لوجی‘ کالم کی ایک بار پھر چھٹی کرنی پڑ گئی۔ ابھی موڈ بنا ہی رہا تھا کہ محبی اشرف قدسی نے فون پر میری اصلاح کرتے ہوئے بتایا کہ مجید امجدؔ نے سائیکل کے تین نہیں بلکہ دو پرمٹ منظور کیے تھے‘ ایک آپ کا اور ایک میرا۔ البتہ مجھ سے پہلے کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے نام پر ایک گناہ کرنے لگا ہوں۔ چنانچہ سائیکل میں نے خریدی‘ چند روز چلائی اور اس کے بعد امجد صاحب نے اسی قیمت پر مجھ سے خرید لی کہ ان کے پاس کوئی سواری نہیں ہوا کرتی تھی جبکہ میرے لیے ریلے سائیکل ضرورت بھی تھی اور ڈالڈا گھی کے ڈبے کی طرح ایک سٹیٹس سمبل بھی!
اشرف قدسی شاعر تو تھے ہی لیکن مجھ پر اس لحاظ سے فوقیت بھی رکھتے تھے کہ انہیں امجدؔ صاحب کی صحبت کا مجھ سے کہیں زیادہ موقع نصیب ہوا۔ ناصر شہزاد (مرحوم) کی بھی ان سے خاصی قربت تھی؛ حتیٰ کہ موصوف کی شادی پر امجد صاحب نے ان کا سہرا بھی لکھا بلکہ امجد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے ان کی داستانِ محبت ایک کتاب کی صورت میں بھی لکھی جس پر میرا تبصرہ یہ تھا کہ یہ امجدؔ صاحب کا ایک انتہائی ذاتی اور جذباتی معاملہ تھا اور ناصرؔ شہزاد کو یہ کتاب نہیں لکھنی چاہیے تھی‘ کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس کاوش کو ہرگز پسند نہ کرتے۔
اشرف قدسیؔ نے بھی شہرِ غزل کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی جس میں ان شعراء کی منتخب غزلیں شامل کی گئیں جو ان دنوں ساہیوال میں قیام پذیر تھے جن میں امجد صاحب کے علاوہ منیر نیازی‘ گوہر ہوشیارپوری‘ جعفر شیرازی‘ حاجی بشیر احمد بشیر‘ مراتب اختر‘ یٰسین قدرت‘ خود اشرف قدسی‘ یہ خاکسار اور کئی اور حضرات شامل تھے‘ جن کے علاوہ بسمل صابری بھی تھیں‘ جن کا یہ شعر پچھلے دنوں مجھے کافی عرصے تک ہانٹ کرتا رہا ہے۔
وہ بے وفا ہی سہی، آئو اُس کو یاد کریں
کہ ایک عمر پڑی ہے اُسے بھلانے کو
اس سائیکل سے میں نے ایک فائدہ یہ بھی اٹھایا کہ ان دنوں کھیتی باڑی خود کاشت کرانے کا شوق میرے سر پر سوار تھا؛ چنانچہ میں چھٹی کے روز کوئی بارہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے گائوں جاتا اور وہاں ''پھیرا‘‘ مار کر شام کو واپس آ جاتا۔ گرمیوں کے موسم میں ذرا دِقت رہتی؛ چنانچہ راستے میں سڑک کنارے لگے ہوئے نلوں کے پاس رُک کر منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر تازہ دم ہو جاتا۔ گاڑی کی شکل دیکھنی بہت بعد میں نصیب ہوئی جبکہ اس سڑک پر اس وقت تک کسی پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی آنا جانا شروع نہ ہوا تھا کیونکہ سڑک بھی کچی تھی اور خاصی ناہموار۔ البتہ آخر تک جاتے ہوئے راجباہے کی پٹری سائیکل سواروں کے لیے بہترین روٹ ہوا کرتا تھا۔ اب سڑک پختہ ہو چکی ہے اور باقاعدہ ویگن سروس شروع ہے۔
چند روز پہلے اپنے اوتھ کمشنر رہنے کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک بار اس کی پانچ سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی جس کی تجدید ہائی کورٹ کا ایڈمنسٹریٹو جج کیا کرتا تھا۔ میاں یٰسین وٹو مرحوم میرے خاص قدردانوں میں سے تھے۔ میں نے یہ کام اُن کے ذمے لگا دیا کہ ہائیکورٹ ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ مجھ سے ان کی محبت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ مذکورہ جج صاحب کے پاس گئے اور کہا: ''جج صاحب! ایک بہت بڑے آدمی کا ایک بہت چھوٹا سا کام ہے‘‘۔ جج صاحب کو میرا نام بتایا اور کاغذات ان کے سامنے رکھ دیئے جنہوں نے فوراً اس پر دستخط کردیئے۔
وہاں‘ خاص طور پر تحصیل دیپالپور سے تعلق رکھنے والے معتبرین کی وضعداری کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ میاں منظور احمد خاں وٹو‘ جو ان دنوں ڈسٹرکٹ کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین تھے‘ ایک بار انہیں کسی پراجیکٹ کا افتتاح کرنے کے لیے ایک گائوں میں جانا تھا جہاں وہ دیرینہ نیازمندی کی بنا پر مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ وہاں ارکان اسمبلی و ضلع کونسل سمیت علاقے کے دیگر معززین بھی تشریف فرما تھے۔ جب وہ آخر پر تقریر کرنے کے لیے اٹھے تو فرداً فرداً اکابرین کا نام لینا شروع کردیا جو وہاں پر موجود تھے۔ جب کافی نام لے چکے اور میرا ذکر نہ کیا تو مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ آخر پر انہوں نے کہا‘ اور جناب میاں ظفر اقبال صاحب۔ یہ بالکل اسی طرح تھا جیسے فلموں کے اشتہارات میں ہیرو‘ ہیروئن اور دیگر اداکاروں اور اداکارائوں کا نام لکھے جانے کے بعد ہوتا ہے‘ اور سلطان راہی۔ یعنی یہ تاخیر تقدیم سے بھی بڑھ کر ہوا کرتی تھی۔
اس سائیکل کے حوالے سے کچھ لطیفے بھی رہے۔ ایک بار شام کو میں ڈبل روٹی وغیرہ خریدنے کے لیے اسی سائیکل پر گول چوک میں اپنی پسندیدہ رحمت بیکری پر گیا۔ واپس پیدل ہی چل پڑا۔ گھروالوں نے پوچھا تو انہیں بتایا کہ وہ تو وہیں رہ گئی؛ چنانچہ اسے جا کر لایا۔ یاد آیا کہ ایک صاحب کے بارے منقول ہے کہ وہ گرجے میں عبادت کے لیے گئے اور سائیکل باہر کھڑی کردی۔ دوسرے دن تیار ہو کر دفتر جانے لگے تو سائیکل غائب تھی۔ اچانک یاد آیا کہ اسے تو گرجا گھر ہی چھوڑ آئے تھے؛ چنانچہ پریشانی کے عالم میں جب گرجا گھر پہنچے تو یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ سائیکل وہیں کھڑی تھی؛ چنانچہ شکرانے کی عبادت کے لیے اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو سائیکل غائب تھی!
اسی طرح پطرس بخاری کا مضمون ''مرزا کی بائیسکل‘‘ بُری طرح سے یاد آیا۔ مختصراً ہی عرض کروں گا کہ مصنف جو سڑک سوار تھے‘ ایک دن اُن کے یارِ غار مرزا صاحب نے انہیں پیشکش کی کہ پیدل کیوں پھر رہے ہو‘ میرے پاس ایک پرانی سائیکل ہے وہ لے لو اور ہوا سے باتیں کیا کرو۔ مصنف نے ازراہِ انکسار لیت و لعل کی کہ مفت میں کیسے لے لوں۔ مرزا نے اصرار کیا تو زبردستی 40 روپے مرزا کی جیب میں ڈال دیئے۔ مرزا نے کہا کہ میں شام تک سائیکل بھجوا دوں گا۔ دوسرے دن مصنف نے ایک عجیب اور بے ڈھنگی سی مشین صحن میں پڑی دیکھی تو ملازم سے پوچھا‘ یہ کیا چیز ہے۔ ملازم نے بتایا کہ سائیکل ہے! مصنف نے پوچھا‘ لیکن وہ سائیکل جو مرزا صاحب نے بھیجی ہے‘ وہ کہاں ہے؟ جواب ملا‘ یہی ہے! اس کے بعد پطرس بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اس کی مرمت کروا کر اسے چلانے کی کوشش کی اور اس دوران اُن پر کیا کیا گزری۔ آخر جہاں سے مرمت کروائی تھی‘ وہاں اسے فروخت کرنے کے لیے گئے۔ دکاندار کافی دیر تک اسے غور سے دیکھتا رہا اور پھر بولا کہ ہم اس کے ساڑھے تین روپے دے سکتے ہیں!
آج کا مطلع
یہ بھی ہو سکتا ہے یکدم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے