تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-12-2014

کارِ سرکار سے لاتعلق سرکار

ابھی ابھی لندن سے ایک پیغام موصول ہوا ہے: حضور والا‘ اصل چیز ترجیحات کا تعین نہیں بلکہ خلوص ہوتا ہے۔ بجا ارشاد‘ بجا ارشاد‘ وہ خلوص ہے کہاں اور کس طرح بروئے کار آئے گا؟ خلا میں؟
اتوار کی شام بڑی خبر یہ تھی کہ فیصل آباد میں تحریک انصاف اور نون لیگ کے کارکن آمنے سامنے کھڑے رہے۔ تین پولیس سٹیشن ہنگامے کے مقام سے‘ گوارا فاصلے پر واقع ہیں۔ مگر گھنٹوں تک وہ بے نیاز رہے تاآنکہ الیکٹرانک میڈیا کا دبائو نتیجہ خیز ہوا۔ یہ بے دلی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ برسوں سے زوال کا عمل جاری ہے اور اب بھی اسی رفتار سے۔ 
2001ء کے پولیس آرڈر سے پہلے ایک سروے کیا گیا۔ انکشاف یہ ہوا کہ ایک ایس ایچ او‘ اوسطاً تین ماہ تک ایک تھانے میں متعین رہتا ہے۔ کیا اب کچھ بہتری آئی ہے؟ ''اگر تین نہیں تو چار ماہ‘‘۔ ایک جہاندیدہ افسر نے کہا۔ یہ لطیفہ بھی اسی ملک میں ہوا‘ کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے 95 فیصد علاقے کو لیویز کے زیر انتظام بی ایریا کی بجائے ''اے‘‘ ایریا قرار دینے کا جو فیصلہ صادر ہوا تھا‘ 2008ء کی صوبائی اسمبلی نے اسے منسوخ کر دیا۔ سرداروں کے ذریعے بھرتی کیے جانے اور انہی کے توسط سے تنخواہ پانے والے لیویز کے عملے کو برقرار رکھا گیا تھا۔ ان کی تربیت اور عمارتوں کی تعمیر پر اس وقت تک دس ارب روپے صرف ہو چکے تھے۔ یہ سب سرمایہ‘ یہ ساری کاوش رائیگاں رہی۔ میڈیا نے اس واقعے کا نوٹس تک نہ لیا۔ کسی بھی چینل سے کوئی ایک پروگرام بھی اس پر نشر نہ کیا گیا۔ 
چند ماہ قبل سندھ پولیس کے لیے نئے آئی جی کے تقرر کا سوال اٹھا تو یہ تجویز پیش کی گئی کہ ذوالفقار چیمہ کو یہ منصب سونپ دیا جائے‘ 
گوجرانوالہ میں جنہوں نے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے داد پائی تھی۔ جن کی دیانت‘ تحّرک اور عزم پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس پر ان کے ایک قریبی دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ کہا: سندھ حکومت کے لیے چیمہ صاحب قابل قبول کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم بنانے کی کوشش کریں گے اور یہ بات قائم علی شاہ اور جناب زرداری کیونکر گوارا فرمائیں گے؟ پانچ ارب روپے کا ساز و سامان انہیں خریدنا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں پولیس کانسٹیبلوں اور افسروں کی بھرتی کا مرحلہ درپیش ہے۔ خدشہ یہ تھا کہ نوکریاں فروخت کی جائیں گی۔ رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے کی بکتر بند گاڑیاں خرید رہی ہے۔ 
نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مفاہمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایسے میں خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ رحمن ملک کی نگرانی میں چین سے ایسے سکینر خریدنے کا ذکر‘ زبان زد عام رہا‘ جو بارود اور بموں کا سراغ نہ لگا سکتے تھے‘ محض نمائشی۔ اے این پی کی صوبائی حکومت پر الزام تھا کہ بلٹ پروف جیکٹوں کی خریداری میں اس نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا ارتکاب کیا۔ عمران خان کے دھرنوں کے ہنگام کیا میاں محمد نواز شریف سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہونے والی جماعتوں کا احتساب کر سکیں؟ 
اکثر پولیس والوں کا وزن 25,30 کلو زیادہ کیوں ہوتا ہے؟ وہ پُرخوری کے عادی کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ سوال ایک ماہر نفسیات سے پوچھا گیا۔ اس کا جواب یہ تھا: ڈپریشن کی وجہ سے۔ موٹروے پولیس ایک استثنیٰ ہے۔ شاید اس لیے کہ کسی قدر آزادیٔ عمل اسے حاصل ہے۔ 
''نادرا‘‘ ایک شاندار اور جدید ادارہ‘ تیس پینتیس ممالک کو اپنے پروگرام فروخت کرتا ہے‘ دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار ہوتا۔ شناختی کارڈ اس طرح بنایا جا سکتا ہے کہ وہ مسافر کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات مہیا کر سکے۔ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ بے شمار افغان شہریوں نے پاکستانی کارڈ بنا رکھے ہیں۔ سندھ میں بھارتی شہریوں کو کارڈ جاری کرنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک متعلقہ افسر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سکھر سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک معزز رہنما اس دھندے میں ملوث ہیں۔ کیا وہ ملک سے غداری کے مرتکب ہیں؟ میرا خیال ہے کہ لاپرواہی کے اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ عام آدمی تو کیا‘ سیاسی پارٹیوں نے بھی دہشت گردی کو اپنا مسئلہ کبھی نہیں سمجھا۔ حکومت اگر تہیہ کر لے اور پولیس کو کام کرنے دیا جائے تو دہشت گردی سے نمٹنا ممکن ہے۔ 1995ء کے اوّلین چھ ماہ کے دوران اوسطاً دس شہری روزانہ قتل کیے جاتے۔ جون کے آخر میں آپریشن کا آغاز ہوا اور سات ہفتے بعد‘ 14 اگست کو ڈبل سواری پر پابندی ختم کر دی گئی۔ سال کے آخر تک امن بحال تھا۔ نومبر میں بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کی گئی تو ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کو نظربند کر دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ زرداری صاحب کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار قرار دیں۔ نگران وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے صاف صاف ان سے کہا کہ وہ زرداری کو اس جال میں الجھا کر‘ ان کی سیاسی موت کا تہیہ رکھتے ہیں۔ فوراً بعد نواز شریف برسر اقتدار آئے تو یہ تحقیق کیے بغیر کہ مجرم کون تھا اور معصوم کون‘ مرنے والوں کے ورثا کو حکومت نے معاوضہ ادا کیا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کو افسر بکار خاص بنا دیا گیا اور آپریشن میں شریک پولیس افسروں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ 
سب کے سب مدارس انتہا پسندوں کے حامی نہیں۔ ان کے شدید مخالف بھی ہیں اور اعتدال کے حامل بھی‘ تعلیم و تدریس ہی جن کی ترجیح ہے مگر ایسے مدارس اور ایسی مساجد موجود ہیں‘ دہشت گردی کو جہاں جہاد قرار دیا جاتا ہے۔ چند سال قبل مدارس کی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا تو 21000 مدارس میں سے فقط 17000 کو رجسٹر کرایا گیا۔ سوشل میڈیا کو دہشت گرد کھلے عام اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کبھی نہ کی جا سکی‘ جو نفرت پھیلانے والے لٹریچر چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں۔ یہ انٹیلی جنس بیورو کا کام تھا‘ مگر کبھی یہ فریضہ اسے سونپا ہی نہ گیا۔
فرقہ پرستوں اور طالبان کا اتحاد خطرناک ثابت ہوا ہے‘ بلوچستان میں دہشت گردی کے ہر تین میں سے دو واقعات میں شاید فرقہ پرست ہی ملوث ہوتے ہیں۔ پختون خوا ہی نہیں‘ چاروں صوبوں کے ہزاروں جرائم پیشہ‘ بتدریج طالبان کا حصہ بن گئے۔ اغوا برائے تاوان کے علاوہ‘ منشیات کی سمگلنگ اور بینک ڈکیتیاں جن کے لیے مالِ غنیمت سمیٹنے کا ذریعہ ہیں۔ جنڈیالہ کا عصمت اللہ بھٹانی‘ ایک نمایاں مثال ہے۔ بھٹانی قبیلے کے اکابر نے اس کی موت پر اعلان کیا کہ ان سے تعزیت نہ کی جائے۔ 
سوات میں نفاذ شریعت کی تحریک نظام عدل کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔ کراچی میں پڑھے لکھے نوجوانوں کا احساسِ محرومی بالآخر تشدد میں ڈھلا۔ ریاست بے بس اور کمزور ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ عطا کرتی ہے اور نہ انصاف۔ ایک تہائی سے بھی کم ٹیکس وہ وصول کرتی اور بھیک مانگتی رہتی ہے۔ 500 ارب روپے سرکاری کارپوریشنوں پر ضائع ہو جاتے ہیں۔ دو اڑھائی سو ارب روپے کی بجلی چوری کر لی جاتی ہے۔ غلیظ ٹھیکیداری نظام بھی کم از کم دو تین سو ارب روپے سالانہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنا پانچ سالہ دور خرابیوں کے ساتھ بتا دیا۔ اقتصادی ترقی کے دلکش نعروں کے جلو میں‘ نون لیگ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ امن و امان کے بغیر کون سا استحکام اور کون سی ترقی؟ 
تنہا عسکری قیادت یہ بوجھ کب تک اٹھائے گی؟ میرا خیال ہے کہ ایک دن وہ وزیر اعظم اور وزرائِ اعلیٰ کے دروازوں پر دستک دے گی کہ حضور اپنے حصے کی ذمہ داری خود نبھائیے۔ اپنا بوجھ اٹھانے سے جو انکار کرتا ہے‘ ایک دن جبراً اس پر لاد دیا جاتا ہے۔ 
ابھی ابھی لندن سے ایک پیغام موصول ہوا ہے: حضور والا‘ اصل چیز ترجیحات کا تعین نہیں بلکہ خلوص ہوتا ہے۔ بجا ارشاد‘ بجا ارشاد‘ وہ خلوص ہے کہاں اور کس طرح بروئے کار آئے گا؟ خلا میں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved