دوریوں کی دہلیز پر
وہ مجھے میرے الفاظ میں ڈھونڈتا ہے/ میں اُسے اس کی خاموشیوں میں/ پالیتی ہوں/ فاصلے صرف آنکھیں ہیں/ یا/ ہونٹ
میں ہوا کی صورت زندہ رہ سکتی ہوں
میں تمہارے لیے/ نیم کا کڑوا پیڑ ہوں/ جس کا پھل تم چاہو بھی تو نہیں چکھ سکتے/ بس چھائوں میں کچھ دیر آرام کر لو/ کہ رنگ میرا بھی سبز ہے/ کچھ دنوں پہلے مجھ پر ایک جِن رہتا تھا/ لیکن ایک سفر کے بعد میں نے اسے جِن تسلیم کرنے سے انکار کردیا/ تو وہ روٹھ گیا/ میں نے اسے نہیں منایا کہ موسموں نے جو سبق/ مجھے سکھائے تھے ان میں ایک یہ بھی ہے/ میں ہوا کی صورت زندہ رہ سکتی ہوں ۔
سفر ایک شام کا
ہر قدم اک نیا موڑ ہے/ گزرے ہوئے راستے/ بھولتی جا رہی ہوں/ سفر پر جگہ اجنبی ہے/ تم کہاں تک مرا ساتھ دو گے/ اگر ہو سکے تو یہیں روک لو/ میں بہت تھک گئی ہوں ۔
وہ ایک لمحہ
بیت گئے ہیں کتنے دن/ جب تم نے یہ مجھ سے کہا تھا/ ''تم مجھ کو اچھی لگتی ہو‘‘/ اور مرے ہاتھوں پر تم نے/ اک وہ لمحہ چھوڑ دیا تھا/ وہ اک لمحہ ان دیکھی زنجیر کی صورت/ رُوح سے لپٹا دل میں اُترا میرے خون میں تیر گیا تھا/ آج اسی لمحے کو تھامے/ کھڑی ہوئی ہوں بیتے دنوں کی سیڑھی پر
مجھے ڈر لگتا ہے
لوگوں نے خواب دیکھنے شروع کر دیئے ہیں/ اور مجھے ڈر لگتا ہے/ کہ اب یہ تعبیر پوچھیں گے/ اور پھر تعبیر ڈھونڈیں گے/ جب یہ تعبیر پوچھیں گے تو/ اُن کے ہونٹ سی دیئے جائیں گے/ اور جب یہ تعبیر ڈھونڈیں گے/ تو ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جائے گی/ سوئے ہوئے لوگ اچھے ہوتے ہیں/ کہ وہ کچھ بھی نہیں پوچھتے/ نہ عالموں کے بے معنی الفاظ/ نہ حکمرانوں کی معنی خیز حرکات/ ان کے کان بے خبر اور ہونٹ بے ضرر ہوتے ہیں/ جبھی تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سلا دیا جاتا ہے/ کہ اسی میں جاگنے والوں کی بھلائی ہے۔
اِس رُت کا کوئی نام نہیں
دکھوں کی رُت میں ایک رُت/ ایسی بھی تھی/ جس کا کوئی نام نہیں/ وہ اس صبح کی طرح اچھی تھی/ جس صبح تم پہلی بار آئے تھے/ وہ اس شام کی طرح اداس بھی تھی/ جس شام تم آخری بار گئے تھے/ پر اُس رُت کا کوئی نام نہیں/ اُس رُت کا نام رکھوں تنہائی تو؟
المنظر کی ایک شام
شام کے جھٹ پٹے میں/ پرندوں کی پرواز کی/ سمت دکھلاتے ہوئے/ تم نے جس پیڑ کو/ ان کا مسکن کہا تھا/ مجھے وہ پیڑ اور تم/ ایک جیسے لگے ہو۔
انکار
ہم نہیں جنم دیں گے وہ بچے/ جنگ کا ایندھن جو بنتے/ اور ساری عمر رُلاتے ہیں/ ہم مائوں کو/ ہم جنم نہیں دیں گے وہ لڑکے/ ایسے بہادر/ ایسے مرنے مارنے والے/ جن کی قوت دنیا کو تسخیر کرے/ اور نرم دلوں کو ہلا دے/ ہم خود کو بنجر کر لیں گے/ اس دھرتی کے بنجر ہونے سے پہلے ۔
تم مجھے کہیں رکھ کر بھول گئے ہو
کاغذ کے ڈھیر میں ایک وزیٹنگ کارڈ کی طرح/ تم مجھے رکھ کر بھول گئے ہو!/ گھر کے فرنیچر‘ قالین‘ دیواروں پر لگی/ تصویروں کے ساتھ‘ تمہاری نظریں/ مجھ پر سے بھی گزر جاتی ہیں/ کسی بینک میں کھولے جزوقتی اکائونٹ/ پڑھی ہوئی کتاب‘ ادھ لکھی ڈائری کی طرح/ میں بھی کہیں موجود ہوں/ شاید مجھے بھول جانا بہتر ہے/ تاش کی ہاری ہوئی بازی/ شطرنج کی بساط پر کھائی ہوئی مات کی طرح۔
ایک اور دن
لوگ یاد نہیں کرنے دیتے انہیں/ جنہیں میں یاد کرنا چاہتی ہوں/ جن کو اپنی ذات کے ویرانے میں/ آباد کرنا چاہتی ہوں/ دل ایک ایسا کمرہ ہے/ جس میں تصویریں سجی ہیں/ میں تصویروں کی گرد پونچھنے/ ان کی ترتیب بدلنے/ نئی تصویر لگانے کے لیے/ اس کمرے میں رہنا چاہتی ہوں/ لوگ آواز دے دیتے ہیں/ میں تصویروں کو گرد آلود چھوڑ آتی ہوں/ نئی ترتیب بھول جاتی ہوں/ ہاتھ میں اٹھائی تصویر الٹی رکھ دیتی ہوں/ دھول اٹے کپڑوں اور آنکھ میں/ اُڑتے ہوئے ذروں کی چبھن لیے/ باہر آتی ہوں/ کمرے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے/ ایک اور دن گزر جاتا ہے اس کمرے کے باہر/ جسے میں آباد رکھنا چاہتی ہوں
.........
بات اتنی ہے کہ اک موڑ پہ رستہ بدلا
دو قدم ساتھ چلا وہ بھی ہزاروں کی طرح
بادباں کھولے جو میں نے تو ہوائیں پلٹیں
دور ہوتا گیا اک شخص کناروں کی طرح
ہمارے شہر میں کچھ لوگ ایسے رہتے ہیں
سفر کی سمت بتاتے ہیں جن کو رات کے رنگ
اور کیا شکل بے مکانی کی
جب سفر ہی میں زندگانی کی
غیر سے میرا حال پوچھا ہے
کیا خبر کس پہ مہربانی کی
کسی نے دی نہیں آواز مجھ کو
مگر پھر بھی یہاں رُکنا پڑا ہے
میں تو بس اک لہر تھی دریا نہ تھی
اس کی گہرائی نے دریا کر دیا
آج کے بچوں نے اگلی نسل کو
وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا
اک موڑ پہ ہم اجنبی بن کر بھی ملیں گے
یہ بات تو معلوم تھی آغازِ سفر سے
بچھڑ رہا تھا مگر مُڑ کے دیکھتا بھی رہا
میں مسکراتی رہی‘ میں نے بھی کمال کیا
ایک دکھ ہے کہ جو مسلسل ہے
میں تو حیران ہوں روانی پر
کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
آج کا مطلع
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلائوں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں