کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جس کے مقاصد واضح ہوں۔ جب انسان کے مقاصد واضح ہوں تو اس نے اہداف پورے کرنے کے لئے تمام آپشنز لائن اپ کئے ہوتے ہیںجیسا کہ ''جے مینوں یارنہ ملے تے مر جاواں‘‘۔ اس گیت میں بھی دو آپشن نظر آتے ہیں یعنی پہلے آپشن میں یار کے ملنے پر زور دیا گیا ہے اور دوسری صورت میں موت کو ترجیح دی گئی ہے ۔دشمنوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے فوج بھی دو آپشن استعمال کرتی ہے جس میں پہلا آپشن ہوتا ہے مذاکرات اوردوسرا آپریشن ۔ آپریشن مقصود ہو تو بھی آپشنز استعمال ہوتے ہیں یعنی سرجیکل سٹرائیک یا ایئر سٹرائیک ۔عمران خان صاحب گزشتہ چار مہینوں میں سب سے زیادہ دیکھے ،سنے اور ڈسکس کئے جانے والے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے احتجاج کا سلسلہ وسیع کرتے ہوئے اپنے پلانز کی حروفِ تہجی کا اعلان تو کر دیا ہے‘ البتہ کامیاب نہ ہونے کی صورت میں کیا حکمتِ عملی اختیا ر کرنا ہوگی ،اس بات سے وہ خود لاعلم ہیں ۔
کپتان نے اس بات کا اعتراف حال ہی میں کیا ہے کہ ''دھرنا ختم ہو گیا توپھر سوچیں گے کیا کرنا ہے ‘‘ ۔خان صاحب اپنے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ''استعفیٰ یا موت‘‘۔ حکومت کی طرف سے اس کا کوئی جواب تو نہیں سامنے آیا لیکن ان کی باڈی لینگوئج بتاتی ہے کہ جیسے انہوں نے بھی سوچ رکھا ہے کہ ''اقتدار یا موت‘‘۔کپتان کے دیرینہ دوست ان کی فطرت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی ضدی انسان ہیں۔ اس بات کا اعتراف اب پورا پاکستان کرچکا ہے ۔وزیر ِ اعظم بننا ان کی ضد ہے اور وہ اس سے کم کسی بات پر سمجھوتہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ الیکشن میں رِگنگ کروانے والوں نے سوچا ہوگا کہ کپتان کو ایک صوبہ مل جائے گا تو شاید انہیں کچھ صبر آجائے لیکن صورت ِ حال یکسر بدل گئی ،اب حال کچھ یوں ہے کہ ؎
دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
یا تو سب کچھ ہی اسے چاہیے یا کچھ بھی نہیں
سابق صدر آصف علی زرداری‘ جن کی حکومت پانچ سال پورے کر کے پاکستان کی جمہوریت کی پہلی فاتح قرار پائی ہے، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حکومت سے زیادہ تنقید عمران خان پر کرتے ہیں ۔وہ انوکھی اپوزیشن کررہے ہیں جسے زیادہ سے زیادہ ہومیو پیتھی قراردیا جاسکتا ہے۔ زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ دھرنوں اور انتشار کی بجائے افہام و تفہیم کی سیاست کی جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری صاحب کی افہام و تفہیم کی سیاست نہ ہوتی تو مڈٹرم الیکشن بھی اتنا ہی پاپولر ہونا تھا جتنی ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ ۔ زرداری صاحب نے جمہوریت کو مڈٹرم کے ٹوئنٹی ٹوئنٹی سے تو بچا لیاہے لیکن اپنی پارٹی کو فالو آن سچویشن تک لے آئے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان کو پارٹی حکام سے گلے شکوے تھے جس کا اعتراف خود بلاول بھٹو زرداری نے کیا اور کارکنوں سے باقاعدہ معذرت بھی کی۔ جن دنوں کپتان کے دھرنے کی کھڑکی توڑ نمائش جاری تھی انہی دنوں کچھ اس طرح کی باتیں سامنے آرہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان پی ٹی آئی میں شرکت کے خواہاں ہیں ۔اس وقت تو تردید ہوتی رہی تاہم حال ہی میں سابق صدر کا یہ کہنا کہ ''جو کارکن امپائر کی باتیں کرتے ہیں وہ امپائر والوں کے پاس چلے جائیں‘‘۔ ان آپشنز نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی کھچڑی پک رہی تھی جو اب دَم پر ہے۔ بہت سے سیاسی ملنگ اقتدار کے لنگر سے اپنے حصے کی نیاز وصول کرنے کے لئے دھڑا دھڑ اپنی سابقہ درگاہیں بدل رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اقتدار کا آئندہ میلہ چراغاںآستانہ بنی گالہ پرہی سجے گا۔
ملکہ ترنم نورجہاں نے کہاتھاکہ ''یا اپنا کسے نوں کر لے یا آپ کسے دا ہوبیلیا‘‘ مراد یہ ہے کہ اپنا کسی کو کرلو یا آپ کسی کے ہوجائو۔ چوہدری برادران ملکہ ترنم کے بتائے ان اصولوں پر ہی عمل پیرا ہیں تاہم پہلے آپشن میں ان کی پریکٹس زیادہ ہے۔ چوہدری برادران کے مشہور ترین آپشنز یہ ہیں کہ یا تو ہمیں حکومت کا حصہ بنایا جائے یا ہم ڈکٹیٹر شپ کا ساتھ دیں گے۔کچھ بھی ہو ،جتنے میاں برادران کھانا کھانے میں مشہور ہیں اتنے ہی چوہدری برادران کھانا کھلانے میں۔ سیاسی پنڈت شیخ رشید صاحب کے آپشنز کی ترجمانی یہ گیت کرتا ہے:
یا تو مجھ کو پاس بلا لے یا دنیا کو آگ لگا دے
یعنی یا تو مجھے کوئی وزارت دی جائے یا حکمرانوں کا بے رحم احتساب کیا جائے ۔اسی طرح کے آپشنز مولانا فضل الرحمن بھی استعمال کرتے ہیں یعنی ''مجھے کمیٹی برائے امورِ کشمیر کا چیئرمین بنایا جائے اور میری پارٹی کو ایک وزارت دی جائے‘‘۔ یہی آپشن استعمال کرتے ہوئے مولانا نے ایک بار وزارت ِ پیٹرولیم مانگی تھی جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ اگر فلیش بیک میں جائیں تو وکی لیکس کی رپورٹ کے مطابق مولانا امریکہ جاکر وزارت ِعظمیٰ بھی مانگتے رہے ہیں۔ پاکستان میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کی ایک ہی جماعت ہے اور وہ ہے متحدہ ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سے زیادہ منظم سیاسی جماعت اور کوئی نہیں اور نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں جیسے خوشحال سیاستدان متحدہ میں ملتے ہیں۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لئے ہر پارٹی کو متحدہ سے اتحاد کی ضرورت پڑتی ہے اور متحدہ نے ہر جماعت کا ساتھ بھی دیا لیکن اس بار پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات بڑھنے کے بعد متحدہ نے بھی دو آپشنز رکھ دیئے ، ''ہمیں دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے یا ہمیں الگ صوبہ دیا جائے ‘‘۔
عوامی نیشنل پارٹی ایک عرصہ سے ''واک تھر وسیاست ‘‘کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جلسوں حتیٰ کہ کارنر میٹنگز پربھی خودکش بھیجے جاتے رہے۔لال ٹوپی والے باچا خان کی سیاست کے دعویدار ہیں جن کی سیاست نوآبادیات اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھی ۔ باچا خان نظریاتی طور پر روس اور بھارت کے نزدیک اور امریکہ سے دور تھے لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے دوریاں ختم ہوچکی ہیں۔ آج کی اے این پی باچا خان کی سیاست پر اتنی ہی کاربند ہے جتنی پیپلز پارٹی زیڈاے بھٹو اور مسلم لیگ نون قائد اعظم کے فرمودات پر عمل پیرا ہے۔ خود کش حملوں کے حوالے سے پی پی پی اور اے این پی کی سٹوری ملتی جلتی ہے۔ نون لیگ وہ خوش نصیب سیاسی جماعت ہے جس کے جلسے ،ریلیاں اور لانگ مارچ فول پروف سکیورٹی پلان کے منظور شدہ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔
اسحاق ڈار کو ٹاسک دیاگیاہے کہ وہ عمران خان سے مذاکرات کریں۔ظاہر ہے اسحاق ڈار ،وزیر اعظم نوازشریف اور حکومت کی ترجمانی کررہے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ عمران خان احتجاج ملتوی کریں‘ مذاکرات کل ہی ہوسکتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن پر اعتراض نہیں‘ انٹیلی جنس اداروں کو رکن بنانا غیر آئینی ہے۔ادھر قاف لیگ کے علاوہ تمام جماعتوں نے جسٹس (ر) سردارمحمد رضاکو چیف الیکشن کمیشن بنانے کی حمایت کردی ہے ۔چوہدری برادران نے کہاہے کہ فخرو بھائی بھی بڑے ایماندار تھے لیکن شفاف الیکشن کرانے میں ناکام ہوئے تھے۔انتخابی اصلاحات کے بغیر غیر جانبدار انتخابات نہیں ہوسکتے۔ کسی منچلے نے کہاہے کہ چوہدری برادران کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے پرویز مشرف کو چیف الیکشن کمشنر بنانا ہوگا، ایسا ہوجائے تو چوہدری برادران 10بار الیکشن جیت جائیں گے۔
بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہواتھا کہ ''پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست‘‘۔ کنگ خان کا یہ ڈائیلاگ اس کی فلموں کے سیکوئیل کو جوڑتا ہے۔ قومی سیاست کی فلم کی نمائش بھی جاری وساری ہے ،اس میں شامل ہیروز اور سائیڈ ہیروز کہہ رہے ہیں کہ ''بحران ابھی باقی ہے میرے دوست ‘‘۔