عمران خاں کے یو ٹرن؟
عمران خان نے ماضیٔ قریب میں جو یو ٹرن لیے ہیں‘ ان کا نہ صرف چرچا ہو رہا ہے بلکہ گنتی کر کے ان کی تعداد بھی بتائی جاتی ہے اور ان پر تنقید بھی کہ وہ کوئی اچھے سیاستدان نہیں ہیں جو اپنی بات پر قائم ہی نہیں رہتے اور ‘ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ سیاسی لیڈر میں لچک کو بھی ضرور ی قرار دیا جاتا ہے جو میاں نواز شریف میں ہرگز نہیں ہے۔ عمران خان نے بقول شخصے پہلا یو ٹرن تو یہ لیا کہ مذاکرات کی کامیابی کی خاطر وزیر اعظم کے استعفے کی شرط سے دست بردار ہو گئے؛ چنانچہ وہی حضرات جو فریقین میں لچک کا مطالبہ کر رہے تھے‘ انہی میں سے کچھ نے اس پر زبان طعن بھی دراز کرنا شروع کر دی جبکہ فریقِ ثانی نے اس کی بھی قدر نہ کی بلکہ اپنی شہرہ آفاق ضد سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ دوسری لچک یہ رہی کہ ایک تو شہر بندی کی تاریخوں کو آگے کر دیا گیا اور دوسرے یہ کہا گیا کہ اس کی بجائے صرف شاہراہوں پر احتجاج کیا جائے گا تاکہ حکومت مذاکرات کے اس راستے پر آنکلے جس سے وہ مسلسل گریز کر رہی تھی اور اب جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکل آیا ہے اور مذاکرات دوبارہ شروع ہونے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فریقِ ثانی پر دبائو ڈال کر اپنا کوئی مطالبہ منوانا بھی خالص جمہوری طریقہ ہے جس جمہوریت کو بچانے کی دہائی دوسری طرف سے مسلسل دی جا رہی ہے!
بھیڑیا شہر کو؟
پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ شہلا رضا کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے آپ کو بھیڑیا تسلیم کر لیا ہے اور جب بھیڑیے کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ ہمیں موصوفہ کے اس بیان سے اور تو کچھ لینا دینا نہیں البتہ ان کے محاورے کی داد دینے کو جی چاہتا ہے جس میں تصرف نے اسے محض مضحکہ خیز بنا دیا ہے کیونکہ جنگل سے شہر کی طرف رخ‘شامت آنے پر ‘گیدڑ کرتا ہے‘ بھیڑیا نہیں‘ بھیڑیے کو تو شہر کا رخ کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ اسے پیٹ بھر کے خوراک جنگل سے ہی مل جاتی ہے۔بہتر تو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی والے دوست محاوروں کی ٹانگیں توڑنے کی بجائے اس مبینہ لوٹ مار کی تلافی کی کوئی صورت نکالتے جو ان کے عہد حکومت میں پانچ سال تک روا رکھی گئی بلکہ اب سندھ میں بھی اس سلسلے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جا رہی اور ایم کیو ایم والے مثالیں دے دے کر اور ثبوت پیش کر کرکے اس عوامی خدمت کا پول کھول رہے ہیں جس کا ڈھنڈورا صبح و شام پیٹا جاتا ہے۔ محترمہ کی خدمت میں مزید گزارش ہے کہ گیدڑ کے سلسلے کا ایک محاورہ گیدڑ بھبکی ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ جوش خطابت میں کسی دن وہ بھیڑیا بھبکی ہی نہ استعمال کر بیٹھیں یعنی ع
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
چیف الیکشن کمشنر
امید ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا کٹی کٹا نکل چکا ہو گا ‘ اور اگر سپریم کورٹ اپنا آپ نہ دکھاتی تو یارلوگوں کا ارادہ اسے کولڈ سٹوریج سے نکالنے کا تھا ہی نہیں ۔تاہم اس سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ اس عہدے کو بھارت کی طرح باقاعدہ بااختیار بنایا جائے جبکہ یہی وجہ ہے کہ اس منصب کی طرف راغب ہونے کو کم حضرات ہی تیار ہوتے ہیں جبکہ بااختیار چیف الیکشن کمشنر ایک طرح سے سارے ملک کی انتظامیہ ہوتی ہے اور اس طرح وہ اپنی اوقات میں بھی رہتی ہے جبکہ خود چیف کو بھی متاثر کرنا اتنا آسان نہیں رہتا۔ اس سلسلے کی اصل شکایت ہی یہ ہے کہ ساری گڑ بڑ آر اوز‘پریذائڈنگ اور پولنگ افسران اور ماتحت عملے ہی کو زیب دے رہی ہوتی ہے جو حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر کے نہیں‘ حتیٰ کہ جو اختیارات اسے حاصل ہوتے ہیں اکثر اوقات ان کی بھی پروا نہیں کی جاتی اور جو اس امر سے ظاہر ہے کہ خصوصاً پنجاب میں پابندی کے باوجود الیکشن سے چند روز پہلے کچھ اہم افسروں کا تبادلہ کر دیا گیا اور چیف الیکشن کمشنر کی ہدایات اور اعتراض کے باوجود یہ تبادلے منسوخ نہ کیے گئے۔ انہی کمزوریوںکی وجہ سے الیکشن میں دھاندلیو ں اور من مانیوں کا دروازہ بھی کھلتا ہے!
اور اب رفعت ناہید کی یہ شرارتی سی نظم:
امریکہ جانے والا تانگہ
گھر کے باہر ہرے بانس کے اونچے پودوں سے آگے
سڑک جو گزرتی ہے
ننھے چراغوں کی بستی سے ہو کر
ولایت کوجاتی ہے
ابھی ایک ٹانگہ جو گزرا ہے
امریکہ جائے گا
اس کی سواری
شکاگو میں اترے گی
بڑی دیر تک...
دیر تک اس کی ٹپ ٹپ
کانوں میں گونجے گی
رات پچھلے پہر زردرو بلب کی روشنی کے تلے
میں نے دنیا کا نقشہ بچھایا
بہت ملک آپس میں پنسل سے جوڑے ہیں
سرحد سے سرحد ملائی ہے‘ رستے بنائے ہیں
سڑکیں نکالی ہیں
پربت اٹھائے ہیں
بے قابو پانی پہ ساحل لگائے ہیں
رن وے دکھائے ہیں
خود کو بستی سے باہر
درختوں کے نیچے بٹھایا ہے
اور تمہیں
ایک اوپرکو جاتی ہوئی لفٹ میں
جا سجایا ہے
آج کا مقطع
ملا نہ وہ تو‘ ظفر‘ لوٹ کر نہ آئیں گے ہم
یہ شرط باندھ کے اس بار گھر سے نکلے ہیں