اگر8دسمبر سے قبل کے ملک بھر کے پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے اور ٹی وی کی سکرینوں پر چلنے والے نواز لیگ کے رہنمائوں رانا ثنا اﷲ ،عابد شیر علی، زعیم قادری اور طلال چوہدری کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی فقرہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ ''اس دفعہ عمران خان کو مختلف قسم کے فیصل آباد کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘ اور وہی ہوا کہ فیصل آباد کی پوری ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنے سی پی او سہیل تاجک اور ڈی سی او نور الامین مینگل کی قیادت میں ایک اور ہی قسم کا فیصل آباد ''برپا‘‘ کرنے میں کامیاب رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ پولیس کو کوئی ایسی گیس سونگھا دی گئی ہے ،جس سے ان سب کے ہاتھ پائوںشل ہو کر رہ گئے ہیں یا انہیں صبح اس قدر بھاری اور مرغن قسم کا ناشتہ کرا دیا گیا ہے کہ ان سے چلا ہی نہیں جا رہا۔
آج سے دو ماہ قبل اسی فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں جیل انتظامیہ اور فیصل آباد پولیس کے سربراہ کی نگرانی اور حکم سے تحریک انصاف کے حامی ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ نوجوان ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس کا باپ اپنے بیٹے کی تصویر لیے اسلام آباد جا پہنچا اورا س باپ کی فریاد سن کر جب عمران خان نے ڈی چوک میں اپنی جماعت کے اس کارکن کے قتل پر اسی پولیس افسر کا نام لیتے ہوئے اس سے حساب لینے کا اعلان کیا تو چنددن بعد ایک صاحب نے مذکور افسر کی اتنی مدح سرائی کی کہ ایسا لگا وہ پولیس افسر نہیں بلکہ کوئی فرشتہ ہے؟ لیکن دو دن سے فیصل آباد پولیس اسی ''نیک دل ‘‘ سربراہ کی نگرانی میں وہاں غنڈہ گردی کررہی ہے اور یہ کالم لکھنے تک دو نوجوان ان کی زیر سایہ کھڑی نواز لیگ کی فائرنگ سے شہید ہو چکے ہیں اور اس سے تو یوں لگتا ہے کہ وہ پولیس افسر نہیں بلکہ گسٹاپو کا کوئی افسر ہے ۔ اس پولیس افسر کی نگرانی میں دو افراد کی شہا دت کے علا وہ اب تک شدید زخمی ہونے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد 22 سے تجاوز کر چکی ہے۔کیا اس قسم کا پولیس افسر ا س ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہ اور دوسری پر تعیش مراعات کا مستحق ہے ؟یا اسے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے؟۔یہ کیسا پولیس افسر ہے جو اپنے سامنے گولیاں مارنے والوں اور تڑپتے زخمیوں کو دیکھ کر منہ دوسری جانب پھیر لیتا ہے ، جبکہ اسے ضلع کی سپیشل برانچ کی جانب سے تین دن قبل ہی مصدقہ رپورٹ بھیج دی گئی تھی کہ مسلم لیگ نواز کے 8 اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی نے فیصل آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف بھر پور مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے حلقوں کے کارکنوں کو خصوصی ہدایات جا ری کر دی ہیں اور گھنٹہ گھر کے قریب ایک با اثر فرد کے پلازہ میں غنڈہ عنا صر اور جرائم پیشہ افراد کو جمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان کی رہنمائی کا فریضہ ایک سابق صوبائی وزیر کے حلقے کے ڈی ایس پی کے سپرد کیاگیا ہے۔ کیا فیصل آباد پولیس کے سربراہ سپیشل برانچ کی جانب سے دی جانے والی اس رپورٹ سے انکار کریں گے کہ انہیں لاہور سے فیصل آباد کے چھ مقامات پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے دیئے جانے والے دھرنوں کو روکنے کیلئے نواز لیگ کے کارکنوں پر مشتمل ڈنڈا بردار نفری کو مکمل تحٖفظ دینے کا حکم دیاگیا ہے؟فیصل آباد کے موجو دہ ڈی سی اوجب لاہور میں بطور ڈی سی او تعینات تھے ،تب لاہور کی مختلف مارکیٹوں میں تجاوزات کی بھر مار تھی اورانہیں حکم دیا گیا تھا کہ جب تک کسی کے متعلقہ حلقے کے مسلم لیگ نواز کے ایم این اے یا ایم پی اے کا دستخط شدہ کارڈ نہیں ہو گا ۔ کسی کو اپنے پھٹے یا ریڑھی لگانے کی اجا زت نہیں ہو گی۔
حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سارا الزام پی ٹی آئی پر ڈال کر اسے ذمہ دار ثابت کر دے۔ نون لیگ کے کارکنوں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مد مقابل لا کھڑا کرنے سے تو نون لیگ کو خود نقصان پہنچا۔ وہاں درجنوں ٹی وی کیمرہ مین موجود تھے۔ اگر نون لیگ کے کارکن نہ لائے جاتے توان ٹی وی کیمرہ مینوں نے وہی دکھانا تھا جو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کرنا تھا۔ اگر وہ زبردستی دکانیں بند کراتے تو یہ مناظر ساری دنیا لائیو دیکھتی‘ اگر وہ دکانوں کے شیشے توڑتے تو یہ بھی دنیا دیکھ لیتی لیکن چونکہ پی ٹی آئی نے یہ سب نہیں کرنا تھا‘ اس لئے پلان یہ بنا کہ انہیں بدنام کرنے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈا جائے۔ کارکنوں کو کارکنوں سے لڑوا کر یہ ثابت کیا جائے کہ پی ٹی آئی نے تاجروں اور عوام پر تشدد کیا ہے۔
اسلام آباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں انہی پولیس افسر وںاور ضلعی انتظامیہ کے افسرنما کارکنوں کو تعینات کیا جاتا ہے جن کے بارے میں پنجاب کے حکمرانوں کو مکمل یقین ہو کہ یہ افسر نما کارکن وہی کریں گے جو انہیںکہا جائے گا ،نہ کہ وہ جس کی قانون اور آئین اجا زت دیتا ہے۔ان کو تعیناتی کے احکامات تھماتے ہوئے واضح کر دیا جاتا ہے کہ تم مسلم لیگ نواز کے ادنیٰ کارکن ہو ،نہ کہ کوئی پولیس افسر یا انتظامیہ کے اہل کار ۔ کیا یہ پولیس افسر،جو اب کہہ رہے ہیں کہ قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے بھر پور کوشش کی جائے گی، اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ قاتل کو تو لوگوں نے اسی وقت پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا تھا لیکن وہ قاتل اس قدر طاقتور نکلا کہ ڈی ایس پی کے ہاتھوں سے یوںپھسل گیا جیسے کوئی چھلاوہ ہو۔
کون نہیں جانتا کہ فیصل آباد میں تعینات کیا جانے والا ایک افسر ایک ہفتے سے فیصل آباد کی تاجر تنظیموں اور دوسرے صنعتی کارخانوں کے مالکان کو بلا کر دھمکیاں دے رہا تھا کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی عمران خان کی کال پر تالہ بندی کی یا اس نے اپنی دکان اور مارکیٹ بند کرنے کی کوشش کی تو اس کا کاروبار ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیاجائے گا۔اس سلسلے میں فیصل آباد کی انارکلی مارکیٹ کے کپڑے کے تاجروں ،اور پیپلز کالونی اورستیانہ روڈ کے دکانداروں کو خود جا کر ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔اگر وہ اس سے انکار کریں گے تو پولیس کے درمیانے رتبے کے اہل کار جو اس وقت اس کے ساتھ تھے وقت آنے پرضرور گواہی دیں گے ۔
جو سمجھتے ہیں کہ حق نواز کا خون رائیگاں چلا جائے گا‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون اور اب سانحہ فیصل آباد کے مظلوموں کو ان کا حق ملے گا۔ قدرت کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ انسانی جان کی قیمت اتنی بھی ارزاں نہیں ہوئی کہ اسے سیاست کے نام پر بیچ دیا جائے۔ جو آج یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم حکومت میں ہیں‘ ہمارے پاس طاقت ہے اور ہم زندگی اور موت کے مالک بن بیٹھے ہیں‘ تو یہ بہت بڑی بھول ہے۔ حق نواز کی والدہ جنہیں مجرم سمجھتی ہیں‘ اگر انہیں کٹہرے میں نہ لایا گیا تو قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئے گی اور قدرت کی لاٹھی بڑی بے آواز ہوتی ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت یا عہدے کو نہیں دیکھتی‘ یہ صرف انصاف کرتی ہے۔