تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-12-2014

تین ماہ پرانی کہانی پر ایک اور گھسا پٹا کالم…(2)

وزیراعلیٰ کے ساتھ اسی کمرے میں پنجاب کا سیکرٹری آبپاشی بھی موجود تھا۔ اس سے گزشتہ سیلاب اور اس سال والے تازہ ترین سیلاب کے حوالے سے محکمہ آبپاشی کی خرابیوں پر بات ہوئی۔ ہیڈ محمد والا سے گزرنے والا دریائے چناب کا پانی طغیانی کی صورت میں اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ نہ تو وہ ہیڈ محمد والا پل کے نیچے سے گزر سکتا ہے اور نہ ہی شیر شاہ میرج کے نیچے سے۔ ہر دو پلوں کے نیچے سے پانی گزرنے کی استعداد بڑے سیلاب کے ریلے کے گزرنے کے لیے ضرورت سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً شیر شاہ پل سے پہلے لیفٹ بنک کے حفاظتی پشتے کو توڑا جاتا ہے‘ اسی طرح ہیڈ محمد والا پل کے بائیں طرف موجود سڑک جو حفاظتی بند بھی ہے‘ کو توڑا گیا۔ اس جگہ کاغذوں میں پانی کا کریٹیکل گیج چار سو سترہ فٹ ہے لیکن بند اس لیول سے چار فٹ پہلے ہی چار سو تیرہ فٹ پر توڑ دیا گیا۔ ظاہر ہے حفاظتی پشتے اس سے زیادہ پانی کا دبائو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ بندوں کی بھرائی ناقص تھی۔ میٹریل درست نہیں استعمال ہوا تھا اور پانی تھوڑا اور زیادہ ہوتا تو بند اپنی مرضی سے کہیں سے بھی ٹوٹ سکتا تھا لہٰذا دریا کی مرضی سے پہلے بند مقررہ جگہ سے توڑ دیا گیا۔ بارہ ستمبر کو تقریباً ایک سو گز چوڑا شگاف ڈال کر ملتان شہر کو بچایا گیا۔ اسی روز شیر شاہ بند بھی توڑ دیا گیا۔ 
گلبرگ لاہور سے موٹروے تک ایک معلق (Elevated) سڑک کا منصوبہ شروع کیا جانے والا ہے۔ اس منصوبے سے لاہوری کسی رکاوٹ کے بغیر گلبرگ سے موٹروے پر پہنچ جایا کریں گے۔ اس منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کے لیے پنجاب سرکار کی پھرتیاں‘ ایل ڈی اے کی بھاگ دوڑ‘ زمین کے حصول کے لیے لینڈ ریکوزیشن والوں کی جلد بازیاں اور تخت لاہور کے حکمرانوں کی صلاحیتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘ حالانکہ اگر اربوں روپے مالیت کی یہ معلق سڑک نہ بھی ہو تو گلبرگ کے مکین با آسانی موٹروے تک آ جا سکتے ہیں مگر سرکار کو لاہور کے ہائی کلاس مکینوں کو‘ راستے میں آنے والے چار چھ اشاروں اور ایک دو جگہ ممکنہ رش سے بچانا مقصود ہے‘ لہٰذا یہ منصوبہ رات دن ایک کر کے دنوں میں بنانے کا ارادہ ہے۔ خیر سے سرکار لاہور میں منصوبے بنائے ہم لاہور کے منصوبوں اور ترقی سے ہرگز بغض نہیں رکھتے مگر ؎ 
گل پھینکے ''لاہوریوں‘‘ کی طرف بلکہ ثمر بھی 
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی 
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ مجھے ہیڈ محمد والا کے سوگز چوڑے شگاف سے اچانک گلبرگ کی ایلی ویٹڈ سڑک کیوں یاد آئی ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہیڈ محمد والا کا سوگز چوڑا شگاف ابھی تک ویسے کا ویسا ہے۔ ملتان سے مظفر گڑھ‘ میانوالی‘ لیہ‘ بھکر اور خوشاب وغیرہ کا یہ مختصر راستہ گزشتہ تین ماہ سے بند ہے۔ لوگ کشتیوں کے ذریعے آر پار جا رہے ہیں۔ اور سرکار کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کسی کو کوئی جلدی نہیں۔ کوئی محکمہ پھرتیاں نہیں دکھا رہا۔ تقریباً اسی قسم کا حال شیر شاہ پل کے قریب ڈالے جانے والے شگاف کے نتیجے میں بہہ جانے والی سڑک کا ہے۔ ایک نہایت اہم اور مصروف شاہراہ پر واقع اس شگاف کو مٹی ڈال کر پُر تو کر دیا گیا ہے مگر کام اتنا ناقص اور غیر معیاری ہے کہ لگتا ہے کہ سیلاب کا ریلا ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔ تین ماہ میں کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس شگاف کو پُر کرنے کے بعد باقاعدہ سڑک ہی بنا دی جاتی‘ مگر پنجاب کے اس خطے میں رہنے والے لوگ گلبرگ میں رہنے والوں کے مقابلے میں حکمرانوں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ 
