تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     06-12-2014

اسلامی سٹیٹ کا پھیلائو

اب سے کچھ سال پہلے تک ہم فخر سے کہتے تھے کہ مجاہدین اور طالبان کے ساتھ ساتھ لڑنے والوں میں دنیا کے کئی ملکوں کے مسلم نوجوان لگے ہوئے ہیں لیکن بھارت کا کوئی بھی مسلم جوان ان سر پھروں کے چکر میں نہیں پھنسا۔ ہم مانتے تھے کہ بھارت کا مسلمان اندرونی معاملات میں کتنا ہی ناراض ہو لیکن وہ اتنا پختہ ہے کہ باہری طاقتوں کا کھلونا بننا پسند نہیں کرتا یعنی وہ پکا وطن پرست ہے اور بھارت کے خلاف دہشت پھیلانے والوں کے ساتھ کبھی ہاتھ نہیں ملا سکتا۔
اب جبکہ عراق اور شام میں چل رہی اسلامی سٹیٹ کی لڑائی میں سے ایک بھارتی نوجوان عارف مجید بھی پکڑا گیا ہے‘ تو یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا بھارت کے مسلمانوں کے دل میں بھی اسلامی سٹیٹ کی جانب محبت اُمڈ پڑی ہے؟ کیا وہ مذہب کے نام پر ملک کو بھول رہے ہیں؟ عارف مجید کی گرفتاری کے حوالے سے ابھی کئی نئی باتیں سامنے آنا باقی ہیں‘ لیکن یہ واضح ہے کہ عارف مجید اور ان کے تینوں ساتھی کسی بھارت مخالف طالبان گروہ میں شامل نہیں ہوئے۔ وہ صرف بہک گئے ہیں۔ بیس بائیس سال کی کچی عمر اور کچی عقل والے ان لڑکوں نے انٹرنیٹ پر جہادی مصالحہ دیکھا اور اسے چبائے بنا نگل گئے۔ انہوں نے سوچا کہ اسلامی سلطنت والے لوگ مذہب کی حفاظت کیلئے لڑ رہے ہیں‘ تو چلیں ہم بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہاں جا کر ہمارے ان لڑکوں کو اصلیت کا پتہ چل گیا ہو گا۔ وہ مذہب کی نہیں‘ اقتدار کی لڑائی ہے۔ قبیلوں کے آپسی جھگڑے ہیں۔ قبیلے والے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان کے لئے مذہب سے زیادہ قیمتی تیل ہے۔ کرد علاقوں کے تیل پر قبضے کی لڑائی کو اسلامی جہاد کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس جہاد کا مذہب سے کچھ لینا دینا ہوتا‘ تو یہ جہادی شام اور عراق کے مسلمانوںکا قتل کیوں کرتے‘ مسجدوں کو کیوں شہید کرتے‘ خانقاہوں کو کیوں جلاتے؟
لیکن ہمارے لئے فکر کی بات یہی ہے کہ 'اسلامی سٹیٹ‘ نے اب بھارت کو اپنا نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ تنظیم پاکستان میں اپنے پنکھ پھیلانا چاہتی ہے۔ یہ دونوں ملکوں کیلئے خطرناک ہو گا۔ ہمارے بھارتی نوجوان اگر اسی تجویز کے تحت اس جہاد کے رنگروٹ بنے ہیں‘ تو بھارت سرکار کو انتہائی سخت کارروائی کرنا ہو گی۔ ویسے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ہے کہ بھارت کے مسلمان‘ عرب جہادیوں کو منہ لگانے والے نہیں ہیں؛ تاہم ضروری ہے کہ بھارت سرکار 'انٹر نیٹ‘ پر کچھ ایسی پابندی لگائے کہ دہشتگردوں سے جڑی سبھی جانکاری اس سے ندارد ہو جائے۔ علاوہ ازیں مسلمان خاندانوں کے بزرگ اپنے نوجوانوں پر کڑی نظر رکھیں ‘جیسے کہ عارف مجید کے والد نے رکھی ہے ۔ہمارے مسلمانوں کو اسلامی جہاد اور عربی جہاد میں فرق کرنا چاہئے۔ 
شاباش‘تنویر شیخ!
