کل تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کی پریس کانفرنس چند منٹ کے لئے ٹیلیویژن اسکرین پر سنی، معمول کے برعکس اُن کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا، وہ اپنے سیاسی حریفوں کانام قدرے معقولیت کے ساتھ لے رہے تھے اور یہ بھی کہا کہ ہم وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹے ہیں اور یہ کہ ہم جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کریں گے، خواہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے پہلے وہ الیکشن ٹریبونل پر بھی اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں، مزید یہ کہ وہ اب ''میں ‘‘ کی بجائے ''ہم‘‘ کا لفظ استعمال کررہے ہیں۔ یہ ایک اچھی علامت ہے اور اچھا Gestureہے۔
عمران خان صاحب ذرااور بھی احتیاط فرمائیں، اُن کے بعض جملے دیگر کئی اعتبار سے بھی قابلِ اعتراض ہوتے ہیں اور آج کل الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا بڑا بے رحم ہے اور منہ سے نکلا ہوا کوئی بھی لفظ یا جملہ ریکارڈ ہوجاتاہے۔ اور یہ آڈیو/ویڈیو ریکارڈ پبلک پراپرٹی بن جاتاہے اور پھر اُس سے جان چھڑانی مشکل ہوتی ہے ، جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر اور بندوق سے نکلی ہوئی گولی واپس نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایک حدیثِ پاک کی رُو سے منہ سے نکلے ہوئے کلمات سے جو فساد برپا ہوتاہے، اسے دیکھ کر بندہ اپنے الفاظ واپس لینا چاہتاہے، مگریہ اسی طرح ناممکن ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا۔ اور عربی کاشعر ہے ، جس کا ترجمہ یہ ہے:''تیر کے لگے ہوئے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ مندمل (Heal Up)ہوجاتے ہیں ، مگر زبان کا لگایا ہوا گھاؤ کبھی نہیں بھرتا‘‘۔دانا لوگوں کا یہ بھی قول ہے کہ :''کُتّے کی طرف پتھر مارو تو وہ پلٹ کر پتھر پر حملہ آور نہیں ہوتا، بلکہ پتھر مارنے والے پر حملہ کرتاہے‘‘۔
لہٰذا ٓپ کے اسٹیج سے جو گالی گلوچ کسی کے خلاف ہوگی ، وہ آپ کے کھاتے میں جائے گی، گالی دینے والا تو محض اپنی فطرت کی نمود کرتاہے، اس کا تو حال یہ ہے کہ ''بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘۔مگر نفع نقصان آپ کاہی ہوگا۔ آج خان صاحب کے خلاف حکومت یا مسلم لیگ (ن) کی جو جارحانہ اشتہاری مُہم ہے، وہ سب اُن کے اپنے فرموداتِ عالیہ ہیں، ایسے ہی مواقع کے لئے آغا شورش کاشمیری کاکالم اُن کے ہفت روزہ چٹان میں ہوتا تھا، جس کا عنوان تھا:''آنکھیں میری باقی اُن کا‘‘۔ سو آپ کے فریق ِمخالف کا کمال فقط یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے فرامین کے ٹوٹے، جنہیں آج کل الیکٹرانک میڈیا کی اصطلاح میں Clipکہتے ہیں، نہایت حکمت سے (Scientifically)جوڑ دئیے ہیں اور وہ انہیں بلا تبصرہ بھی نشرکریں، تواُن کا مقصد پورا ہوجاتاہے، اسے اردو محاورے میں کہتے ہیں:''جس کی جوتی اسی کا سر‘‘۔
ہماری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اپنے رَدِّعمل اور رویے میں ٹھہراؤ پیدا کرے اورجناب اسحاق ڈار اورجناب شاہ محمود قریشی ، باہم مل کر ایک ضابطۂ اخلاق وضع کریں اور ایک نسبتاً بہتر فضا میں مذاکرات کو کسی اچھے اور متفقہ نتیجے پر پہنچائیں تاکہ قوم کو اس اضطراب اور بے یقینی سے نجات ملے ۔ ٹھہراؤ کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ انسان جذبات کو قابو میں رکھتا ہے، جوش پر ہوش غالب ہوتاہے اور وہ مغلوب الغضب نہیں ہوتا، اس لئے اپنے موقف ، جسے قانونی زبان میں Locus standiکہتے ہیں ، زیادہ مؤثر اور مدلّل انداز میں بیان کرتاہے، چنانچہ سپیکر جناب ایاز صادق کے فرزند نے عدالت سے باہر آکر اپنی اس صلاحیت کا بہتر طور پر مظاہرہ کیا اور کسی بھی غیر جانبدار شخص کو قائل کرنے کے لئے یہ انداز شریفانہ اور متاثر کن تھا۔
جناب عمران خان کی قانونی ٹیم کے وکلا ، جن میں حامد خان صاحب بھی ہیں ، نہیں معلوم کیوں انہیں قائل کرنے میں ناکام ہیں کہ ملک اور عدالتیں ایک نظامِ قانون کے تحت چل رہی ہیں اور الیکشن کمیشن ، الیکشن ٹریبونل ، عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں اسی میکنزم سے اپنے موقف کو ثابت کیا جا سکتا ہے اور منوایا جاسکتا ہے، یک طرفہ پرجوش خطابات اور مفروضوں کے بل پر ایسا کر ناممکن نہیں ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز اور چیف الیکشن کمیشن جو بھی شخصیت ہوں، اُنہیں آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا پڑتاہے۔ جناب عمران خان کی تحریک کسی انقلابی ایجنڈے کی حامل نہیں ہے، بلکہ نظام کے اندررہتے ہوئے ان کے خیال میں یا ان کے دعووں کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے ازالے اور حصولِ انصاف کے لئے ہے۔
ہمارے ہاں نادرا کے ذریعے ووٹرز کے انگوٹھوں کی جانچ کو ابتدا میں بنیاد بنایا گیا ، مگر بعد میں الیکشن کمیشن نے اس ساری بنیاد کو ہی مسمار کردیا۔ اور یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ آیا الیکشن قوانین میں نادرا کے ذریعے ووٹرز کے انگوٹھے کے نشان کو جانچ کر ووٹ کو بوگس قرار دینے کا قانون موجود ہے، تو پھر کیا ایسے کسی فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ سو ہمیںجامع اور دھاندلی پروف انتخابی قوانین کی ضرورت ہے، ایسے قوانین پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے ہی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ محض فساد اور انارکی سے ملک وقوم اور سب کا نقصان ہوگا۔ ابھی تک تواس قوم نے حقیقی انقلاب کی صورت نہیں دیکھی، صرف بعض خوش فہم حضرات خواب ضرور دیکھتے ہیں، مستقبل کے پردے میں کیا مستور ہے، غیب کا علم اللہ عزّوجلّ کے پاس ہے۔
سابق چیف الیکشن کمیشن جناب جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم کی طرح موجودہ چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس(ر) شاکراللہ جان بھی تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے مکمل اتفاقِ رائے سے اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں بھی پہلے سے موجود قوانین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا تاوقتیکہ کوئی نیا قانونی نظام آجائے، سو خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ؎
پہلے جس بات پہ اُسے پسند کیا
پھر اُسی بات پہ اُسے ناپسند کیا
پوری قوم کی دلی خواہش ہے کہ آنے والے انتخابات منصفانہ ، شفاف اور لاقانونیت ، دھاندلی اور جُھرلو کی ہر مکروہ صورت سے پاک ہوں، بائیومیٹرک سسٹم بھی لاگو کیا جائے، لیکن ایسا نظام پارلیمان سے باہر رہ کر طعن وتشنیع سے نہیں بن پائے گا، سب کو اس میں پوری فعّالیت، بیدار مغزی اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینا چاہئے ، بعد اَز مرگ واویلا بے سود ہوتاہے۔
اگر چہ اہلِ دانش کا ایک مؤثر طبقہ آج بھی موجود ہے، جوکہتا ہے اس نظامِ جمہوریت نے ملک وقوم کو کیا دیا؟، درست ہے، تسلیم ہے کہ جمہور کو جمہوریت کی برکات نہیں ملیں، مگرسوال یہ ہے کہ فوجی حکمرانی نے کیا دیا؟۔ کچھ حضرات کے فرمودات کے بینَ السُّطور یا اشارات وکنایات میں یہ پیغام بھی مضمر ہوتاہے کہ کوئی داعش بھی آتی ہے، تو آئے:، ڈر کس بات کا؟۔ سرکشوں کے سر ہی تو قلم ہوں گے ! اور ہم لطف اٹھائیں گے۔ لیکن حضور! کسے معلوم کہ وقت آنے پر کس کی گردن پہلے کٹے گی اور کس کی بچے گی؟۔
دین کی تعلیم یہ ہے کہ آفات وبلیات کو دعوت نہ دی جائے، امتحان وآزمائش اور فتنوں کی دعائیں نہ کی جائیں ۔ اگر قضائے الٰہی سے ناگہانی طور پر آجائے تو پھر استقامت ا ورعافیت کی دعامانگی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آخری آیتِ مبارَکہ میں یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی ہے:''اللہ کسی نفس (جیتے جاگتے انسان) کو اس کی قوتِ برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا(یہاں تکلیف سے مراد احکام اور آزمائشیں ہیں) ، (پھر رب ِذوالجلال بندے کو اِس دعا کی تلقین فرماتاہے): اے ہمارے پروردگار!ہم سے اگر بھول یا خطا ہوجائے، تو ہماری گرفت نہ فرمانا، اے ہمارے پروردگار! ہم پر (احکام کا) وہ بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو نے ہم سے پہلی (امتوں) پر ڈالا، اے ہمارے پروردگار!ہم پر (آزمائشوں اور احکام کا) وہ بوجھ (یعنی ذمے داری) نہ ڈال ، جس سے (کامیابی کے ساتھ) عہدہ برا ہونے کی ہم میں طاقت نہ ہو، ہمیں معاف فرما اور ہماری (ہر تقصیر کو) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور قومِ کفار کے مقابل ہماری نصرت فرما،(البقرہ:286)‘‘۔
''رسول اللہ ﷺ ناقابلِ برداشت آزمائش ، بدبختی میں مبتلا ہونے ، بُری قضاء اور دشمنوں کی بدخواہی سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے،(بخاری:6347)‘‘۔اسی طرح آپ ﷺ سے یہ دعا بھی منقول ہے:''ہم تمام فتنوں سے، خواہ وہ ظاہر ہوںیا پوشیدہ، اللہ کی پناہ چاہتے ہیں‘‘۔ یہ بھی مسنون ہے:''اے اللہ! میں (ہر قسم کے) غم واندوہ ، (مشکلات کے آگے ) بے بس ہوجانے، سستی ، بخل ، بزدلی، قرض کے تسلط اور(ظالم) لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں،(بخاری:6363)‘‘۔
نوٹ:یہ کالم 7 دسمبر کی شام کو تحریر کیا گیا ہے اور ہم 8دسمبر کے خیر وعافیت سے گزر جانے کی دعا کرتے ہیں۔