تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-12-2014

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا‘ وہ کیسا دہقان

الفاظ سے نہیں‘ زندگی عمل سے سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ اس عمل سے جو بروقت ہو ؎ 
موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز 
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا‘ وہ کیسا دہقان 
ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا گیا تو انہیں بتا دیا گیا: تم میں سے بعض‘ بعض کے دشمن ہوں گے۔ آدمی سے آدمی متصادم رہے گا۔ قبائل اور اقوام‘ گروہ اور قبیلے۔ کچھ اور ابدی حقائق بھی منّور کر دیئے گئے۔ یہ کرۂ خاک کچھ دن کا ٹھکانا ہے‘ تم آزمائے جائو گے‘ خوف سے‘ بھوک سے‘ جانوں کے نقصان سے‘ اموال کی تباہی اور باغوں کی بربادی سے۔ انفرادی یا اجتماعی حیات میں اصل المیہ اختلاف اور تصادم نہیں‘ یہ ہے کہ اسے طے کرنے کا کوئی قابل اعتماد نظام وجود نہ پا سکے۔ جنگل کا قانون ہو‘ جس کی لاٹھی‘ اس کی بھینس۔ فساد پھیلتا جائے اور بے قابو ہو جائے‘ حتیٰ کہ معاملہ طوائف الملوکی تک پہنچے۔ خطا معاف‘ ناقص اور خود غرض حکمرانوں سے بھی بڑا ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے معاشرے میں اخلاق کا زوال۔ کسی اور نے نہیں صادقؐ اور امینؐ، تاریخ انسانی کے سب سے بڑے معلمؐ، اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا: برائی کو جب روکا نہ جائے گا‘ بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے‘ تمہیں وہ بدترین ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔ نکتہ واضح ہے‘ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہا جائے۔ مگر حکمت کے ساتھ‘ مگر یہ کہ انس اور الفت کے ساتھ خرابی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
سب چلے جاتے ہیں سب چلے گئے‘ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں‘ فلک پرواز آغا محمد یحییٰ خاں‘ فخر ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو‘ غازی جنرل محمد ضیاء الحق‘ مردِ عصر جنرل پرویز مشرف‘ دخترِ مشرق بے نظیر بھٹو۔ نوازشریف بھی چلے جائیں گے۔ 
Humpty Dumpty sat on a wall
Humpty Dumpty had a great fall
All the King's horses
and all the King's men
Couldn't put Humpty together again.
(ہمٹی ڈمٹی دیوار پہ بیٹھا تھا۔ بری طرح سے وہ گرا۔ بادشاہ سلامت کی ساری فوج اور سب دانا مل کر بھی اُسے جوڑ نہ سکے) 
مارکس ایسے چمکتے دمکتے ستاروں کے برعکس کچھ ہیں جو جرمن فلسفی ہیگل کے زیادہ قائل ہیں کہ انسانی فطرت کے زیادہ گہرے ادراک کا حامل ہے۔ اس کا Thesis اور Anti thesis کا فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے آہنگ کے طفیل جیتی اور اپنے تضادات کے سبب تباہ ہوتی ہے۔ اپنے زوال کے لیے نوازشریف خود ہی کافی ہیں۔ صحت اور یادداشت ان کی متاثر ہو چکی۔ کھانے پینے‘ حکم چلانے‘ روپیہ کمانے اور قوم کی قیمت پر خاندان کو پال پوس کر اسے عرب بادشاہوں کی سطح پر پہنچانے کے خواب۔ اب اس مشکل ملک پر وہ کیا خاک حکومت کریں گے اور کریں گے تو کب تک۔ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ دوسرے شہسوار کا حال بھی پتلا ہے۔ 
عمران خان کے گرد بھی اپنی طرز کے طلال چودھری اور پرویز رشید پائے جاتے ہیں۔ آج وہ اس لیے گوارا ہیں کہ اپوزیشن میں ہیں۔ حکمرانوں سے ہمیں نفرت ہوتی ہے اور ان کو للکارنے والوں سے محبت۔ دوراندیشی کے ساتھ اصلاح اور بقا کا نہیں‘ یہ عارضی نفسیاتی تسکین کا نسخہ ہے۔ کل اعتزاز احسن کا خیال یہ تھا کہ افتخار چودھری بحال ہو گئے تو ماں ایسی مشفق ریاست وجود میں آئے گی۔ آج جنرل پرویز مشرف کو لوگ یاد کرتے ہیں۔ بخدا میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا مگر اپنے تضادات سے نجات پائے بغیر‘ تحریک انصاف‘ اگر اقتدار میں آ گئی تو لوگوں کو نوازشریف معقول نظر آنے لگیں گے۔ جو قیادت پارٹی کے عطیات ہضم کرنے اور جماعتی الیکشن میں پرلے درجے کی دھاندلی کرنے والوں کی سرپرستی فرمائے‘ کیا ملک کو وہ ڈھنگ سے چلا سکے گی؟ 
مالی معاملات میں عمران خان دیانت دار ہیں مگر ذاتی مالی معاملات ہی میں۔ اعصاب بھی ان کے مضبوط ہیں مگر اول تو سیاسی معاملات کا ادراک ہی نہیں‘ ثانیاً ٹیم ان کی‘ الّا ماشاء اللہ ادنیٰ لوگوں پر مشتمل۔ پٹرول چوری کرنے والا ڈرائیور گوارا نہ ہونا چاہیے مگر جسے گاڑی چلانی آتی ہی نہیں؟ مسئلہ شخصیات کا نہیں‘ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ پہلے ہی امتحان میں وہ ناکام رہا۔ 2013ء میں ٹکٹیں دینے کا وقت آیا تو مہینوں لٹکاتا رہا‘ اس کے بعد ادنیٰ ترین کو نوازا اور بدترین کی سفارش پر۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ‘ اس کے تھے‘ کس قدر بے نیازی تھی کہ ان کے لیے تحریک نہ چلائی۔ ہفتے بھر کا دھرنا کافی ہوتا۔ پولنگ ایجنٹ تک مقرر نہ کیے۔ مخلص اور پرجوش کارکنوں کی ایک پوری فصل اگ آئی ہے لیکن رتی برابر پرواہ ان کی تربیت کی نہیں ہے۔ جذباتیت ہی جذباتیت۔ جنگیں حکمت اور دانائی کے ساتھ جیتی جاتی ہیں۔ وہ جنون کا مبلغ ہے۔ کس چیز نے اسے روکا ہے کہ پارٹی میں بہترین لوگوں کو اوپر لانے کی کوشش کرے۔ صداقت عباسیوں کو عہدوں سے الگ کردے۔ غیر منطقی رویے کی انتہا ہے۔ فرمایا میرے بس میں ہوتا تو فوج کو وزیرستان کبھی نہ جانے دیتا۔ کل پوچھا تھا اور آج پھر پوچھتا ہوں: تو کیا سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو آپ گل دستے ارسال فرماتے؟ چینی سفیر کے ساتھ‘ جس لہجے میں گفتگو کی‘ ہر ہوش مند اس پر حیران ہے۔ چین کی ضرورت یہ ہے کہ اس کا جنوبی ویرانہ ترقی پائے۔ گوادر سے کاشغر تک موٹروے کی تعمیر سے کم از کم 30,35 بلین ڈالر سالانہ ان کے بچیں گے۔ نوازشریف کا نہیں‘ یہ انہی کا منصوبہ ہے۔ مطالبہ تو یہ ہونا چاہیے کہ چینی سرمایہ کاری اور چینی قرضے شفاف ہوں۔ پارلیمنٹ کی استعداد اگرچہ کم ہے مگر مباحثہ اسی میں ہونا چاہیے۔ صلاحیت اسی طرح بڑھے گی۔ احتجاج کا علم عمران خان کو اس پر بھی بلند کرنا چاہیے کہ کابینہ تک میں بحث نہ ہوئی۔ ماہرین کی ایک ٹیم بنانی چاہیے‘ مجوزہ منصوبوں کا جو جائزہ لے۔ جیسا کہ بار بار عرض کرتا ہوں کہ ریاستی اداروں‘ پولیس‘ سول سروس‘ ایف بی آر اور عدالت کی تشکیل نو کے لیے ریاضت اور منصوبہ بندی۔ اگر وہ ایسا کر سکے تو ساڑھے تین سال بعد اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گرے گا۔ پارٹی کو اگر وہ جدید تر اور صحت مند خطوط پر تعمیر کر سکے تو ملک دلدل سے نکل آئے گا۔ ایک شائستہ اور منظم جمہوری جماعت جو علاقے‘ نسل اور عقائد کے تعصبات سے بالا ہو‘ مقابلے میں ایسی ہی دوسری پارٹی کے قیام کا ذریعہ بنے گی۔ ملک کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ ابدی اصولوں کی بنیاد پر جدید اداروں کی تعمیر۔ پہاڑ ایسی غلطیاں کرنے کے باوجود فوج اگر بچ نکلی ہے تو اس لیے کہ وہ ایک ادارہ ہے اور جدید ادارہ۔ 
فوج بہت طاقتور ہو گئی اور ہرگز یہ خوشی کی بات نہیں۔ افغانستان‘ بھارت اور امریکہ ہی کے بارے میں نہیں‘ پوری خارجہ پالیسی اب اس کی مرضی سے چلے گی۔ آخری تجزیے میں نتیجہ اس کا خطرناک ہوگا کہ آدمی ایک ٹانگ پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ سول اداروں کے بغیر ممالک اور معاشرے اپاہج ہوتے ہیں۔ بے پناہ قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کا خاتمہ اسی لیے ممکن نہ ہوسکا۔ آج تو جنرل راحیل شریف اس کے سربراہ ہیں۔ کل اگر کوئی یحییٰ خان آ گیا؟ 
اوّل حکومت نے تکبر کا مظاہرہ کیا۔ افسوس کہ اب تحریک انصاف نے بھی مذاکرات سے انکار کردیا۔ ہیجان ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہوش مندی ہے کہ تاریک جنگلوں میں جا سوئی ہے۔ مفاہمت چاہیے‘ مفاہمت۔ 
آج میں سراج الحق کو ڈھونڈتا رہا۔ نصیحت کرنے والے بہت ہیں۔ آگے بڑھ کر دونوں متصادم لیڈروں پر دبائو ڈالنے والا کوئی نہیں۔ پہل کرنے‘ اقدام کرنے والا کوئی نہیں۔ دل دکھتا ہے۔ کوئی چارہ ساز ہوتا‘ کوئی غم گسار ہوتا۔ الفاظ سے نہیں‘ زندگی عمل سے سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ اس عمل سے جو بروقت ہو ؎ 
موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز 
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا‘ وہ کیسا دہقان 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved