آج کل ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سیاسی اشرافیہ اور درمیانے طبقے کے دانشوروں کے ہاں مقبول ترین نسخہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ' نئی معاشی حکمتِ عملی‘ ہے۔ پی ٹی آئی سے لے کر مذہبی جماعتیں، نام نہاد سیکو لر پارٹیاں، بر سرِ اقتدار سرمایہ داروں کی حکومت اور یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت بھی اس معاشی نظریے پر متفق ہیں۔ لیکن یہ 'نسخہ‘ تجویز کرنے میں وہ منفرد اور اکیلے نہیں ہیں۔ نجکاری، ڈائون سائزنگ، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور کارپوریٹ سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ معمول کی بات ہے۔ لیکن جہاں کہیں بھی یہ جارحانہ نیو لبرل پالیسیاں نافذ کی گئیں، وہاںملکی معیشت کو بچانے اور حقیقی شرح نمو کو جنم دینے میں یہ بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔
نہ صرف سرمایہ کاری میں شدید کمی آئی ہے بلکہ ماضی میں سرمایہ داری کے بحرانوں کے بعد بحالی بھی نہیں ہو سکی۔ اس بحران سے بطورِ معاشی نظام سرمایہ داری کا لا علاج مرض اور اس کی تاریخی متروکیت عیاں ہو گئی ہے۔ غربت، بیماری، ناخواندگی اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔کارپوریٹ میڈیا سرمایہ داری کے ہاتھوں کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالنے کے دعوے تو کرتا ہے لیکن انتہائی غربت اور ذلت میں رہنے پر مجبور اربوں انسانوں کے بارے میں یہ خاموش ہے۔ چند ممالک میں درمیانے طبقے میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن محنت کش طبقات کی بڑی تعداد اذیت ناک غربت میں گر چکی ہے۔ سرمایہ کاروں کو مراعات دینے کے لیے سرکاری خزانے لٹائے جانے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی اجرتیں، پینشن، مستقل ملازمتیں اور جدوجہد کے بعد جیتی گئی حاصلات چھینی جا رہی ہیں۔
اس بحران سے ہم آہنگ معاشی عالمگیریت کی تکمیل میں ناکامی
بھی واضح ہو چکی ہے۔ جہاں تک گلوبلائیزیشن ہو چکی ہے اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ سرمایہ داری کے ماہرین میں تحفظاتی پالیسیوں (پروٹیکشن ازم) کے حامیوں کا مقدر پہلے ہی سے ناکام ہے۔ آج دنیا میں کوئی ملک خود انحصاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔ ملکی معیشتوں کی عالمی معیشت اور منڈی سے جڑت کو توڑنا ممکن نہیں ہے۔2008ء کے کریش اور صارفین کی طلب میں گراوٹ سے پیسے کو محفوظ مقامات میں چھپانے کے رجحان میں اضا فہ ہوا ہے اور کارپوریٹ مالکان خصوصاً پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس سے بحالی موخر اور نحیف ہوئی ہے۔ 150برس بعد مارکس کا قدرِ زائد اور پیداواری شعبے میں شرح منافع میں گراوٹ کا نظریہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن کارپوریٹ کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری میں کمی ا ور صنعت کاری کی ایک اور وجہ بھی ہے۔گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں سرمایہ کاری کا محور محنت ( لیبر انٹینسو ) کی بجائے سرمائے (کیپیٹل انٹینسو) پر مرکوز ہو چکا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر نئی صنعت میں سرمایہ کاری کی بھی جاتی ہے، یا سازگار نجکاری کے تحت سرمایہ دار سرکاری ادارے خریدتا ہے اور جہاں پیداوار میں اضافہ بھی ہوتا ہے تو وہ مزید روزگار پیدا کرنے کی بجائے اس میں کمی کا باعث ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کے اس بدلے ہوئے کردار کے باعث مزید برطرفیاں، مہنگائی اور عوام کی غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاًموٹر سائیکل‘ چھوٹی گاڑیاں اور رکشے بنانے والی ہندوستانی اطالوی کمپنی بجاج نے 1999ء میں10,000مزدوروں
کے ساتھ25000 یونٹ بنائے۔ 2006ء میں یہی کمپنی پانچ ہزار مزدوروں سے45000 یونٹ بنا رہی تھی۔ انسانی محنت کی جگہ جدید ٹیکنالوجی لے رہی ہے۔ انسانی زندگی کو سہل اور بہتر بنانے کی بجائے ٹیکنا لوجی محنت کش طبقے کے لیے عذاب بن گئی ہے۔
چین میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیداوار میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری سے محنت کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ پرولتاریہ کے شعور کی بلندی اور محنت کشوں کی طاقت کا ادراک ہے۔ سرمایہ کاری کے چین کی جانب رخ کرنے سے مغربی ممالک میں بڑے بڑے صنعتی علاقے اجڑ گئے۔ اب سرمایہ داروں کے کئی حصے چین میں اچھی اجرتیں پانے والے کروڑوں محنت کشوں کی بجائے پیداواری صنعت کو واپس لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ میں یہ دلیل بکثرت استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے اور اس کی وجہ جدید پیداوری محنت کشوں کی پیداواری صلاحیت میں تبدیلی ہے۔ ایک چونکا دینے والی تحقیق کے مطابق نئی ٹیکنالوجی سے فی مزدور استحصال کئی گنا بڑھ رہا ہے اور ٹیکنالوجی کو اس نظام نے بیروزگاری اور ذلت میں اضافے کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
فوربز (Forbes) جریدے کے الفاظ میں '' 1950ء میں، اوسط امریکی فیکٹری مزدور 19,500ڈالر پیدا وارکرتا تھا (2011ء میں ڈالر کی قدر کے مطابق) اور1976ء میں فی محنت کش پیداوار دگنی ہو کر 38,500 ڈالر ہو گئی۔ فی محنت کش پیداوار دوبارہ دوگنی ہوکر 1997ء میں 74,400 ڈالر (2011ء کی ڈالر کی قدر کے مطابق) ہو گئی اور2010ء تک اس میں دو گناسے بھی زیادہ اضافہ ہو ا اور یہ 152,800 تک جا پہنچی، لیکن آخری مرتبہ اسے دگنا ہونے میں صرف13برس لگے کیونکہ محنت کشوں کی پیداواری صلاحیت (Productivity) میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ برس فی محنت کش صنعتی پیداوارنئی ریکارڈ سطح یعنی156,000ڈالر تک جا پہنچی جو 1947ء کی پیداوار سے دس گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ہمیں انہی اشیاء کی تیاری کے لیے اب کم محنت کش درکار ہیں۔ اگر کوئی کمپنی مثلاً 'ایپل‘ اپنی مصنوعات کی تیاری کی تمام صنعت کو امریکہ منتقل کر دے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہی کام پیداواری کارکردگی کی دو مختلف سطحوں پر کیا جائے گا۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ امریکہ کی بلند تر قیمت پر محنت کی اتنی ہی مقدار استعمال ہو گی۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر' ایپل‘ کے امریکہ میں نئے کارخانے امریکہ میں موجودہ پیداواری کارکردگی پر کام کریں تو تقریباً 10,000نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ یہ اچھی بات ہے لیکن یہ ملک میں روزگار کے مسائل کا حل نہیں تو نہیں۔ امریکی مزدور کو امریکی لیبر کی قیمت پر استعمال کر تے ہوئے پیدوار کرنے والے کارخانے میں اسی حد تک محنت کی جگہ ٹیکنالوجی لانا ہوگی، جس سے عملی طور پر پیداوار خودکار ہو جائے گی۔ امیر ممالک میں پیداواری صنعت بڑے پیمانے کے روزگار کی فراہمی کی صورت میں واپس نہیں آ سکتی۔ یہ قصہ ختم ہو چکا ہے؛ یہ معاشی ماڈل دم توڑ چکا ہے‘‘۔
اگر کارپوریٹ سرمائے کا انتہائی اہم جریدہ اپنے نظام میں رہتے ہوئے روزگار کے مواقع کے بارے میں اتنا مایوس ہے تو ہم سرمایہ داری میںکرۂ ارض کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان میں محنت کشوں کی وسیع اکثریت، حتیٰ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی مزدوروں کو مستقل روزگار سے ٹھیکہ داری نظام پر ڈال دیا گیا ہے۔ سرمایہ کار اب بھی نئی بھرتیاں نہیں کر رہے اور بے روزگاروں کا سمندر بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری کی بوسیدہ حالت میں ان نام نہاد بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے پاس عوام کو دینے کے لیے صرف معاشی اور سماجی بربادی کا اقتصادی پروگرام ہی ہے۔ کارل مارکس نے1864 ء میں لکھا تھا : '' اس معاشرتی نظام کی کوکھ میں کچھ تو اتنا گلاسڑا ہوا ہے کہ سرمایہ داری غربت اور ذلت میںکمی کیے بغیر حکمرانوں کی دولت میں اتنا بے بہا اضافہ کرتی جارہی ہے‘‘۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ عوام کی اکثریت اپنے ' آقائوں‘ سے متنفر اور لاتعلق ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے حواری دانشور اپنے تباہ کن نظام کے سوشلسٹ متبادل کو حقارت سے رد کردیتے ہیں۔ لیکن کب تک؟ عوام ایک حقیقی تبدیلی کے لیے بے قرار ہیں اورجلد ہی وہ بیدار ہو کر تاریخ کے میدان میں داخل ہوں گے اور اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ منصوبہ ساز اس تکلیف دہ تناظر سے با خبر ہیں۔ وہ اوران کے کاسہ لیس اپنے نا معقول خول سے باہر پھینک دیے جائیں گے اور حکمران طبقات کو قیمت چکانا پڑے گی۔ انقلاب آگے بڑھتا جائے گا اور انہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