معاملہ لاہور کا ہو تو میاں شہبازشریف کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ میلوں لمبے فلائی اوور دنوں میں بن جاتے ہیں اور ادھر ملتان اور جنوبی پنجاب میں اول تو ایسا کوئی کام ہوتا ہی نہیں اور اگر بفرضِ محال شروع ہو جائے تو سالوں ختم ہونے میں نہیں آتا۔ شاید حکمران یہ چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب والے برسوں تک اپنے منصوبوں کو زیر تکمیل ہی دیکھتے رہیں تاکہ انہیں یاد رہے کہ ان کے ہاں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ 
گزشتہ کچھ دنوں سے والد صاحب شدید علیل ہیں اور نشتر ہسپتال میں داخل ہیں۔ اس سلسلے میں دن کا بیشتر حصہ نشتر ہسپتال میں گزر جاتا ہے۔ کبھی یہ ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا 
تھا۔ تقریباً ایک ہزار بیڈ کے منظور شدہ اس ہسپتال میں مریضوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہوتی ہے مگر ابھی تک ڈاکٹر‘ پیرا میڈیکل سٹاف اور فنڈز‘ سارے ہزار بستر کی مناسبت سے مل رہے ہیں۔ اوپر والے سات سو مریض اللہ توکل ہیں۔ مریض وارڈوں میں اور برآمدوں میں بھرے پڑے ہیں۔ کئی وارڈز میں ایک ایک بستر پر دو دو مریض پڑے ہوئے ہیں۔ گیسٹرو انٹرالوجی کے شعبے میں ایک نہایت اہم مشین ERCP یعنی Endoscopic Retrograde Cholangio Pancreatography کے علاج کی مشین گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خراب ہے۔ ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی یہ مشین نوے کی دہائی میں خریدی گئی تھی اور ربع صدی بزرگ یہ مشین دو لاکھ روپے کے لگ بھگ مرمت کی رقم نہ ہونے کے سبب بند پڑی ہے۔ مریض خوار ہو رہے ہیں۔ لاہور سے کراچی کے درمیان صرف نشتر ہسپتال میں اس مشین کو چلانے والے ماہر دستیاب ہیں اور یہاں مشین خراب پڑی ہے۔ ڈی جی خان میڈیکل کالج سے الحاق شدہ ٹیچنگ ہسپتال میں نئی مشین سٹور میں بند پڑی ہوگی کہ اسے چلانے کے لیے کوئی ڈاکٹر میسر نہیں۔ دوسرے لفظوں میں پتے کے ایک خاص مرض میں مبتلا جنوبی پنجاب کے مریضوں کے لیے کوئی متبادل میسر نہیں۔ پاکستان کے بہت بڑے اور قدیم ہسپتال میں موجود سارے آلات کی مرمت کے لیے صرف سالانہ نو لاکھ ہوتے ہیں جو کب کے ختم ہو چکے 
ہیں۔ اب اگلے سات ماہ کوئی مشین مرمت نہیں ہو سکتی۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اس پرانے ہسپتال کی تقریباً ساری مشینری زائد العمر ہو چکی ہے اور سوائے مرمت کے چل ہی نہیں سکتی۔ 
ملتان میں نشتر ہسپتال میں موجود اس مشین سے جو کام محض پندرہ سو روپے میں ہوتا تھا وہ لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ایک لاکھ روپے سے زائد خرچے میں ہوتا ہے۔ مشین کی مرمت کے لیے ایک لاکھ پچانوے ہزار روپے چاہئیں مگر فنڈز میں ایک پیسہ موجود نہیں۔ جنوبی پنجاب بھی عجیب لاوارث سرزمین ہے کہ یہاں پاکستان کے چند معتبر ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہسپتال میں کیونکہ فنڈز نہیں ہیں لہٰذا یہاں کے مریضوں پر سستے علاج کے دروازے بند ہیں۔ مریض آتے ہیں اور مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ کیا عجب ہسپتال ہے کہ نہ فنڈز میسر ہیں اور نہ کوئی ملک ریاض۔ 
بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ مجھے اپنا اندازہ درست ہونے پر خوشی نہیں ملال ہوا ہے۔ تین ماہ پہلے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ حقیقت ثابت ہوا۔ لاہور میں بیٹھے حکمران سیلابی دوروں کے بعد ایسے اطمینان سے غیر ملکی دوروں میں مصروف ہیں کہ جیسے یہاں ان کے ذمے سارے کام مکمل ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو چین‘ ترکی‘ قطر‘ برطانیہ اور دیگر ممالک کے دوروں سے فرصت نہیں اور ہیڈ محمد والا کے رہائشی صرف سو گز کے شگاف کے پار نہیں جا سکتے۔ مجھے نہیں پتہ کہ تین ماہ پرانی اس کہانی پر کوئی گھسا پٹا کالم میاں شہبازشریف کو احساس دلا سکتا ہے کہ نہیں۔ میرا کام تو محض یاددہانی کروانا ہے۔ ''وما علینا الالبلاغ‘‘ (ختم) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved