پھیلا چکے ہیں اور ایسا کرنے میں‘ انہیں مذہب کے نام پر کام کرنے والی مختلف سیاسی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کی مدد حاصل ہے‘ جہاں انہیں خوراک اور رہائشی سہولتوں کے ساتھ ساتھ‘ ایسے افراد کا تعاون بھی حاصل ہے‘ جو مقامی آبادی میں انہیں اپنا تعلق دار ظاہر کر کے‘ گھل مل جانے کے مواقع مہیا کرتے ہیں اور بدلے میں انہیں‘ اپنے کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
معاشرے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے رابطے‘ سرکاری اداروں کے درمیان بھی پھیل چکے ہیں۔کراچی میں نیوی کے جن دو مراکز اور کامرہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں‘ وہاں مجرموں کو انہی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کا تعاون حاصل تھا۔ ایک بہت بڑے دہشت گرد گروپ کا سربراہ‘ پاکستان ایئرفورس کا سابقہ ملازم ہے۔ ایسے ان گنت لوگ پکڑے جا چکے ہیں‘ جو کسی نہ کسی خفیہ تنظیم کے مددگار تھے۔ دہشت گردوں کو یہ سہولتیں جنرل ضیا کے دور میں حاصل ہوئیں‘ جب پاکستان کی پرائم خفیہ ایجنسی براہ راست افغانستان میں‘ ان کی مدد کیا کرتی تھی اور پاکستان میں ان کے مراکز کا بندوبست بھی اسی ادارے کے سپرد تھا۔ اس دور میں ایجنسی کے لوگوں سے‘ براہ راست رابطوں کے سبب‘ دہشت گردوں کا حساس اداروں کے کارکنوں سے بھی میل جول ہو گیا‘ جس کے نتیجے میں وہ دوردور تک اثرات پھیلانے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض دہشت گرد گروپ‘ ایس ایم ایس اور پیغام رسانی کے دیگر جدید ذرائع کو آزادی سے استعمال کر رہے ہیں۔ ان پر کوئی نگرانی ہے‘ نہ پابندی۔ کراچی اور سندھ کے بارے میں تو یہ بھی خبریں ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے‘ اپنے دہشت گرد گروپ منظم کر رکھے ہیں۔ جب انہیں اقتدار کے کھلاڑیوں کی سرپرستی ملتی ہے‘ تو انتظامیہ بھی نظرانداز کرنے لگتی ہے اور وہ اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے عقائد اور مقاصد کے تحت بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں بھی حکومتی سطح پر دہشت گردوں کے لئے‘ خاص مشکلات اور پریشانیاں نہیں پیدا کی جاتیں۔وہ اپنے سیاسی سرپرستوں کو کچھ نہ کہنے کے بدلے میں‘ عوام دشمن کارروائیوں میں آزاد ہوتے ہیں۔ میں نے اس صورتحال کا سرسری سا خاکہ پیش کیا ہے‘ جس پر جنرل راحیل شریف نے کراچی میں ''دفاعی نمائش آئیڈیاز 2014ء‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے‘ سکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال میں قومی سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ''سیاسی طور پر متحرک ان غیرریاستی اداروں نے دہشت گردی کے ذریعے‘ ریاستی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان تخریبی قوتوں نے معاشرے کے تعمیری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ تباہی اتنی بڑی ہے کہ اس سے پہلے کبھی دو ملکوں میں جنگ سے بھی پیدا نہیں ہوئی۔ یہ غیرریاستی عناصر‘ عالمی امن کے لئے واحد تو نہیں البتہ براہ راست خطرہ ضرور ہیں۔ پاکستان میں ان غیرریاستی عناصر کی موجودگی میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بعض صورتوں میں ان سے لڑنا‘ کسی ایک ملک یا ریاست کے بس کی بات نہیں رہی۔ ‘‘
جو ریاستیں اس صورتحال سے دوچار ہیں‘ ان میں شام‘ عراق‘ لبیا‘ لبنان‘ افغانستان‘ اردن‘ تیونس اور الجزائر نمایاں ہیں۔ پاکستان کی صورتحال تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل نے بیان کر ہی دی ہے۔ہمارا معاملہ بھی منفرد نہیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے ڈانڈے ‘دو پڑوسی ملکوں سے جا ملتے ہیں۔ افغانستان اور بھارت۔ یہ دونوں ملک ایسے ہیں‘ جہاں سے پاکستان میں دہشت گردوں کوخفیہ اور کبھی براہ راست مدد ملتی رہتی ہے۔مکتی باہنی کے ذریعے‘ مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت جس کی شرمناک مثال ہے۔ افغانستان میں پاک فوج سے براہ راست برسرجنگ گروہوں کو پناہ بھی ملتی ہے اور سرپرستی بھی‘ جس کی ایک مثال ملافضل اللہ ہے۔ بلوچستان میں تخریب کاری کرنے والوں کو بھارت سے امداد ملتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جہاں جہاں فوج نے آپریشن کیا‘ اسے وہاں سے کہیں کہیں بھارتی اسلحہ بھی ملا۔ بھارت اپنے طور پر پاکستان کے خلاف الزام لگاتا رہتا ہے کہ وہاں‘ تخریب کاری کرنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس کی واضح مثالیں بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی لڑنے والوں کو بھی پاکستانی مداخلت کار قرار دیتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ ہمیں اس صورتحال میں دھکیلنے کی ذمہ داری کافی حد تک دو سابق فوجی حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جب دہشت گرد تنظیموں کو حکومت وقت ہی تحفظ دینے لگے‘ تو عوام کیا کر سکتے ہیں؟ جنرل راحیل شریف پہلے چیف آف آرمی سٹاف ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف کھل کر اصل مرض کی تشخیص کی بلکہ اس کے علاج کا عزم و ارادہ بھی ظاہر کیا۔ گزشتہ سات سال کے نام نہاد جمہوری دور میں‘ کرپشن کا جو طوفان اٹھا ہے‘ اس نے ریاست کے پورے ڈھانچے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ دہشت گردوں نے سماجی ڈھانچے اور معیشت کو نقصان پہنچایا‘ جبکہ کرپشن کرنے والوں نے ریاستی ڈھانچے کو نحیف و نزار کر دیا۔ ہم ایک ہمہ گیر تباہی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ہمیں فوری اور ہنگامی علاج کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں گزرتا ہوا ایک ایک لمحہ‘ ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہم مکمل تباہی سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گئے ہیں۔ فوری کمک اور سہارا نہ ملا‘ تو دیر ہو جائے گی۔