عالمی اور علاقائی سیاسی مبصراس پر متفق ہیں کہ عمران خان نے پاکستانی سیاست کا نقشہ بدل دیاہے۔ پاکستان کی تاریخ میںاس سے پہلے یہ اعزاز‘ صرف بھٹو صاحب کو حاصل تھا۔ ان کے پاس بہرحال ایک واضح ایجنڈا تھا‘ جو منشور کی صورت میں شائع ہو چکا تھا۔ بھٹو صاحب عوامی رابطے کی مہم کے دوران اسے عام فہم زبان میں بیان کیا کرتے تھے۔ ان کی تقریروں کا پہلا دور آمرکے خلاف جدوجہد کی شکل میں تھا اور دوسرا انتخابی مہم سے مخصوص تھا۔ عمران خان نے رابطہ عوام کی مہم تو 18سال پہلے شرو ع کر دی تھی لیکن محدود پیمانے پر۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنی پارٹی کی تنظیم نو بھی کی اور انتخابی مہم بھی چلائی۔ اس مہم میں انہیں زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہونے لگی۔ اس کا چونکا دینے والا مظاہرہ ‘وہ جلسہ تھا جو مارچ 2013ء کو مینارپاکستان پر منعقد ہوا۔ اس جلسے کے سٹائل‘ حاضرین کے تنوع‘ ڈسپلن اور ان کا جوش و خروش‘ اپنی نوعیت کے پہلے تجربے تھے۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے خواتین نے سیاسی جلسوں میں شرکت کی۔ لیکن یہ سلسلہ محنت کش کسان عورتوں سے شروع ہوا۔ شہری جلسے مردوں تک محدود رہتے تھے۔ کہیں کہیں خواتین کی شرکت ہوتی بھی‘ تو ان کی تعداد محدود رہتی‘ جو زیادہ تر پارٹی کی خاتون کارکن ہوا کرتیں۔ عمران خان کے اس جلسے میں‘ پہلی بار خواتین نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان کا تعلق متوسط اور خوشحال طبقوں کے ساتھ تھا۔ یہ تعلیم یافتہ بھی تھیں اور بہتر تہذیبی معیار کی حامل بھی۔ عمر کے لحاظ سے اس جلسے کے حاضرین نوجوان مردوں اور خواتین پر مشتمل تھے۔ پاکستانی میڈیا اور عوام نے پہلی مرتبہ اس پس منظر کے نوجوان عورتوں اور مردوں کو سیاسی جلسے میں شرکت کرتے اور بھرپور نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔ جو چونکانے والی چیز اس جلسے میں پہلی مرتبہ دکھائی دی‘ وہ موسیقی کا استعمال تھا۔ عمران خان تقریر شروع کرتے۔ ایک خاص مقام پر آ کر وقفہ دیتے۔ اس دوران خاص طور سے تیار کئے گئے سیاسی نغمے سنوائے جاتے۔ جدید فیشن ‘ نوجوان حاضرین اور موسیقی کے اس امتزاج نے‘ ملک بھر کی سیاسی کمیونٹی کو متاثر کیا۔ آج بیشتر سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں میں وہی طرز اختیار کرنے لگی ہیں۔ حتیٰ کہ مذہبی جماعتوں کے جلسوں میں بھی حمدونعت پر مبنی نغمے سنوائے جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ عمران خان نے پاکستان کے سیاسی جلسوں اور عوام کے ساتھ براہ راست کمیونیکیشن کے انداز بدل کر رکھ دیئے۔
جمہوری ملکوں میں ہر منتخب حکومت کا ایک عرصہ معین ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں فوجی مداخلتوں کے باعث شاید ہی کسی منتخب حکومت کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنے کا موقع ملا ہو۔ آئینی اعتبار سے بھٹو صاحب کو بھی ایک سال پہلے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ جب وہ دوسری مرتبہ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے‘ توان کی حکومت کا ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1990ء کے عشرے میں چار منتخب حکومتوں میں سے کوئی بھی اپنا عرصہ اقتدار پورا نہ کر سکی۔ بے شک یہ حکومتیں انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھیں۔ لیکن فوجی سربراہ اور صدور گٹھ جوڑ کر کے‘ انہیں قبل ازوقت برطرف کرتے رہے۔ان میں سے کوئی بھی حکومت‘ عوامی حمایت سے محرومی اور مخالفانہ احتجاجی مہم کی وجہ سے نہیں گئی تھی۔ سب کچھ محلاتی سازشوں کے ذریعے ہوا۔ حتیٰ کہ بھٹو صاحب کے خلاف بھی جو احتجاجی مظاہرے کرائے گئے‘ ان کے پیچھے فوج کے سربراہ کا ہاتھ تھا۔
2013ء کے انتخابات میں منتخب اراکین کی اکثریت پر مشتمل‘ ایک ہی پارٹی کی جو حکومت قائم ہوئی‘اس کے وزیراعظم‘ دو مرتبہ اس منصب پر کام کر چکے تھے۔ لوگوں کو امید تھی کہ کہ وہ تجربے کی بنا پرموثر گورننس دیں گے۔ ان انتخابات میںجس چیز نے لوگوں کو حیران کیا‘ وہ رائے دہندگان کی سماجی حیثیت تھی۔ زیادہ تر اس طبقے کے خواتین و حضرات اور خصوصاً نئی نسل کے لوگ‘ بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے آئے۔ ان کی اکثریت ایسے رائے دہندگان پر مشتمل تھی‘ جنہیں پہلے کبھی پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ایک تو پاکستانی انتخابات روایتی طور پر نچلے درجے کے سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا مشغلہ بن کر رہ گئے تھے۔ امراء‘ اشرافیہ اور فیشن ایبل لوگوں میں صرف وہی ووٹ ڈالنے کی زحمت کرتے‘ جن کے مفادات براہ راست انتخابات سے وابستہ ہوتے۔باقی لاتعلق رہا کرتے تھے۔ اس طبقے کے لوگوں کو عمران پہلی مرتبہ سیاسی جلسوں میں لائے اور خصوصاً ان طبقوں کی خواتین بھی بڑی تعداد میں شرکت کرنے لگیں۔ ایک اور نئی چیز‘ جو ان جلسوں میں دکھائی دینے لگی‘ وہ تھا بڑے بڑے مجمعوں میں خواتین کی عزت و احترام کا مظاہرہ۔ عام طور پر ملے جلے ہجوم میں خواتین کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان جلسوں کے حوالے سے ایسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آئی اور جو سب سے بڑا انقلاب برپا ہوا‘ وہ یہ تھا کہ اعلیٰ اور متوسط طبقوں کے تعلیم یافتہ ووٹر بھاری تعداد میں پولنگ سٹیشنوں پر گئے۔ ان کے ووٹوں سے وہی سلوک ہوا‘ جو عام پاکستانیوں کے ووٹوں سے ہوتا رہا تھا۔ یعنی اکثریت کو حیلے بہانوں سے ووٹ ہی نہیںڈالنے دیا گیا اور جوووٹ ڈال کر آئے‘ ان کی جگہ جعلی ووٹوں نے چھین لی۔ اس سے پہلے یہ دھاندلی‘ غریب ووٹروں کی اکثریت کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ لیکن باخبر اور بہتر سماجی حیثیت رکھنے والے ووٹروں سے جب حق رائے دہی چھینا گیا‘ تو ان کا احتجاج منظر عام پر آ گیا۔ غریب ووٹر اپنے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی پر چپ سادھ لیا کرتے تھے۔ وہ ہر معاشرتی اور اخلاقی زیادتی برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ووٹ کی بے حرمتی بھی گوارا کر لیا کرتے۔ جو نیا طبقہ ووٹروں میں شامل ہوا‘ وہ اپنی رائے کے خلاف نتائج دیکھ کرخاموش نہ رہ سکا۔ ابتدائی طور پراس کا احتجاج چھوٹی چھوٹی محفلوں‘ کلبوں اور کسی حد تک میڈیا میں سامنے آیا اور جب عمران خان نے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر کے‘ انتخابی نتائج کو چیلنج کرنا شروع کیا‘ تو بااثر ووٹروں کی طاقتور آواز بھی اس مطالبے میں شامل ہوتی گئی۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف پاکستان میں ہونے والا یہ پہلا موثر اور بلندآہنگ عوامی احتجاج تھا۔ اس احتجاج کی طاقت کا منظم اظہار‘ اسلام آباد میں دیئے گئے دو دھرنوں کے دوران ہوا۔ یہ دھرنے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے منظم کئے تھے۔ ان دھرنوں نے بھی قومی تاریخ میں مزید نئی مثالیں قائم کیں۔روزانہ شام کو حاضرین کی ایک بڑی تعداد کے سامنے ڈاکٹر قادری اور عمران خان الگ الگ تقریریں کیا کرتے۔ ڈاکٹر قادری کی اپیل محدود رہی۔ لیکن عمران خان عام شہریوں کو بھی متاثر کرتے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ وہ اپنی تقریروں میں عوام کے روزمرہ مسائل کو اجاگر کرنے لگے۔ خطابت میں ان کا تجربہ‘ بطور مقرر بھی ان کی حیثیت منوانے لگا اور قومی سطح پر پاکستان میںپہلی مرتبہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ انتخابات کا ایک سال پورا ہونے سے بھی پہلے دھاندلی کے خلاف ایک تحریک‘ عوامی سطح پر منظم ہونے لگی۔ روزانہ شام کی ان تقریروں نے ایک اور ہی طرح کا عوامی ردعمل تشکیل دیناشروع کیا۔ ان تقریروں میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی۔ ہر ٹی وی چینل کو اپنے پرائم ٹائم کا بڑا حصہ‘ ان تقریروں کے لئے مختص کرنا پڑا اور جس چینل نے اس دوڑ میں حصہ لینے سے گریز کیا‘ اس کی ریٹنگ اتنی کم ہو گئی کہ ایسا کرنے والے چینل بھی تقریریں دکھانے پر مجبور ہو گئے۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف اتنے بھرپور عوامی احتجاج کی ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا بھی ہے۔ حکومت کو ہوش تب آیا‘ جب میڈیا اپنا کام دکھا چکا تھا۔ اب حکومت ‘ہر طرح کا زور لگانے کے بعد میڈیا سے عمران خان کو حتی المقدور غائب کرنے لگی ہے۔ حکومت سے نئی بدحواسی یہ ہو گئی کہ اس نے عمران خان کی تقریروں کے اقتباسات ‘ اشتہاروں کی صورت چلانا شروع کر دیئے اور اکثر جگہ دیکھنے میں آیا کہ حکومت اپنی طرف سے عمران کی تقریر کا جو بھی ٹکڑا دکھاتی‘ لوگ مفہوم کی پروا کئے بغیر‘ عمران کو دیکھتے ہی ان کے نعرے لگانے لگتے۔ عمران کی تقریروں پر پابندی لگوا کے حکومت نے‘ اپنے خرچ پر میڈیا پر عمران کا بھرپور پراپیگنڈا کیا۔ یہ بھی ہم پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک منتخب حکومت کے دوسال پورے ہونے سے پہلے‘ ایک بھرپور احتجاجی تحریک وجود میں آ گئی ہے۔ عمران نے جلسوں اور جلوسوں کا نیا سلسلہ شروع کر کے‘ اپنی تحریک کو گلی محلوں اور بازاروں تک پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ عمران کی کامیابی میں اگر کوئی چیز رکاوٹ بنی‘ تو وہ ان کی اپنی جماعت کے بعض لیڈر ہوں گے‘ جن کی وجہ سے عمران شاید پوری کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ اگر ان کی پارٹی منظم اور متحد رہی‘ توانہیں قبل ازوقت نئے انتخابات حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔یہ بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھی ساری جماعتیں‘ اس خوف میں مبتلا ہو گئی ہیں کہ فوری انتخابات میں عمران کی پارٹی کو بھاری اکثریت لینے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ انتخابات تو کسی نہ کسی حد تک ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔ تبدیلی کی یہ لہر کون روکے گا؟ جو جنم لے چکی ہے۔