تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-12-2014

میں کیا کروں

سارے گائوں میں دہشت پھیلانے والا ایک چوہدری‘ غریبوں کے سامنے اپنی بے چارگی کا رونا رو رہا تھا۔''اللہ جانے میری قسمت میں کیا لکھا ہے؟ جو کام کرتا ہوں‘ الٹ پڑتا ہے۔ جس کی فصل کو آگ لگائوں‘ مالک کا سارا خاندان سیاپا کرتا ہوا‘ میرے گھر کے سامنے آبیٹھتا ہے۔ جس کی چارپائی کے نیچے آگ لگائوں‘ وہی اٹھ کر بھاگ جاتا ہے۔ جس کا گلا دباتا ہوں‘ وہی آنکھیں نکالنے لگتا ہے۔ اللہ ہی جانے میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘‘۔ا ن دنوںایسی ہی بیچارگی کا مظاہرہ‘ موجودہ حکومت کے''سیاپا وزیر‘‘ کر رہے ہیں۔ وہ حکومت کی بے چارگی‘ بے بسی اور مظلومی کا اس طرح گڑگڑاتے ہوئے ذکر کرتے ہیں ‘ جیسے ان سے زیادہ دکھی اور ستم رسیدہ شخص ‘ دنیا میں کوئی نہ ہو۔ میڈیا کے مطابق‘ کل جب ان کی حکومت فیصل آباد میں‘ دو انسانی جانیں چھین چکی تھی۔ درجنوں شہریوں کو زخمی کر ڈالا گیا تھا اور ان گنت بے گناہوں کو گرفتار کر کے‘ تھانوں میں پھینک دیا تھا۔ ''سیاپا وزیر‘‘ سر میں راکھ ڈالے‘ چہرے پر غم و اندوہ کی اداکاری کے رنگ چڑھائے اپنا دکھ‘ کچھ اس طرح بیان کر رہے تھے۔ ''حکومت نے عمران خان کو مذاکرات کے لئے‘ دعوتیں دیں۔ ان کاوفد مذاکرات کے لئے آیا اوراس کے بعد تحریک انصاف کا وفد مذاکرات کو چھوڑ کر ایسے گیا کہ دوبارہ بلاوے بھیجنے کے باوجود‘ لوٹ کر نہیں آیا۔اسحق ڈار صاحب اسی میز پر دوبارہ مذاکرات کے لئے ‘ اکیلے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ خان صاحب پروا ہی نہیں کر رہے۔ عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ فیصل آباد میں تحریک انصاف کی طرف سے احتجاجی پروگراموں کے اعلانات ہوئے تو حکومت بالکل چپ بیٹھی رہی۔ اس نے اپنے کارکنوں سے کچھ نہیں کہا۔ کوئی ہدایت نہیں دی اور قیادت نے حکم دیا کہ فریقِ مخالف کچھ بھی کرے‘ آپ لوگوں کو امن سے رہنا ہے۔ وہ ڈنڈا ماریں تو تم اپنا سر مزید جھکا دو۔ وہ تھپڑ رسید کریں تو دوسرا گال آگے کر دو۔ مکا ماریں تو سینے سے قمیص اٹھا لو۔ پتھر ماریں تو دوسرا پتھر ان کے سامنے پیش کر دو۔ ہم نے تو اپنے کارکنوں کو ڈنڈے دے کر‘ مظاہرین کے پاس بھیجا۔ ان کی حفاظت کے لئے‘ بھاری تعداد میں پولیس تعینات کی۔جب مظاہرین نے ہماری طرف سے بھیجے گئے ڈنڈوں کی پروا ‘نہ کی تو ہمارے بے ضررکارکنوں نے یہ ڈنڈے خود ہی ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دئیے۔آخر وہ کب تک انتظار کرتے؟اسی دوران تحریک انصاف کے غنڈے اپنے دو ساتھیوں کی لاشیں لے کر‘ عوام کو یہ دکھانے سڑک پر آگئے کہ حکومتی پارٹی کے کارکن ان پر زیادتی کر رہے ہیں۔ میں نے تو فیصلہ کیا تھا کہ ان دونوں شہید کارکنوں کی نماز جنازہ بھی پڑھوائوں لیکن افسوس کہ مجھے اس کا تجربہ نہیں۔ اسی لئے ہم نے ہلاک شدگان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ہمارے کارکن ظلم سہنے کے باوجود‘ مخالفین کو ڈنڈے پیش کرتے رہے اور انہوں نے جتنے مظاہرین کو زخمی کیا‘ ان سب کو ہمارے ڈنڈوںسے زخم لگے۔فیصل آباد کے شہریوں سے تحریک انصاف والوں نے جو بے رحمانہ سلوک کیا‘ اس پر مجھے دو پیاز کتر کے اپنی آنکھیں بھگونا پڑیں۔
اب میں سب کے سامنے‘ درد ناک کہانی بیان کروں گا جس کے صدموں سے ہمارے سینے پہلے سے چھلنی ہیں۔ ہم نے بچوں کے تمام سکول کھلوائے۔ بچوں کی حفاظت کے سارے انتظامات کئے۔ بچے اپنے سکولوں میں بیٹھے‘ پڑھنے میں مشغول تھے کہ تحریک انصاف کے غنڈے‘ سکولوں میں داخل ہو گئے۔ بچوں کو دھمکایا کہ وہ تعلیم چھوڑ کر‘ بھاگ جائیں لیکن بہادر بچوں نے ان کی ایک نہیں مانی اور یہ غنڈے‘ بچوں کا انکار سن کر‘ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائے اور دم دبا کر‘ سکولوں سے نکل گئے۔حاضرین کرام! پاکستانی قو م ابھی سوات کے ان دردناک واقعات کو نہیں بھولی۔ جب سکول جلا دئیے گئے تھے۔ بچیوں کو سکولوں میں جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ قوم کی ایک بیٹی ملالہ کو صرف اس لئے گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا کہ وہ پڑھنا چاہتی تھی۔عمران خان کے غنڈے بالکل اسی طرح کے بے رحم قاتل تھے‘ جنہوں نے سکول جانے والی بچیوں پر‘ گولیاں برسائیں۔ اگر حکومت نے بچوں کی حفاظت نہ کی ہوتی تو آج فیصل آباد کے ہر گھر سے بین سنائی دیتے۔
عمران خان نے جس بے رحمی سے‘ دو سیاسی کارکنوں کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ بازار کھلے رہیں۔ شہریوں کو تکلیف نہ ہو لیکن تحریک انصاف والوں نے ہماری ایک نہ چلنے دی اور بازار بند کر کے‘ شہریوں کو تکلیف پہنچائی۔ بازار اور کارخانے ہم نے بھی بند کرائے تھے مگر کیا مجال‘ کسی شہری کو خراش تک بھی آئی ہو۔ہم نے صرف بجلی اور گیس کی فراہمی بند کر کے‘ بازاروں اور فیکٹریوں کو روزانہ کئی کئی گھنٹے بند رکھا۔ چولہے ٹھنڈے کر دئیے۔ ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کر دیا۔ بھوکے اورفاقہ زدہ بچے اس قابل ہی نہ رہے کہ سکولوں میں جا سکیں۔ ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جس طرح تحریک انصاف نے لائل پور کو ایک دن کے لئے بند کرایا وہ یقیناً ایک ظالمانہ طریقہ تھا۔ اس دن مزدور دیہاڑی بھی نہ لگا سکے۔تحریک انصاف والوں پر‘ ایک رحم دل نوجوان بڑے آرام سے گولیاں چلاتا رہا...پولیس نے اس کی پوری طرح حفاظت کی لیکن ''دنیا میڈیا گروپ ‘‘کے فوٹو گرافر نے سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اس پستول والے نوجوان کی تصویر بنا لی۔ پولیس چاہتی تو فوٹو گرافر کو وہیں ڈھیر کر سکتی تھی۔ کیمرہ چھین سکتی تھی۔ اس پر کیس بنا سکتی تھی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کرنے دیا ورنہ خوامخواہ تحریک انصاف کا ایک مظلوم کارکن‘قتل کے مقدمے میں پھنسایا جا سکتا تھا۔تحریک انصاف والوں نے حکومت کے اس نرم دلانہ رویے کے بعد بھی‘ حکومت کو تنگ کرنا نہیں چھوڑا۔بعد از دوپہر‘ وہ پتھروں سے دو ٹرک بھر کے لائے اور پولیس کے حصار میں محفوظ کھڑے لیگی کارکنوں کے سامنے‘ جگہ جگہ پھینکتے گئے۔ ہمارے پر امن کارکنوں کو مجبوراً وہ پتھر اٹھا کر‘ تحریک انصاف والوں کی طرف پھینکنا پڑے اور تحریک والوں نے وہ پتھر کیچ کر کے‘ ہمارے ہی نوجوانوں کو مارنا شروع کر دیا۔تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی‘ حکومت کی شرافت اور رحمدلی کا خیال نہ آیا اور جو نوجوان جلوس میں گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہو اتھا۔ اس کے ورثا نے ایف آئی آر میں رانا ثنا اللہ کا نام لکھوا دیا۔تحریک والے خداجانے کیوں رانا ثنا اللہ کے مخالف بن گئے ہیں۔ ان کی اتحادی پارٹی ‘عوامی تحریک نے بھی ماڈل ٹائون کیس میں رانا ثنا اللہ کا نام لکھوایا تھا۔حکومت نے پہلی عدالتی رپورٹ سیل کر کے‘ دوسری تیار کرائی اور رانا ثنااللہ کا نام ‘ اس میں سے حذف کرادیا۔رانا صاحب‘ چار دن بھی اطمینان کا سانس نہیں لے پائے تھے کہ ایک نئی ایف آئی آر میں ان کا نام آگیا۔ہمارے لیڈر جناب نوازشریف نے انتخابی مہم کے دوران‘ عمران خان کے سٹیج سے گرنے پر‘ اپنا انتخابی جلسہ منسوخ کر دیا تھا اور ان کی عیادت کے لئے ‘ خود چل کر ہسپتال گئے تھے۔ہمارے لیڈر کا کردار دیکھئے اور عمران خان کا دیکھئے کہ ایک نے کتنے اخلاق کا مظاہرہ کیا اور دوسرے نے کس قدر بداخلاقی کی۔ہمارے ساتھ‘ ہمیشہ ظلم ہوتا آیا ہماری حکومت جتنی بھی نیکیاں کرتی ہے‘ جواب میں اسے برائی ہی ملتی ہے۔
ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ تحریک انصاف نے لاہور میں مال روڈ بند کرنے کی دھمکی دے کر‘ اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ ان کے پاس ہمہ وقت تیار کارکن کہاں سے آگئے جنہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے شہر کی سب سے بڑی سڑک بند کر دی۔اس کے ساتھ ہی کراچی اور راولپنڈی میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے۔گجرات میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔آپ ہی سوچئے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہمیں صرف یہ بتایا گیا کہ تحریک‘ فیصل آباد میں صرف احتجاجی مظاہرہ کرے گی۔ ہم سے جہاں تک ممکن ہوا‘ ہم نے سارے انتظامات'' اچھی طرح‘‘ کر دئیے لیکن خان صاحب نے بلاوجہ انگلی اٹھا کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع کر دئیے۔میں ابھی فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے کارکنوں کے دکھ میں بہنے والے آنسو پونچھ رہا ہوں کہ دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے ہونے لگے۔ خدانخواستہ وہاں دو چار اور ہلاک ہو گئے تو مجھے کل بھی ٹی وی پر بیٹھ کرآنسو بہانا پڑیں گے۔ عمران خان ہر گز قابل اعتبار نہیں۔ ایک شہر کا بتاتے ہیں اور کئی شہروں میں مظاہرے کر دیتے ہیں۔ کون سی حکومت‘ ایسے غیر متوقع واقعات کو فی الفور رکوا سکتی ہے۔ایسے ہوتا رہا تو ہم آنے والے دنوں میں‘ حکومت کیسے کریں گے؟ میرے پاس تو اپنا گھر بھی نہیں۔ ابھی صرف بنانے کی تیاریاں کی ہیں۔ اگلے سال تک ذاتی گھر تعمیر کرنے کے قابل ہونا تھا۔ لگتا ہے خان صاحب مجھے اس کی مہلت بھی نہیں دیں گے۔ابھی ابھی تحریک انصاف کے لیڈر عارف علوی نے اعلان کر دیا ہے کہ'' لاشیں گر رہی ہیں‘ ایسے ماحول میں مذاکرات نہیں ہو سکتے‘‘۔آپ ہی بتائیے‘ ہم کیا کریں؟ وہ صرف لاشیں گرنے پر مذاکرات معطل کر دیتے ہیں۔ کون سی حکومت ہے جو ایسی اپوزیشن کے ساتھ معاملہ کر سکے۔ وہ صبح کچھ کہتے ہیں اور دوپہر کو لاشیں گرانے کے بعد‘ بدل جاتے ہیں۔ ان کا کیا اعتبار؟‘‘

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved