امریکی قوال پارٹی ایک ماہ کے دورے پر پاکستان آئی ہوئی ہے۔ قوال پارٹی کا نام ''فنا فی اللہ‘‘ ہے۔ یہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرے گی۔ امریکی قوال پارٹی کے سربراہ جیفری سیموئیل ڈینس لیون ہیں‘ جنہوں نے اپنا دیسی نام طاہر فریدی المعروف جیف خاں تجویز کر رکھا ہے۔ جیف خاں کے دیگر ہمنوائوں میں جیسکالین رپر (آمنہ چشتی) چارلس ڈیوڈ سپنر (جہانگیر بابا) دیو آنند اروبن (لالی قلندر) انڈرے ونسٹنٹ پریس (علی شان) اور پاسکل ہڈسن نے قوال کے طور پر اپنا نام سلیم چشتی تجویز کر رکھا ہے۔ آپرنٹس امریکی قوال جیف خاں نے بتایا کہ ان کی پارٹی میں عیسائی، ہندو اور مسلم سب شامل ہیں اور وہ سب استاد راحت فتح علی خاں کے گنڈا باندھ شاگرد ہیں اور قوالی میں ان کی تربیت اس گھرانے سے ہوئی ہے۔ جیف خاں نے اس گھرانے سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ استاد نصرت فتح علی خاں ہمارے دادا استاد جبکہ مبارک فتح علی خاں قوال ہمارے پردادا استاد تھے‘ یہ ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم قوالی کے فن میں اس گھرانے کے شاگرد اور مرید ہیں۔
متذکرہ خبر پڑھ کر میں فاتحانہ اور تفاخرانہ احساس سے لبریز ہو گیا کہ امریکہ‘ جس نے ثقافتی، سماجی، عسکری اور سب سے بڑھ کر معاشی طور ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کو عشروں سے ''فتح‘‘ کر رکھا ہے‘ کا کوئی تو ڈیپارٹمنٹ اور شعبہ ایسا ہے جس میں امریکہ ہمارا گنڈا باندھ شاگرد ہے‘ وگرنہ پاپ سنگنگ سے لے کر بریک ڈانس اور جیز سے لے کر ہپ ہوپ، زراعت سے لے کر ہر قسم کی سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے لے کر اسلحہ سازی تک ہم ان کی نقلیں کرکے ''ترقی‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ ''ناقابل تسخیر‘‘ بھی ہو چکے ہیں۔ اس وقت ہنستے ہنستے 'آنکھوں میں بل پڑ جاتے ہیں‘ اور 'روتے روتے پیٹ سوج جاتا ہے‘ جب ہمارے پاپ سنگرز عشق، جذبہ اور جنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالص امریکی سٹائل میں پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے‘ الٹا امریکہ کو ہی برباد کرکے تماشائیوں سے داد وصول کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی ہمارے کسی استاد قوال کے شاگرد ہیں‘ وگرنہ امریکیوں نے ہی ہماری سیاست، معاشرت اور معیشت کی قوالی کی ہے۔ امریکہ سے پاکستان کی دوستانہ سنگت (تعلقات) اور بعد ازاں سٹریٹجک پارٹنرشپ (قوالی کی زبان میں ہم نوائی) کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ خاصی طویل ہے۔ مختلف ادوار میں پاکستانی اور امریکی حکمرانوں کی معروف جوڑیوں کی فہرست یوں بنتی ہے۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح مقرر ہوئے‘ تو ان کے زمانے میں امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے دونوں ملکوں کی ''دوستانہ قوالی‘‘ کا آغاز کیا۔ دلخراش تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان سرعام قتل کردیے گئے اور پھر ملک غلام محمد کو گورنر جنرل لایا گیا‘ جو کبھی فنانس منسٹر کے طور پر وطن عزیز کی معیشت کی قوالی کر رہے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قائد اعظم ؒ، لیاقت علی خان اور پھر غلام محمد‘ تینوں کے دور میں امریکی اقتدار کے سنگھاسن پر ہیری ایس ٹرومین ہی متمکن تھے۔
میجر جنرل سکندر مرزا نے گورنر جنرل اور صدر‘ دونوں حیثیتوں سے وطن عزیز کی قوالی کی۔ آپ پاکستان کے پہلے صدر اور آخری گورنر جنرل تھے۔ سکندر مرزا کے دور میں امریکی استاد (صدر) ڈیوڈ آئزن ہاور کی سنگت میں پاک امریکہ قوالی جاری رہی۔ ہمارے ہاں جنرل ایوب خان ایسے مہان ہوئے ہیں‘ جنہوں نے آمریت کے اپنے طویل دور میں تین امریکی صدر بھگتائے‘ یعنی ڈیوڈ آئزن ہاور، جان ایف کینیڈی اور لائیڈن بی جانسن۔ ان میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن دونوں اقسام کے امریکی قوال شامل رہے جبکہ اس عرصہ میں ہمارے ہاں صدر جنرل ایوب خان نے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی پائی۔ ان کے دور میں 65ء کی جنگ ہوئی۔ امریکہ کی طرف سے معاشی اور فوجی امداد پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے خالق فیلڈ مارشل ایوب خان نے طویل عرصہ تک پاک امریکہ دوستی کی قوالی کی‘ لیکن اپنے دور حکومت میں امریکی اسلحے کے لئے فاضل پرزے حاصل نہ کر پائے۔ ایوب خان گئے تو اقتدار جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کر گئے۔ پھر تو ایسی قوالی ہوئی کہ مشرقی پاکستان سے سنگت ہی چھوٹ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساڑھے چار سالہ دور میں شکست خوردہ قوم کی روحانی، نفسیاتی اور عملی تھراپی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے اتحاد، آئین سازی، معاشی بحالی، امن و امان، ایٹمی طاقت بننے کے ساتھ ساتھ خوشحالی اور ترقی کے راگ الاپے جا رہے تھے کہ 5 جولائی 1977ء کو دوبارہ قوالی کا پروگرام شروع ہو گیا۔
جنرل محمد ضیاالحق کے طویل دور میں وطن عزیز اور اس کے گرد و نواح میں دیپک راگ کی قوالی شروع ہو گئی۔ دیپک راگ سے متعلق روایت ہے کہ اسے الاپنے اور سننے والے دونوں خاکستر ہو جاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ گزشتہ 35 سال سے قوم حالت جنگ میں ہے‘ لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی حکومت ہوتی تو وہ پاک فوج کو کبھی آپریشن کے لئے نہ بھیجتے۔ نواز شریف سمیت تقریباً سبھی وزرائے اعظم کو یہ اختیار حاصل نہیں رہا کہ ان کے حکم پر آپریشن شروع ہو جائیں؛ البتہ ان کے خلاف آپریشن ہوتے رہے‘ چھوٹے چھوٹے آپریشن اور کبھی بڑا آپریشن۔ کہا گیا ہے کہ اس بار آپریشن نہیں قوالی ہو گی جو جاری و ساری ہے۔ جنرل پرویز مشرف المعروف کمانڈو خاں کے دور میں پاک امریکہ قوالی کے ساتھ ہپ ہوپ، راک، بلیو جیز اور سر پر گلاس رکھ کر کتھک ہوا‘ جس کی نظیر نہیں ملتی۔
جہاں تک پاک امریکہ تعلقات کی قوالی کا تعلق ہے‘ وہ آچھوپ راگ میں جاری ہے۔ کلاسیکی موسیقی کی زبان میں آچھوپ راگ سے مراد ایسا راگ ہوتا ہے‘ جو عام فہم نہ ہو۔ برصغیر کے میلوں ٹھیلوں میں بڑے بڑے استاد آچھوپ راگ سُنا کر اپنی استادی اور علمی کسب کا رعب جمایا کرتے تھے۔ اگرچہ امریکی قوالوں نے پاکستانی قوال استاد راحت فتح علی خاں سے گنڈا بندھوا لیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کا میاں تان سین اور بیجو باورا اب بھی امریکہ ہے۔ دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں امریکی افواج اپنے مفادات کی قوالی کر رہی ہے۔ افغانستان میں امریکہ نیٹو قوالوں کے ساتھ مل کر سرمایہ دارانہ نظام کی قوالی میں مصروف ہے۔ افغانستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی قوالی اس لئے کی گئی کہ سوشلسٹ راگ، راگنیاں، ٹھمریاں، دادرے، غزلیں،گیت اور لوک گیتوںکو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلایا
جا سکے‘ لیکن یہ انسانی زندگی سے جڑی ضرورتوں، مجبوریوں، امیدوں، حسرتوں اور استحصالی جبر کا ردعمل ہے۔ مذکورہ متروکہ فن قوالی (سوشلزم) کے مردے میں دوبارہ جان پڑ رہی ہے۔
امریکی قوالی ہو تو ویلیں (انعام ) ڈالروں میں اور بخرہ تیل کا ہوتا ہے۔ نوآموز امریکی قوال یا قوالوں کے روپ میں ہمارے ہاں آنے والے امریکیوں پر ہمیں نگاہ رکھنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی میرینز کے ساتھ آنے والے قوال (اہلکار) اسلام آباد میں آباد ہوئے بلکہ لنگر انداز ہوئے تو پورا علاقہ نو گو ایریا کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے ''وجد‘‘ میں آکر ہمارے دو عدد شہریوںکو ہلاک کر دیا تھا۔ انکشاف کیا گیا تھا مذکورہ افراد امریکہ کے خلاف ''خفیہ قوالی‘‘ کرنے والوں کے ساتھی تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں اطلاع تھی کہ وہ امریکی قوال پارٹی سی آئی اے کے مزید خفیہ میوزیکل بینڈ (بلیک واٹر) سے وابستہ کلاکار تھا۔ جس وقت وہ لاہور میں گرفتار ہوا اس کے پاس GLOC نامی آلہ موسیقی برآمد ہوا تھا‘ جو پوری دنیا میں ممنوعہ اسلحہ سمجھا جاتا ہے۔
وطن عزیز کے دروازے امریکیوں پر ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اگر ہم دروازے نہ کھولیں تو بھی وہ اُڑ کر ہمارے ہاں آجاتے ہیں۔ گزشتہ دور میں ہوا یوں کہ ایک کلاسیکل کلاکار ہمارے ہاں زیر زمین چلا گیا۔ وہ امریکہ کو مطلوب تھا۔ کہتے ہیں کہ متذکرہ شخص کے بارے میں کسی کو بھی اطلاع نہ تھی۔ چار امریکی بلیک کوبرا ہیلی کاپٹر افغانستان سے اڑے اور وہ اپنے ٹارگٹ کو زندہ یا مردہ ساتھ لے گئے‘ ہمیں کچھ پتہ نہیں؟ ایک عرصہ سے وطن عزیز میں داعش نامی عالمی قوال پارٹی کی مشہوری کی جا رہی ہے۔ داعش شام اور عراق میں تیل کے کنوئوں پر قبضہ جمائے دیپک راگ الاپ رہی ہے۔ سمجھ نہیں آتی شام اور عراق میں تو تیل ہے‘ پاکستان میں تیل، گیس اور بجلی نہیں پھر یہاں پر قوال پارٹی کی مشہوری کیوں کی جا رہی ہے؟