اس سے پہلے آپ نے عارف مجید کے بارے میں پڑھا تھا۔ آج اس کے دوسرے ساتھی فہد شیخ کے بارے میں کچھ پتہ چلا ہے۔ ممبئی کے کلیان علاقے میں رہنے والے فہد کے والد تنویر شیخ نے کہا ہے کہ ان کے بیٹے فہد نے اگر کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تواسے اس کی سزا ملنی چاہئے ۔انہیں پتہ ہے کہ ان کا بیٹا فہد بھی عارف کی طرح تھک ہار کراپنے وطن لوٹے گا۔ ہم چاہیں گے کہ وہ کوئی بات چھپائے نہیں ،سبھی باتیں ایجنسیوں کو سچ سچ بتا دے۔
فہد نے اپنے والدتنویر شیخ کو اگست میں فون کیا تھا اور اس نے بھارت لوٹنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ فہد اپنے تین ساتھیوں عارف‘ امان اور شاہین کے ساتھ مئی میں زیارت کے بہانے بغداد گیا تھا۔ ان کے ساتھ چالیس لوگ طیارہ سے بغداد پہنچے تھے اور وہاں سے تیس مئی کو وہ ٹیکسی سے موصل پہنچے اور وہاں جاکر وہ 'اسلامی سلطنت‘ کی فوج میں شامل ہو گئے ۔عارف کی گرفتاری کے بعد اس نے قبول کیا کہ ان بھارتی جوانوں سے 'اسلامی سلطنت‘ کے چھاپہ مار لوگ اپنے کموڈ صاف کر وایا کرتے تھے۔ ذمہ داری کا کوئی بھی کام اُن کے حوالے نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب کیا ہوا کہ وہ جو لڑائی لڑ رہے ہیں ‘وہ اسلامی جہاد نہیں ہے۔ وہ ایسا عجیب جہاد ہے‘ جو عربی مسلم اور بھارتی مسلم میں فرق کرتا ہے۔ بھارتی مسلمان پر وہ رتی بھر بھی اعتماد نہیں کرتا۔تو پھر جہاد کے نام پر چل رہے اس ڈھونگ میں بھارتی بچے کیسے پھنس گئے؟ 
اس سوال کا جواب بھی عارف سے کی گئی تفتیش میں سے نکلا۔ عارف نے بتایا کہ ان چاروں لڑکوں کو انٹر نیٹ سے جانکاریاں ملیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے ہی وہ 'اسلامی سٹیٹ‘ کے چھاپہ ماروں سے رابطے میں آئے۔انہوں نے ہر ایک نوجوان کو ساٹھ ساٹھ ہزار روپیہ دیے۔فہد کے والد تنویر شیخ نے بتایا کہ فہد جب بھی وہاں سے فون کرتا ‘اس کی والدہ اور وہ دونوں فون پر رونے لگتے تھے۔تنویرشیخ نے یہ بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ بات نہیں کرتا ہوں ۔
شیخ کو شاباشی‘ میں ان کی اس بات پر بھی دیتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ میں محب وطن شہری ہوں ۔میں یا میرے خاندان کا کوئی آدمی کبھی پولیس تھانے نہیں گیا۔میرے لڑکے نے میری عزت پر پانی پھیر دیا ۔اس نے اپنے مستقبل کو برباد کر لیا۔اس نے ہمارے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔جب شیخ سے پوچھا گیا کہ فہدکی جانب آپ کے خاندان کا رویہ اب کیا ہوگا؟شیخ نے کہا'باپ کا دل پتھر کا ہو سکتا ہے ‘پر آپ بتائیے کہ ماں کیا کرے؟
جیسا کہ میں نے کل بھی لکھا تھا کہ ممبئی کے یہ چاروں نوجوان اگر کسی بھارت مخالف مشن میں شامل ہوئے تو انہیں سخت سزا ملنی چاہئے لیکن اگر یہ مذہبی جنون اور لالچ میں پھنس کر بغداد چلے گئے ہوں تو ان کی جانب انسانی نظریہ اپنایا جانا چاہئے۔ 
حملہ بزدلانہ نہیں ‘مقابلہ بزدلانہ
چھتیس گڑھ میں ماؤ وادیوں نے پولیس کے چودہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ابھی تک یہ تو پتہ نہیں چلا ہے کہ ماؤ وادی کتنے مارے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہمارے جوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ہے۔ یعنی یہ حملہ یک طرفہ ہوا ہے۔ اس کا کیا یہ مطلب نکالا جائے کہ ہمارے جوان خالی ہاتھ تھے اور ماؤ وادی اسلحہ سے لیس ؟اگر ایسا تھا تو یہ صوبہ اور مرکز کی سرکاروں کیلئے ڈوب مرنے کی بات ہے لیکن یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔تو پھر کیا ہوا ہوگا؟ہمارے جوان مارے گئے لیکن چھتیس گڑھ کے ان جنگلوں تک سرکار کی پہنچ آسان نہیں ہے‘ ورنہ مارنے والے ماؤ وادیوں کو اب تک بھرتہ بنا دیا جاتا۔ 
چھ ماہ پہلے تک تو ہر پٹائی کے بعدیہ مثال دی جاتی تھی کہ مرکز میں کانگریس اور صوبہ میں بی جے پی سرکار ہے۔دونوں میں تال میل کی کمی ہے۔ اس کا فائدہ ماؤ وادی اٹھا رہے ہیں لیکن اب یہ مثال چکنا چور ہو چکی ہے۔ مرکز اور صوبہ دونوں جگہ بی جے پی کی سرکاریں ہیں ۔ایسی حالت میں اتنے بڑے حملے کا ہونادونوں سرکاروں کے سر پر داغ ہے ۔یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ یہ حملہ بزدلانہ تھا۔حملہ بزدلانہ نہیں مقابلہ بزدلانہ تھا۔ہمارے پانچ سو جوانوں نے تو اپنی جان بہادری سے جھونک دی لیکن سارے ملک میں بیس لاکھ جوانوں کی فوج اور پولیس آخر ہم نے کس لئے پالی ہوئی ہے؟وہ کس کے اشارے پر لڑتے ہیں؟ اب وہ کون سی لڑائی لڑ رہے ہیں ؟اگر ہمارے سیاسی لیڈر بزدل نہ ہوں تو ان ماؤوادیوں کا صرف آٹھ دن میں مکمل صفایا ہو سکتا ہے ۔کیا چھتیس گڑھ بھارت کا حصہ نہیں ہے ؟وہاں آٹھ سے پندرہ دن کیلئے بریگیڈ کیوں نہیں لگائی جاتی؟ایک ایک گاؤں سے ان کا صفایا کیوں نہیں کیا جاسکتا؟لیڈروں کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ چھتیس گڑھ کے کئی بڑے بڑے لیڈروں کو پچھلے سال مار دیا گیاتھااور وہ اب بھی کوری باتیں بنا رہے ہیں ۔ وہ باتیں بنا رہے ہیں ‘بناتے رہیں‘ کسی دن ان کا بھی بنڈل بندھ جائے گا۔اگر ایسا ہوگیا توان کی موت پر کوئی اشک بہانے والا بھی نہیں ملے گا۔ جن چودہ جوانوں کاقتل ہوا ہے‘کیا ان کے رشتے داروں کوبڑی رقم دے دینے سے لیڈروں کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی؟خفیہ ادارے کی اطلاع کے بغیر جوانوں کو موت کے منہ میں جھونک دینے کا ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان اقتدار کی ملائی چاٹنے کیلئے مرے جاتے ہیں‘ لیکن ان پُرتشدد علاقوں میں جاکر لوگوں کو خبر دار کیوں نہیں کرتے ؟انہیں ٹریننگ کیوں نہیں دیتے ؟ماؤ وادیوں سے سیدھی بات چیت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔جو اپنے کو حوالے کریں ‘ان کا خیر مقدم ہے لیکن جو تشددپر اتارو ہیں ‘انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ وہ جنوبی ایشیا کے سب سے طاقتور ملک سے لڑنے کی بے وقوفی کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved