پاکستانی سیاست نے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا سبق بھلا دیا ہے ۔ لیڈر کتنا ہی مقبول اور ذہین کیوں نہ ہواور کتنی ہی بڑی اکثریت سے وہ تخت نشیں ہو ، سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو اشتعال دلانے کا نتیجہ افراتفری، خانہ جنگی اور آخر حقِ حکمرانی چھن جانے کی صورت میں نکلتاہے ۔
اکیسویں صدی کی بدلتی ہوئی دنیا ، بدلتا ہوا پاکستان ۔میڈیا میں سچ بولنے والوں کا گلا اب گھونٹا نہیں جا سکتا۔انصاف کرنے والے جج کا قلم چھینا نہیں جا سکتا۔ سپریم کورٹ ہی کے دبائو کا نتیجہ تھاکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنا پڑا...اور یہ بدلتا ہوا پاکستان ہے ، جس میں سیاسی کارکنوں کو احتجاج سے روکنا ممکن نہیں۔ روکا جائے گا تو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی ۔ فیصل آباد میں طاقت آزمانے اور منہ کی کھانے کے بعد نون لیگ نے لاہور میں اپنے عہدے داروں کو گھر بیٹھ رہنے کی ہدایت کی ہے ۔ اربوں روپے کے منصوبے اپنی اولاد کو سونپنا اب ممکن نہیں ۔بادشاہت سے پاکستان جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
سلطانی ٔجمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو
حلقہ این اے 122میں ایاز صادق اور عمران خان کے درمیان آخری مرحلے میں پہنچ جانے والی جنگ نہایت اہم ہے ۔
حیرت انگیز طور پر عمران خان یہاں سے ہار گئے جب کہ ان کے نیچے صوبائی اسمبلی سے تحریکِ انصاف کا امیدوار نون لیگ سے جیت گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر الیکشن ٹربیونل میں دوبارہ گنتی کی عمران خان کی درخواست کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی نے عدالت سے طویل حکمِ امتناعی حاصل کیے رکھا...اور حیرت انگیز طور پر خدا خدا کرکے ڈیڑھ برس کے بعد جب الیکشن ٹربیونل نے ووٹوں کے تھیلے کھولنے کا حکم دیا تو ایاز صادق کے وکلا اس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ہر قسم کے وہ تاخیری حربے ، جو معاملے کو الجھائے رکھیں ۔
ووٹوں کے ان تھیلوں میں خدا جانے کون سے راز دفن ہیں ، ایاز صادق ہر قیمت پر جنہیں دفن ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بہرحال یہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا حلقہ ہے۔ یہاں نون لیگ کی شکست کی صورت میں اسے ایک بڑی کاری ضرب لگے گی۔۔۔اور یہ ضرب جلد متوقع ہے ۔اس معاملے پر جناب پرویز رشید نے ایک نئی منطق پیش کی ہے : عمران خان اپنے موقف پر قائم نہیں رہتے ۔ حلقے کھولنے کے مطالبے سے اب وہ تھیلے کھولنے پر اتر آئے ہیں ۔ نون لیگ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حلقے کھولنے کا مطلب ووٹوں کے تھیلے کھولنا ہی ہوتاہے ۔
نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بعدیوں بھی معاملات ایک نیا رخ اختیا رکر سکتے ہیں ۔ حلف اٹھانے کے بعد جسٹس سردار رضا کا وہ بیان انتہائی اہم ہے ، جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن کا وقار بحال کرانے کے لیے اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ظاہر ہے کہ خوب غور و خوض کے بعد ہی انہوں نے یہ نازک منصب قبول کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے چار صوبائی اراکین پہ لگے سوالیہ نشان بھی اب سر اٹھانے لگیں گے ۔ سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ اپنی اپنی جماعت میں جمہوریت نافذ نہ کرسکنے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ملک کے انتہائی اہم انتظامی ادارے کی ایسی جمہوری تشکیل کی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اکثریت کے فیصلے کا پابند ہوتاہے ۔ کپتان نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو صوبائی محتسب بنانے کا ارادہ کیاتو جہانگیر ترین ، پرویز خٹک اور دیگر نے صوبائی محتسب کے ادارے کو بھی انہی جمہوری بنیادوں پہ استوار کرنے کا فیصلہ کیا تھالیکن یہ ایک الگ بحث ہے ۔جسٹس سردار رضا اپنی مرضی سے اگر آزادانہ فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو بہرحال آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں اپنے اختیارات میں اضافہ درکار ہوگا۔ صوبائی اراکین سے بہرحال انہیں جان چھڑانا ہوگی ۔
دھاندلی کا تدارک کیے بغیر الیکشن ایک بے معنی مشق ہے ۔ دھرنے سے طاہر القادری کی علیحدگی کے بعد نون لیگ نے غلط طور پر یہ سمجھا کہ کپتان کے تحفظات دور کیے بغیر وہ با آسانی حکومت کر سکتی ہے ۔ یہ غلط فہمی اسے فیصل آباد کے سانحے تک کھینچ لائی ۔حق نواز کی موت نے معاملات نون لیگ کے ہاتھ سے نکال دیے ہیں ۔ تحریکِ انصاف کے مشتعل کارکن ملک بھر میں ببانگِ دہل احتجاج کریں گے ۔نون لیگ کی طرف سے کوئی رکاوٹ جلتی پہ تیل کا کام کرے گی ۔
حالات اگر اسی نہج پہ آگے بڑھتے رہے ، کشیدگی اسی طرح برقرار رہی ۔ لاشیں اسی طرح اگر گرتی رہیں تو فوج یا سپریم کورٹ کے لیے مداخلت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ملک میں امن کا قیام سب کی ضرورت ہے اور سب کی ذمہ داری ۔حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط کے جواب میں کسی وقت بھی سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن بنا سکتی ہے اور یہ کمیشن حقائق تک پہنچنے کے لیے کسی بھی ادارے کی معاونت حاصل کر سکتاہے ۔ دوسری طرف فوج ہے ، شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سمیت ہر جگہ جس نے بڑی قربانیاں دے کر امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنائی ہے ۔ظاہر ہے کہ امن کی اس قیمت کا دوسروں سے بڑھ کر ادراک رکھتی ہے اور کسی صورت ملک کو خانہ جنگی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ نہیں سکتی ۔
نون لیگ بے بس ہے ۔ حالات کے جبر نے بازی اس کے ہاتھ سے چھین لی ہے ۔ دھاندلی کی تحقیقات اور مستقبل میں اس کی روک تھام کا بندوبست کیے بغیر ، تحریکِ انصاف کے ساتھ معاملات طے کیے بغیر اب وہ حکومت نہیں کر سکتی ۔زور زبردستی کے ساتھ معاملات چلانے کی کوشش جاری رہی تو اس کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔حکمران ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ احتجاج کی مسلسل بھڑکتی ہوئی آگ کا حل تنازعات کا حل ہوتاہے ۔ جس روش پہ وہ گامزن ہیں ، وہ حقِ حکمرانی تو چھین ہی لیتی ہے ، تختہ ء دار تک بھی لے جا سکتی ہے ۔