تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-12-2014

تین ماہ پرانی کہانی پر ایک اور گھسا پٹا کالم (1)

آپ یقین کریں میں اپنے تئیں بہت کوشش کرتا ہوں کہ اپنے بعض دوستوں اور محبت کرنے والوں کی خواہش کے مطابق '' ملتانیت‘‘ سے نکل کر ذرا بڑے منظرنامے پر لکھوں۔ جنوبی پنجاب کی محبت میں ہلکان ہونے کے بجائے وسیع تر تناظر میں قلم اٹھائوں۔ میں ان کی '' ہدایات‘‘ پر عمل کرنے کا ارادہ بھی کرتا ہوں مگر بقول شاعر ؎
جام مے توبہ شکن‘ توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
ہر باروعدہ اور ارادہ ٹوٹ جاتا ہے ۔یہ میں ارادتاً نہیں کرتا بلکہ مجبوراً کرتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہی ایسا آن پڑتا ہے کہ لکھے بنا چارہ نہیں ہوتا۔ اب بھلا اس میں اس عاجز کا کیا قصور ہے؟ حالات دھکا دے کر مجبور کریں تو آدمی کیا کرے ؟
تاریخ یاد نہیں تاہم اتنا ضرور یاد ہے کہ یہ ستمبر کے وسط کی بات ہے۔ میں اسلام آباد جانے کے لیے ملتان کے ہوائی اڈے پر اپنی پرواز کا منتظر تھا۔ میں سی آئی پی لائونج میں بیٹھا ہوا تھا۔ قارئین آپ نہ سمجھیں کہ میں سی آئی پی لائونج میں اپنے بیٹھنے کا ذکر کرکے اپنا سٹیٹس اونچا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مجبوری تھی۔ عام مسافروں والا لائونج اس رات بطور انٹرنیشنل لائونج استعمال ہورہا تھا اور اندرون ملک پرواز پر جانے والے تمام مسافر اورجو اسلام آباد جانے والے چھوٹے سے جہاز اے ٹی آر کے مسافر تھے اس چھوٹے سے سی آئی پی لائونج میں بھیج دیے گئے تھے جو ان تھوڑے سے مسافروں کے لیے بھی ناکافی تھا۔ پرواز لیٹ ہونے کا اعلان ہوا اور پھر یہ اعلان تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہوتا رہا۔ بوریت شروع ہوگئی تو ٹی وی دیکھنا شروع کردیا۔ تاہم جلد ہی اس سے بھی بور ہوگیا۔ اسی دوران سیلاب کے سلسلے میں خادم اعلیٰ کی ملتان آمد کی خبر اور جھلکیاں دیکھیں۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک ہمدم دیرینہ کو دیکھا تو اسے فون کرنے کو دل کیا۔ سو فون ملایا تو دوسری طرف سے مخصوص آواز آئی۔ جی ! خالد جی! میں نے پوچھا کہاں ہیں؟ جواب ملا آپ کہاں ہیں ؟ میں نے کہا حسب سابق مسافرت میں ہوں اور فی الوقت ملتان ایئرپورٹ پر اسلام آباد جانے کے لیے جہاز کا منتظر ہوں جو خدا جانے کب آئے گا اور پھر جائے گا۔ دوست نے پوچھا ،ایئرپورٹ پر کہاں بیٹھے ہو۔ جواب دیا سی آئی پی لائونج میں ہوں۔ وہ دوست کہنے لگا ،میں بھی اب سی آئی پی میں ہوں مگر آپ نظر نہیں آرہے۔ میں کھڑا ہوگیا اور کہا ،کیا اب نظر آرہا ہوں ؟ جواب ملا جی بالکل نظر آگئے ہیں۔ میں آپ کے بالکل پیچھے ہوں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو چند فٹ کے فاصلے پر سی آئی پی لائونج کے آخری کونے میں ایک دروازے میں میرا دوست فون کان سے لگائے کھڑا تھا۔ ہم دونوں نہایت گرمجوشی سے ملے۔ میرے دوست نے میرا ہاتھ پکڑا اور کچھ کہے بغیر مجھے لے کر اسی کونے والے دروازے میں داخل ہوگیا۔ میں نہ تو پہلے کبھی اس کمرے میں آیا تھا اور نہ ہی مجھے اس کمرے کا کوئی اندازہ تھا۔ یہ ایک وی آئی پی سٹائل میں سیٹ کیا ہوا کمرہ تھا۔ سامنے کرسی پر میاں شہبازشریف بیٹھے ہوئے تھے۔
مجھے اس کمرے میں داخل ہونے تک رتی برابر اندازہ نہیں تھا کہ ساتھ والے کمرے میں کوئی وی آئی پی تشریف فرما ہے۔ ایئرپورٹ پر غیر معمولی سکیورٹی ضرور تھی مگر ملک میں وی آئی پیز اب کیونکہ تھوک میں دستیاب ہیں اس لیے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کون آرہا ہے اور کون جارہا ہے۔ میاں شہبازشریف بڑی گرمجوشی سے ملے اور ایک آدھ منٹ حال چال پوچھنے کے بعد اپنے خاص سٹائل میں فوراً ہی ملتان میں سیلاب کی صورتحال پر آگئے۔ جب باتیں شروع ہوئیں تو میں نے عرض کیا کہ محترم! سیلاب قدرتی آفت ہے لیکن ان بہت سے نقصانات سے بچا جاسکتا تھا جو اس بار بھی ہوئے ہیں۔ میاں صاحب کہنے لگے کون سے نقصانات؟ میں نے کہا، اب آپ ہیڈ محمد والا کا معاملہ دیکھ لیں۔ یہ پل ہی غلط بنا تھا۔ دریا کے قدرتی بہائو والے راستے سے قریب ایک کلومیٹر اوپر والی جانب بنایاگیا۔ اول تو یہ پل دریا کے قدرتی بہائو والی گزر گاہ پر بنایا جانا چاہیے تھا وگرنہ اس پل کو مزید لمبا ہونا چاہیے تھا۔ کم از کم آدھا کلو میٹر مزید لمبا تاکہ چار پانچ لاکھ کیوسک کاریلا جو ہر چار چھ سال بعد گزرنے کے امکانات ہوتے ہیں باآسانی یہاں سے گزر سکتا۔ مگر ساری پلاننگ ہی صفر تھی۔ نہ پل درست جگہ پر بنا اور نہ ہی اس کی لمبائی مناسب رکھی گئی۔ اگر دونوں کام نہیں ہوئے تھے تو کم از کم جہاں سے دریا پہلے گزرتا تھا اس جگہ پر سڑک کے نیچے پانی گزرنے کے لیے ''درے‘‘ بنائے جاسکتے تھے۔ میاں شہباز کا جواب حسب توقع تھا۔ وہ کہنے لگے ،آپ کو پتا ہے کہ یہ پل ہم نے نہیں بنایا تھا۔ یہ سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران جنوبی پنجاب کے لیے منظور کیے گئے ایک پیکیج پلان کے تحت بنوایا تھا۔ پنجاب حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ملتان میں کسی تعمیراتی یا منصوبہ جاتی خرابی کا ذکر کریں تو عموماً یہی جواب ملتاہے۔ پنجاب حکومت خود کو عموماً بری الذمہ قرار دے دیتی ہے کہ اس نے یہاں کوئی بڑا منصوبہ بنایا ہو تو اس کا کوئی قصور نکلے گا۔ نہ انہوں نے کچھ ایسا کام کیا اور نہ ہی ان پر کوئی انگلی اٹھا سکتا ہے۔ کسی بھی خرابی سے بچنے کا یہ بڑا سہل طریقہ ہے۔
میں نے کہا مان لیا کہ یہ آپ کا منصوبہ نہیں تھا مگر آپ کو کسی نے منع تو نہیں کیا تھا کہ آپ ان خرابیوں کو ٹھیک نہیں کرسکتے۔ جب یہ پل بنا تھا اسی وقت محکمہ آبپاشی والوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر سیلاب کی صورتحال خراب ہوگی تو یہ سڑک اس جگہ سے توڑی جائے گی۔ اس پورے سیکشن میں Breaching Pointپہلے سے ہی طے شدہ تھا۔ اس جگہ پر سڑک میں سوراخ کرکے پائپ ڈال دیے گئے تھے کہ اگر سڑک اڑانے کی ضرورت پیش آئے تو ان پائپوں میں بارود بھرکر سڑک اڑائی جاسکے۔ اس جگہ کو ہربار ڈائنا مائٹ سے اڑانے کے بجائے اس جگہ پر سڑک کے نیچے سے پانی کے گزرنے کے لیے باقاعدہ جگہ چھوڑ جاسکتی تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ پل کی استعداد سے زیادہ پانی آنے کی صورت میں فالتو پانی ساتھ کے ساتھ اس جگہ سے سڑک کے نیچے سے گزر جاتا اور اس جگہ پر جمع نہ ہوتا۔ اب ہوا یوں کہ پانی زیادہ تھا اور گزرنے کا راستہ جو نئے بنے ہوئے پل کے نیچے تھا پانی کی مقدار کے مقابلے میں ناکافی تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی اس
جگہ پر جمع ہونا شروع ہوگیا۔ آہستہ آہستہ یہ پانی جھیل کی صورت اختیار کرگیا۔ پانی کی جھیل تین چار کلومیٹر چوڑی اور تقریباً دریا کے اوپر والے رخ پر پچیس کلومیٹر طویل تھی۔ اگر پانی ساتھ ساتھ خارج ہوتا رہتا۔ چلیں سارا نہ سہی اس کا آدھا۔ تب بھی یہ جھیل اس سے کہیں چھوٹی بنتی جتنی کہ اس بار تھی۔ ایسی صورت میں سڑک توڑنے سے پانی کا جو مہیب ریلا گزرا اور اس نے تباہی و بربادی کی، اس سے کہیں چھوٹا ہوتا اور تباہی بھی کہیں کم ہوتی۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں ۔ شیر شاہ بند توڑنے پر ملتان کندیاں سیکشن ریلوے ٹریک تباہ ہوا۔ ملتان،مظفر گڑھ، علی پور، کراچی،سڑک بہہ گئی۔ آج بھی (جس دن ملاقات ہوئی) یہ سڑک بند ہے۔ ریلوے کا سیکشن بند ہے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے میں دیکھ رہا ہوں۔ ہر سیلاب پر یہ بند توڑا جاتا ہے۔ ہر بار ریلوے ٹریک بہہ جاتا ہے۔ ہر بار سڑک بہہ جاتی ہے۔ پھرمہینوں یہ کام رکا رہتا ہے۔ آپ کی حکومت کے دوران شیر شاہ کا حفاظتی بند دو تین بار توڑا گیا ہوگا۔ یہ تو سید یوسف رضا گیلانی کا کارنامہ نہیں تھا۔ یہ اب تک کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیوں نہیں بنایاگیا؟ ہر چار چھ سال بعد سڑک بہہ جاتی ہے ، اس کا کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالا جاتا۔ سڑک ہر بار اسی جگہ سے بہہ جاتی ہے کیونکہ بند کا بریچنگ پوائنٹ ہمیشہ سے طے ہے اور ہربار یہاں بارود لگاکر بند اڑایا جاتا ہے اور آئندہ بھی یہیں سے اڑایا جائے گا۔ آخر یہاں کوئی مستقل بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر کیوں حل نہیں کیا جاتا ؟ اب مہینوں تک نہ تو ہیڈ محمد والا روڈ کا شگاف پُر ہوگا اور نہ ہی ملتان ، مظفر گڑھ روڈ کئی ماہ تک مکمل ٹھیک ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے فوری اقدامات کی یقین دہانی کروائی ...مگر ! (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved