تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-12-2014

کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

آفتاب کا کہنا ہے کہ کالم آپ نے روز ہی ٹھونک دیا ہوتا ہے۔ آپ کا کالم شوق سے پڑھا جاتا ہے (بقول اس کے) اس لیے اپنے قاری سے اس کا انتظار بھی کروایا بلکہ اسے ترسایا کریں۔ میرا جواب اسے یہ تھا کہ کالم میں کسی مجبوری کے سبب سے نہیں بلکہ عادتاً لکھتا ہوں۔ میرا ایک شعر دیکھیے ؎ 
ضرورت ہے نہ فرصت ہے‘ مگر شام و سحر ہم 
کسی کو یاد کرتے ہیں تو عادت اور کیا ہے 
سو‘ ہم تو اپنے محبوب کو یاد بھی عادتاً ہی کرتے ہیں اور یہی سلوک کالم کے ساتھ بھی روا رہتا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار‘ جس دن ''آج چھٹی کرتے ہیں‘‘ والا کالم شائع ہوا‘ ناجی صاحب کا فون آ گیا کہ چھٹی ہی کیا کریں! میں نے اپنے آپ سے کہا‘ ہور چُوپو! 
عادت پوری کرنے والی بات بھی سہی‘ لیکن دماغ پر کالم کا بوجھ تو رہتا ہی ہے۔ منٹو سے کسی نے پوچھا‘ آپ افسانہ کیسے لکھتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ افسانہ میری جیب میں ہوتا ہے‘ میں نے اسے باہر ہی نکالنا ہوتا ہے۔ شروع شروع میں بات کچھ اور تھی کہ اِدھر کالم لکھنا شروع کیا اور اُدھر گھر بھر میں ہٹو بچو کا حکم جاری کردیا جاتا کہ کوئی آواز نہ نکالے۔ بیوی الگ آزردہ‘ بچے جدا حیران کم اور پریشان زیادہ‘ بس ایک طرح کا کرفیو لگ جاتا۔ پھر رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ چیمبر میں بیٹھے کالم لکھ رہے ہیں تو کسی مقدمے میں آواز پڑی اور عدالت جا کر بحث کی یا جرح وغیرہ‘ اور پھر آ کر کالم وہیں سے شروع کردیا جہاں چھوڑا تھا‘ بالکل اسی طرح جیسے اب مذاکرات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہیں سے شروع کیے جائیں گے جہاں یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ سو‘ ناجی میرے افسر ہیں‘ چھٹی تو کرنا ہی پڑے گی! 
آفتاب نے کل اپنے کالم میں میرے لیڈر کے خلاف جو زہر اُگلا ہے‘ میں اس پر سوموٹو ایکشن لینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ملازم نے آ کر بتایا کہ ڈسکہ سے محمد صاحب آئے ہیں جنہیں لان میں بٹھایا ہے۔ ابھی اگلے ہی روز دونوں بھائیوں کا ذکر کر چکا ہوں کہ ان کی ہمارے ساتھ خانہ واحدی ہے۔ ان کے دادا چودھری شکراللہ خاں سر ظفر اللہ خاں کے چھوٹے بھائی تھے اور ان دونوں بھائیوں کے والد منصور نصراللہ خان میرے یارِ غار۔ محمد کے ساتھ کچھ دوست بھی تھے جن میں ناگرہ صاحب میں میری دلچسپی اس لیے زیادہ ہو گئی کہ وہ محمد کے ساتھ وہاں وکالت کرنے کے علاوہ عمران خان کے بھی زبردست مداح نکلے۔ 
آفتاب ابھی سو کر اٹھا نہیں تھا، اس لیے موضوع گفتگو عمران خان ہی تھا۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ وہ وزیراعظم بنے نہ بنے‘ قوم پر اس کا یہ احسان ہی کیا کم ہے کہ اس نے اسے خوابِ خرگوش سے بیدار کردیا ہے اور نوجوان طبقہ کے دل و دماغ میں ایک جوش و خروش اور ولولۂ تازہ بھر دیا ہے اور اب وہ لوگ بھی پولنگ سٹیشنوں پر نظر آنے لگے ہیں جن کی انتخابات میں کبھی کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں۔ پھر‘ وہ ایک تیسرا آپشن ہے جو پہلے رائے دہندگان کو دستیاب ہی نہ تھا جبکہ ہمارے دو موجودہ لیڈروں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر وہ ویسے ہی بیزار ہو چکے ہیں۔ پھر‘ وہ ملک کے باہر موجود لوٹا ہوا وہ پیسہ واپس لانے پر بھی زور دیتا ہے جبکہ متعلقہ حضرات دن رات اس میں اضافے ہی کی فکر میں غلطاں نظر آتے ہیں۔ 
