ایک اور سیاسی کارکن گولی کا نشانہ بنا اور عمران خان کی پرامن سیاسی تحریک کو گل رنگ کرگیا۔
فیصل آباد میں تحریک انصاف اور عمران خان کی مشکل میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے نادان دوستوں اور کودن مشیروں نے آسان کردی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت تک جمہوری تحریکوں اور احتجاجی مظاہروں کے چشم دید سیاسی اور صحافتی کارکن بخوبی جانتے ہیں کہ کسی کاروباری شہر اور سڑکوں کو بند کرانا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔
عمران خان نے تاجروں کو دکانیں بند کرنے یا نہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے کر تحریک انصاف کے کارکنوں کو پریشان کردیا تھا کہ وہ ایک ایسے کاروباری شہر کی سڑکیں کیسے بند کریں گے جو مسلم لیگ ن کا گڑھ اور حکومت کے شدید حامی کاروباری طبقے کی راجدھانی ہے۔ واقعی یہ مشکل ٹاسک تھا جو رانا ثناء اللہ ، عابد شیر علی اور طلال چودھری کے خوش دلانہ تعاون کے بغیر پورا نہ ہوتا۔حکومت کی طرف سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو مد مقابل لانے کے طفیل 1977ء کے بعد غالباً پہلی بار فیصل آباد کے آٹھ بازار مکمل بند ہوئے اور پولیس کو تاجروں کی حفاظت کے نام پر '' انصافیوں‘‘ کی پٹائی کے لیے کوئی ترددنہ کرناپڑا۔
کارکن تحریک انصاف کا ہویا مسلم لیگ ن کا، اگرگولی کا نشانہ بنے تو فائدہ سیاسی قیادت کا اور نقصان صرف اور صرف ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی ،بھائی ، بیٹے اورباپ کا ہوتا ہے۔ ساتھی کارکن اور دوست احباب بھی دوچار روز آنسو بہا کر صبر کرلیتے ہیں۔میاں نوازشریف اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کے دو ادوار حکومت میں سیاسی قتل نہیں ہوئے ۔ مگر 17جون سے اب تک پولیس اور بعض قریبی ساتھیوں نے پرلے درجے کی نادانی اور غیر سیاسی و غیر جمہوری طرز عمل سے اپنے لیڈر کو اس قابل فخر سرمائے سے محروم کردیا ہے۔ کیمرے کی آنکھ جھوٹ بولتی ہے نہ سارا الیکٹرانک میڈیا حکومت کا مخالف ہے۔ اس لیے حکومت کے بھونپو جو کہیں ملک بھر کے عوام نے ٹی وی چینلز پر بہ چشم خود دیکھا کہ گولی کس طرح سے چلی اور جاں بحق کارکن کا تعلق کس جماعت سے تھا۔ رانا ثناء اللہ کی منطق مان لی جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماڈل ٹائون کی طرح ہجوم پر سیدھی گولی چلانے والا شخص جہانگیر ترین ، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا گارڈ ہے اور اسے ریوالور شیریں مزاری نے تھمائی جو اس خاتون نے روجھان سے منگوایا تھا۔
ہر فوجی اور سیاسی آمر کے خلاف سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں نے مردانہ وار جدوجہد اس لیے کی کہ پاک وطن کو لاٹھی گولی کی سرکار سے نجات ملے اور بقول احمد ندیم قاسمی خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو مگر سول اور فوجی بادشاہوں کی ہوس زر کم ہونے میں آرہی ہے نہ سیاسی کارکنوں کے خون کی عادی دھرتی کی پیاس بجھنے کی نوبت۔ فیض صاحب نے دور آمریت میں سیاسی کارکنوں اور جمہوری جدوجہد کے ''عادی مجرموں ‘‘پر ہونے والے ظلم و ستم ، جبر و تشدد پر یوں صدائے احتجاج بلند کی تھی ؎
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ تِرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو تِرے صحرائوں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تیری شاہراہوں میں سنگسار ہوئے
بلاکشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے
17جون سے موجودہ حکمرانوں نے پولیس کے بجائے اپنے گلو بٹوں کو مخالفین کی سرکوبی پر مامور کیا ہے جو پاکستانی سیاست میں نئی روایت ہے۔ غلام مصطفی کھر نے 1977ء میں یہ کارنامہ انجام دے کر بھٹو صاحب کا دھڑن تختہ کرایا۔ معلوم نہیں شریف برادران کے نادان دوست کیا چاہتے ہیں؟ تاہم جیسی کرنی ویسی بھرنی کے آفاقی اصول کے تحت یہ انداز سیاست ان کے گلے کا طوق بن سکتا ہے۔
ماضی کے سیاستدان اور سیاسی کارکن شعرو ادب کا ذوق رکھتے اور اقبال ؒ ، فیض، ساحر ، حبیب جالب اور مشیر کاظمی کے ولولہ انگیز اشعار سے سامعین میں ولولہ پیدا کرتے تھے۔
مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے کارکن ذرا وکھری ٹائپ کے ہیں ۔ شعر و ادب سے زیادہ انہیں جدید طرز کی موسیقی اور زندہ باد، مردہ باد اور گو نواز گو، رو عمران رو کے نعروں سے دلچسپی ہے۔ معلوم نہیں وہ موسیقی کا خمار ان نعروں کی ترشی سے دور کرتے ہیں یا ان نعروں کی حدت کو موسیقی سے ٹھنڈا۔
ایک جینئن سیاسی کارکن حق نواز عرف اصغر کی المناک موت پر صرف تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکن نہیں، اس ملک کا ہر شہری سوگوار ،افسردہ اورشرمندہ ہے۔ مفاہمتی جمہوریت ڈائن بن گئی ہے اور ظلم کوچہ و بازار میں بچے دینے لگا ہے۔
ساحر لددھیانوی نے لومُبا کی وفات پر جو کہا، اسے ہماری جمہوری تحریکوں میں دائیں ،بائیں بازو کے لیڈروں اور کارکنوں نے بار بار دھرایا۔ پی ٹی آئی کے کارکن کی ہلاکت پر یہ اشعار برمحل لگتے ہیں ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بے داد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پُرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے، خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کے
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے، آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبائو تو دبائے نہ بنے
حکمران یہ دعویٰ کرتے تھے کہ عمران خان کو لاش درکار ہے، یہ لاش حکومت کے بہی خواہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ایسے لیڈر کو تھمادی ہے جس نے گزشتہ چار ماہ سے نوجوانوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما رکھا ہے اور ان کا گرم لہو کچھ کرگزرنے کو بے قرار ہے ۔احتجاجی تحریک نے ایک نئی کروٹ لے لی ہے۔دائرہ پھیل گیا ہے، مذاکرات و مفاہمت کی خواہش مایوسی میں بدل چکی ہے اور ہر دردمند و محب وطن شہری حکمرانوں سے یہ پوچھنے پر مجبور ہے ؎
اے رہبر ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
دھرتی کی سلگتی چھاتی کے
بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے
وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
سڑکوں کی زباں چلاّتی ہے
ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا!