تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     08-12-2014

سری لنکا میں صدارتی انتخابات کا معرکہ

یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ کولمبو میں ہونے والے صدارتی انتخابات ایک ایسی ریس کی مانند ہیں‘ جس میں ایک ہی گھوڑا حصہ لے رہا ہو۔ سارے شہر میں موجودہ حکمران مہندراجا پاکسی کے بڑے بڑے پوسٹر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یک طرفہ مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ اکثر ایشیائی حکومتیں اپنی طاقت اور اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں؛ چنانچہ سری لنکا کو بھی استثنا حاصل نہیں۔ سری لنکن حکومت نے سرکاری افسران میں مفت موٹر سائیکلیں تقسیم کیں، جبکہ کچھ کی تنخواہوں میں بھاری اضافہ بھی کیا گیا۔ ایک دوست، جو ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتا ہے، کو پانی کے بل میں پچیس فیصد رعایت دی گئی۔ یہ چھوٹی موٹی رعایتیں تو بظاہر دکھائی دیتی ہیں، صدر اور ان کی انتخابی مشینری نے ابھی ٹاپ گیئر نہیں لگایا۔ امکان ہے کہ وہ کامیابی کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر گزریں گے۔ 
ان حالات میں لگتا نہیں کہ متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میتھریپالا سیری سینا (Maithripala Sirisena) کوئی اپ سیٹ کر پائیں گے، اس کے باوجود کچھ ناقدین کی رائے میں سری لنکن صدارتی انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ سیری سینا نے بہت جوکھم اٹھایا‘ جب چند ہفتے پہلے اُنھوں نے وزارت صحت سے استعفیٰ دے دیا اور اپوزیشن میں شامل ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنا سیاسی نقصان کر بیٹھے ہیں، لیکن اس وقت تک اُنہیں خاطر خواہ حمایت ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد نہ صرف دس کے قریب ممبران SLFP کی صفوں سے نکل گئے بلکہ چھتیس کے قریب دیگر سیاسی اور سماجی جماعتوں نے سیری سینا کو اپنا حمایت کا یقین دلا دیا۔ ان میں سخت گیر نظریات رکھنے والی قوم پرست جماعت JHU بھی شامل ہے۔ یہ بدھ مذہب کے کٹر نظریات رکھتی ہے۔ 
اس وقت انتخابی شماریات کے مطابق اگر اپوزیشن کو تامل اور مسلمان ووٹوں کے علاوہ ایک تہائی کے قریب بدھ مذہب کے پیروکاروں کے ووٹ مل گئے تو وہ حکمران جماعت کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے سیری سینا ہر قوم کو ان کے ایجنڈے کے مطابق یقین دہانی کرا رہے ہیں، لیکن ایسا کرنے سے وہ تامل اور مسلمان ووٹروں سے دور ہو سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں اقوام کو بدھ مذہب کے انتہا پسندوں کی طرف سے خطرہ لاحق رہتا ہے۔ درحقیقت انھوں نے یہاں تک یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر جیت گئے تو وہ تامل شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کی پاداش میں متوقع یو این انکوائری کی اجازت نہیں دیں گے۔ درحقیقت بہت سے سری لنکن شہریوں کے نزدیک جنگی جرائم کی حقیقت کچھ بھی نہیں، یہ دراصل ان کے ملک کے خلاف مغرب میں چلنے والا پروپیگنڈا ہے اور اس کا مقصد ان کے ملک کو بدنام کرنا ہے۔ 
سیری سینا کا سب سے مقبول وعدہ سری لنکن صدر کے اختیارات میں کمی لانے کا عزم ہے۔ 1978ء میں جے آر جے وردھنے کی متعارف کردہ اصلاحات نے سری لنکن صدر کو بے پناہ اختیارات دے دیے تھے۔ موجودہ صدر راجا پاکسی نے ان اختیارات کا کھلا استعمال کیا۔ اس نے ان اختیارات پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے؛ تاہم یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ سری لنکا غیر معمولی حالات کا شکار تھا، اس لیے اس کی حکومت سے غیر معمولی فیصلو ںکی ہی توقع کی جا سکتی تھی۔ بہرحال اپوزیشن جماعتیںاس بات پر نالاں دکھائی دیتی ہیں کہ صدر کے اختیارات میں اضافے کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہو چکی ہے، اس لیے وہ پرانے نظام کو واپس لانا چاہتی ہیں... جس نظام میں وزیر اعظم پارلیمان کے سامنے جواب دہ تھا۔ 
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر رانیل وکرما سنگھے صدارتی عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں کیونکہ 1978ء کی اصلاحات کے خاتمے کے بعد صدارتی عہدہ بے اختیار ہو کر صرف برائے نام عہدہ رہ جائے گا، اس لیے رانیل وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کی صفوں میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ ان پر بارہا شبہ کیا گیا کہ وہ راجا پاکسی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ جنگی جرائم کے علاوہ راجا پاکسی کی حکومت... اور خاندان... دونوں بدعنوانی کے الزامات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ وہاں بھی حکمرانوں نے اقربا پروری کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس وقت صدر کے ایک بھائی، گوتابیا (Gotabaya) کو ملک کا دوسرا طاقت ور ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ بطور سیکرٹری ڈیفنس انھوں نے تامل ٹائیگرز کے خلاف بھرپور کارروائی کی، اس لیے اگر انکوائری ہوتی ہے تو وہ مورد الزام ضرور آئیں گے۔ چونکہ وہ شہری حکومت کے انچارج بھی ہیں، اس لیے بنائے جانے والے تمام منصوبوںکو ان کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ 
قومی اسمبلی کے سپیکر بھی راجا پاکسی کے ایک بھائی ہیں۔ ایک اور بھائی کے پاس کسی وزارت کا قلم دان ہے۔ اس طرح چاروں بھائی حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہیں پر ہی بس نہیں، صدر کا بیٹا ملک کے جنوبی حصوںکی پارلیمنٹ سے منتخب ہوا تھا۔ وہ وہاں کی سیاست میں بہت متحرک ہے۔ اس کے علاوہ حکمران خاندان کے درجنوں افراد اعلیٰ سرکاری عہدے رکھتے ہیں۔ درحقیقت پورے ملک کی بیوروکریسی ان کے قبضے میں ہے‘ اس لیے یہ ایک خاندان کی ہی حکومت ہے۔ راجا پاکسی کی حکومت سے سری لنکن عوام کو کتنا فائدہ ہوا، اس کا فیصلہ تو انتخابات میں ہو جائے گا‘ لیکن خاندان کو پہنچنے والے فوائد اظہر من الشمس ہیں۔ جنوب سے حکمران جماعت کے ایک رکن کا عوام کو مشورہ لائق توجہ ہے... ''آپ ہمیں ووٹ دیں، کیونکہ ہمارے پاس اتنی دولت آ چکی ہے کہ ہمیں مزید کی طلب نہیں، لیکن اگر آپ اپوزیشن کو ووٹ دیںگے تو وہ پہلے اپنا گھر بھریں گے‘‘۔
کئی برسوں سے راجا پاکسی نے اپوزیشن کی حمایت خریدنے کو ایک فن کا درجہ دے رکھا ہے۔ وہ ارکان پارلیمنٹ کو وزارتیں، پلاٹ اور ہر سال ڈیوٹی فری گاڑیاں منگوانے کے پرمٹ دیتا ہے۔ وہ اس سے بہت دولت کما سکتے ہیں کیونکہ سری لنکا میں لگژری کاروں پر 350 فیصد ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔ وزارتوں کی تعداد بڑھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے محکموں کو بھی وزارت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس عالم میں جب دس افراد فلور کراس کر کے اپوزیشن کی صفوں میں شامل ہوئے تو اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کس قدر غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اگرچہ راجا پاکسی کو ایک طویل جنگ ختم کرنے کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، لیکن وہ اقربا پروری، مہنگائی اور بدعنوانی کے باعث اپنی کشش کافی حد تک کھو چکے ہیں؛ تاہم ان کے سری لنکا میں سڑکوں اور موٹر ویز کا جال بچھانے کے منصوبے نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ 
مجھ سے بات کرتے ہوئے بہت سے سری لنکن افراد کا کہنا تھا... ''سارے سیاست دان ہی بدعنوان ہیں، لیکن راجا پاکسی نے ملک کے لیے کچھ تو کیا ہے‘‘۔ کیا یہ جذبات اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے؟ دراصل سری لنکا میں انتخابات وقت سے دو سال پہلے ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صدر کی گرتی ہوئی مقبولیت تھی تاکہ مکمل طور پر غیر مقبول ہو جانے سے پہلے پہلے وہ عوام کا سامنا کر لیں۔ بہرحال جو بھی نتیجہ ہو، سری لنکا میں دلچسپ انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved