کسی معاملے میں مثال پیش کرنا بھی ایک فن ہے۔ مثال کا پیش کیا جانا دانش مندی کا پتا دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں کسی نے کہہ دیا کہ صوبے میں حکومت اِس طرح چلائی جارہی ہے جیسے بنیے کی دُکان ہو۔ یہ بات سُن کر اسمبلی کے ایک ہندو رکن سے رہا نہ گیا، نشست سے کھڑے ہوئے اور خاصی پُرمغز وضاحت کی کہ بنیے کی دُکان چند تسلیم شدہ اُصولوں کے تحت چلائی جاتی ہے اور یہ کہ بے وقت اور غیر دانش مندانہ فیصلے حکومت چلانے کا طریق تو ہوسکتے ہیں، بنیے کی دُکان چلانے کا نہیں! جس سسٹم کے نہ ہونے کا رونا ہم روتے رہتے ہیں وہ بنیے کی دُکان میں بہرحال پایا جاتا ہے! وہاں نقد اور اُدھار کے باضابطہ کھاتے پائے جاتے ہیں۔ بنیے کی دُکان میں محض نقدی ڈکار جانے پر اُدھار کھائے بیٹھ رہنے کی روایت بہرحال نہیں!
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں رضا ربّانی نے کہا ہے کہ سیاست میں چڑیا گھر کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ بیان پڑھ کر بہت حیرت ہوئی۔ رضا ربّانی صاحب نے دُنیا دیکھ رکھی ہے۔ پھر اُنہوں نے یہ بات کیوں کہی؟
ایک زمانے سے ہم سُنتے آئے ہیں کہ اِس ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو شاید کچھ معاملات درست بھی ہوچکے ہوتے! جنگل کا ہی سہی، کوئی قانون تو بہرحال ہونا ہی چاہیے تھا!
سیاست دان جو کچھ کہتے ہیں اُسے جانوروں کی بولی قرار دینا انتہائی نامناسب اور جانوروں کے جذبات مجروح کرنے والی بات ہے۔ تمام جانور خوں خوار نہیں ہوتے اور بیشتر جانور خاصے شائستہ ہوتے ہیں۔ جب تک چھیڑا نہ جائے، جارحیت کے ارتکاب سے گریز کرتے ہیں!
اگر رضا ربّانی صاحب کی بات درست ہوتی اور پاکستانی سیاست میں چڑیا گھر کی زبان استعمال ہو رہی ہوتی تو ہمارا دل بھی کسی حد تک قرار پا چکا ہوتا۔ ہم نے چڑیا گھر میں جانور دیکھے ہیں۔ اُن کی زندگی میں تو ایسا کچھ بھی نہیں جس کی بُنیاد پر اُن غریبوں یعنی جانوروں پر الزام عائد کیا جائے کہ سیاست میں اُن کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔
محترم رضا ربّانی ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا جانور آپس میں گالی گلوچ کرتے ہیں؟ ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے طرح طرح کے ناگفتنی الزامات کا سہارا لیتے ہیں؟ وہ بے چارے تو وعدے کرتے ہیں نہ دعوے۔ اِن غریبوں کو تو دھرنا دینا بھی نہیں آتا۔ سڑکیں بلاک کرنا اِن کے مزاج کا حصہ نہیں۔ جلاؤ گھیراؤ سے یہ نا آشنا ہیں۔ جنگل میں شیروں اور شیرنیوں کا غول کسی بھینسے کے گرد گھیرا اُس وقت تنگ کرتا ہے جب بھوک انتہا کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔ یہ عمل محض دِل پشوری کے لیے یا کسی ایجنڈے کے تحت نہیں کیا جاتا! شکار کی تحریک اپنی حقیقی ضرورت سے ملتی ہے، کسی امپائر کی اُنگلی کے اِشارے کا انتظار نہیں کیا جاتا!
جانور بے زبان تو ہوتے ہیں، بے احساس نہیں۔ ہم نے تو آج تک کسی جانور کو کوئی بے محل بیان داغتے نہیں دیکھا۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی جانور بلا ضرورت، محض اِس لیے شور کرے کہ مُنہ میں زبان ہے تو اُسے ہلانا ہی چاہیے! کُتّوں کے بھونکنے سے ہم آپ اکثر بے مزا ہوجاتے ہیں مگر اُن کا بھونکنا بھی عِلّت سے عاری نہیں ہوتا۔ وہ رات کی تاریکی اور سَنّاٹے میں ہمیں خطروں سے خبردار اور چوکنّا رہنے کی تاکید کر رہے ہوتے ہیں۔
اِس ملک میں سیاست دانوں اور ہر طرح کی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر جو کچھ کیا ہے وہ اندوہ ناک ہے اور اِس سے بھی اندوہ ناک ہے اُن کے اعمال کو جانوروں کے معصومانہ معمولات سے مشابہ قرار دینا!
کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ جانوروں کی زندگی ایک خاص نظم کے تابع ہے؟ وہ کھانے پینے اور رہن سہن کے معاملے میں چند انتہائی ٹھوس اُصولوں کے پابند ہیں۔ جانوروں کی زندگی میں ہر چیز توازن کے ساتھ ہے، ہر معاملہ اعتدال سے مُزیّن ہے۔ ایسے میں سیاست دانوں یا سرکاری مشینری کے کَل پُرزوں کی سرگرمیوں کو جانوروں کی سی زندگی قرار دینا جانوروں پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
جانوروں کا کوئی منتخب ایوان نہیں ہوتا اِس لیے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والی کیفیت پیدا کرنے سے گریز کرتے ہوں گے! جانوروں میں سیاسی جماعت بنانے کا رجحان بھی ناپید ہے یعنی وہ اپنے معمولی مفاد کے لیے دوسروں کا سب کچھ داؤ پر لگانے یا محض اپنی بوٹی کے لیے بکرا ذبح کرنے کی قبیح ذہنیت سے ناآشنا ہیں!
سمجھ میں نہیں آتا ہمارا ملک محض عجوبہ ہے یا کئی عجوبوں کا مجموعہ۔ یہاں پنکچر کی دُکان یا فروٹ چاٹ کا ٹھیلا چلانے کے تو کچھ اُصول ہوسکتے ہیں، حکومت چلانے کا کوئی طریق مقرر نہیں۔ یہ خالص فری اسٹائل کُشتی ہے۔ جو جس طرح چاہے مَدِ مقابل سے ٹکرا سکتا ہے، اُس کا تیا پانچا کرسکتا ہے۔ حکومت آخرش سیاست کے بطن سے نمودار ہوتی ہے۔ سیاست میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے، حکومت میں بھی یہی کچھ ہوگا۔
کسی غبارے میں ہوا بھرنے کے بعد اُس کا منہ بند کئے بغیر چھوڑ دیجیے تو کیا ہوتا ہے؟ یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ غبارہ کس طرف جائے گا اور آخرِ کار کہاں جا گِرے گا۔ وہ کہیں بھی گِرسکتا ہے۔ ہماری سیاست اور حکومت بھی اب اِسی طور کام کر رہی ہیں۔ تمام معاملات یکسر random کے اُصول کی بنیاد پر چل رہے ہیں یا چلائے جارہے ہیں۔ کسی کو کسی پر بھروسہ نہیں ؎
محبتوں میں عجب ہے دِلوں کو دھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے!
اِنسانوں کے معاملات میں جانوروں کو گھسیٹنا اُن بے زبانوں سے زیادتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُسے جانوروں کا طریق قرار دینا محتاط الفاظ میں بھی سَفّاک رویّہ ہی قرار دیا جائے گا۔ منتخب ایوان میں مچنے والی ہڑبونگ کو مچھلی بازار کے منظر سے مشابہ قرار دینا کہاں کی انصاف پسندی ہے؟ مچھلی بازار میں مال بیچنے کے لیے صدا لگائی جاتی ہے، کسی کی پگڑی تو نہیں اُچھالی جاتی! تیز اور ناگوار بدبو ہی تو ہوتی ہے، انفرادی مفادات کی ''خوشبو‘‘ تو بہرحال نہیں ہوتی! مچھلیاں کٹ کٹاکر، تل تلاکر کچھ مزا بہرحال دے جاتی ہیں، سیاسی مچھلی بازار تو محض بے مزا کرنے پر تُلا رہتا ہے!
ہم ایک زمانے سے منتظر ہیں کہ جو ہمیں راہ دکھانے کے خواہش مند ہیں اور اِس کام کے لیے اُتاؤلے ہوئے جاتے ہیں وہ بے زبان جانوروں سے بھی کچھ اکتسابِ ہُنر کریں۔ رضا ربّانی صاحب کو شاید دھوکا ہوا ہے۔ سیاست میں چڑیا گھر کی یعنی جانوروں کی زبان استعمال نہیں ہو رہی۔ ہمارے سیاسی اور انتظامی حکمران اب تک جانوروں کی زبان اپنانے سے بہت دور ہیں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو اُن کی زبان سے کبھی ہمیں کوئی ڈھنگ کی بات بھی سُنائی دے جاتی! انصاف اور خلوص کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ بھی اُلٹا سیدھا ہم کرتے ہیں اُسے جانوروں کے معمولات پر محمول نہ کیا جائے۔ اُن بے چاروں میں اِتنی چالاکیاں کہاں؟ کسی زمانے میں نچلے درجے کے سرکاری ملازمین جانوروں کی سی بے ضرر، لگی بندھی زندگی بسر کیا کرتے تھے مگر اب وہ بھی خیر سے اِتنا کچھ سیکھ گئے ہیں کہ درندے بھی دیکھیں تو اپنے فطری ہُنر کی بے بضاعتی پر شرمندہ ہوں اور چِلّو بھر پانی میں ڈوب مریں! اللہ کرے کہ ہم سب میں بالعموم اور ہمارے راہ نماؤں میں بالخصوص جانوروں کی سی تھوڑی بہت معصومیت، سادگی اور قناعت پسندی پیدا ہو تاکہ چند ایک معاملات تو سیدھے ہوں! ہمیں اُمید ہے کہ رضا ربّانی صاحب اور اُن کے ہم خیال افراد ہماری معروضات کا بُرا نہیں مانیں گے۔