عمران خان کے لیے میری حمایت کچھ ایسی والہانہ بھی نہیں ہے۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ ایک بار اسے بھی موقع دیا جائے‘ بھلے وہ ناکام ہی ہو جائے کیونکہ ملک کی جو حالت مذکورہ دونوں مہربانوں نے کر رکھی ہے‘ وہ اتنی جلدی ٹھیک ہو جانے والی ہے بھی نہیں۔ ایک صحافی کو اصولی طور پر بھی آزاد خیال اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ اور اگر عمران خان کو اقتدار مل بھی جاتا ہے تو اس کا اتنا ہی شدید نقاد میں خود ہوں گا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ بینظیر بھٹو نے مجھے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا تو اس سے پہلے میری شرط تھی کہ میری کالم نویسی میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ میری بے لحاظ تنقید دیکھ کر کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ کیا نوکری جاری رکھنے کا ارادہ نہیں ہے؟ میرا جواب ہوتا تھا کہ میں نے اپنا سامان باندھ رکھا ہے‘ جب بھی ایسا وقت آیا‘ واپس جا کر اوکاڑہ کچہری میں پھر پھٹہ لگا لوں گا‘ میرا کیا ہے۔ 
آفتاب اٹھا تو تھوڑی گپ شپ کے بعد مہمانوں کے ساتھ سکیٹنگ کا دور شروع ہو گیا۔ محمد کا نشانہ بھی بُرا نہیں تھا‘ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ ویسے بھی یہ تو آفتاب کا دو وقت کا معمول ہے‘ بشرطِ فراغت‘ اب تو میں بھی وہاں کرسی بچھا کر بیٹھ جاتا ہوں‘ خاص طور پر مس فائر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اور جب نشانہ خطا ہونے کے بعد سکیٹ صحیح و سلامت واپس گرتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے مذاق اڑا رہی ہے بلکہ بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گرتے ہوئے گالی بھی دے رہی ہے کہ میرا کیا کر لیا ہے۔ ایک بار چلے ہوئے کارتوسوں کا ڈھیر دیکھ کر میں نے پوچھا کہ کیا یہ بِک نہیں سکتے‘ تو آفتاب کا کہنا تھا کہ اگر آپ کالم نویسی چھوڑ کر یہ کاروبار شروع کردیں تو کافی فائدہ ہو سکتا ہے! شام پڑ رہی تھی اور اگر کوئی نشانہ خالی جاتا تو آفتاب کے خیال میں اس کی وجہ روشنی کم ہونا تھی‘ حالانکہ روشنی کچھ اتنی بھی زیادہ کم نہیں تھی۔ کالم کی تو آج پھر چھٹی ہے‘ اس لیے آپ اس تازہ غزل پر ہی گزارا کریں: 
جدائی میں بھی خوش رہنا قناعت اور کیا ہے 
رضا پر اُس کی راضی ہیں‘ محبت اور کیا ہے 
ضرورت ہے نہ فرصت ہے‘ مگر شام و سحر ہم 
کسی کو یاد کرتے ہیں تو عادت اور کیا ہے 
ہمیں یہ مرتبہ ہونا ہی تھا حاصل کبھی تو 
تمہارے عشق میں رسوا ہیں، عزت اور کیا ہے 
محبت اپنے حصے کی طلب کرتے ہیں تم سے 
زیادہ کے نہیں خُوگر‘ شرافت اور کیا ہے 
فغاں اندر فغاں ہے اور شکایت در شکایت 
یہی کچھ ہے تمہارے پیشِ خدمت‘ اور کیا ہے 
ہمیں نعمت میسر ہی سہی ہر ایک‘ لیکن 
کسی نے یہ نہیں پوچھا ضرورت اور کیا ہے 
سلوک اس طرح کا اور وہ بھی ہم سادہ دلوں سے 
سو‘ کہتے کچھ ہو‘ کرتے کچھ‘ سیاست اور کیا ہے 
ذرا سا سوچ کا رُخ موڑنے کا ہے تماشا 
وگرنہ رنج ہے کیا اور راحت اور کیا ہے 
ظفرؔ، ہم عشق تو کرتے ہیں سب سے چھپ چھپا کر 
مگر پکڑے بھی جاتے ہیں‘ مہارت اور کیا ہے 
آج کا مطلع
سراسر ختم ہوکر بھی جوانی اور باقی ہے
ابھی خواب ہوس کی رائیگانی اور باقی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved