تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     11-12-2014

جو چال ہم چلے‘ سو نہایت بُری چلے

ایک پامال سا قصہ ہے کہ کسی مستجاب الدعوات بندۂ خدا کی دعا قبول ہوئی‘ اسے ہانڈی ملی جس سے صبح‘ دوپہر‘ شام انواع و اقسام کے لذیذ کھانے برآمد ہوتے‘ محلے میں ہانڈی کی دھوم مچی تو ایک میر زادے نے بھی چلہ کشی شروع کردی‘ طویل ریاضت اور اوراد وظائف کے بعد ایک شب غیب سے آواز آئی کہ مانگ جو مانگنا ہے۔ میرزادے نے عاجزی سے جواب دیا: ''مجھے من و سلویٰ درکار نہیں‘ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ میرے ہمسائے کی ہانڈی ٹوٹ جائے تاکہ وہ بھی میری طرح دال روٹی کو ترسے اور میرے کلیجے میں ٹھنڈک پڑے‘‘۔ 
فیصل آباد میں عمران خان کی کال پر حکومت پنجاب اور حکمران مسلم لیگ ن نے جو ہیجان خیز اور پرتشدد ردعمل ظاہر کیا اس سے واضح ہوا کہ تیسری بار ملکی اقتدار کا مزہ چکھنے والوں نے ابھی تک سیاسی معاملات‘ سیاسی انداز میں نمٹانے کا گر سیکھا ہے نہ سیاسی ماحول کو پرسکون رکھنے کی کوئی کارگر تدبیر انہیں سوجھی ہے۔ کوشش اب ان کی یہ ہے کہ ہم اقتدار میں رہیں نہ رہیں‘ عمران خان کے اقتدار کی راہ کسی صورت ہموار نہیں ہونی چاہیے۔ عمران خان کی نظر ہماری ہانڈی پر ہے تو دنگا فساد‘ ہنگامہ آرائی اور تصادم کے طفیل اس کا ٹوٹ جانا ہی اچھا ہے۔ ممکن ہے کہ عمران خان بھی کنٹینر میں شاہ محمود قریشی سے مل کر یہی دعا مانگتے ہوں کہ میں تو موجودہ روکھی سوکھی پر راضی ہوں‘ بس حکمرانوں کی ہانڈی ٹوٹنی چاہیے‘ میں خوش‘ میرا خدا خوش۔ 
یہ ہمارا سیاسی کلچر ہے اور قومی مزاج۔ آدھی پر ہم اکتفا نہیں کرتے اور پوری کی خواہش میں آدھی بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ اگست میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے لانگ مارچ اور دھرنا شروع کیا تو حکومت نے اسے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے‘ مارشل لاء لگوانے کی سازش قرار دیا۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ساری جماعتیں‘ دھاندلی اور بُری حکمرانی کا اعتراف کرنے کے باوجود حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو گئیں اور خوشی سے پھولی نہ سمائیں کہ جمہوری قوتوں کے اتحاد نے سازش کو ناکام‘ غیر جمہوری قوتوں کو پسپا کردیا مگر سیاسی جرگے کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ ''سیاسی قیادت نے ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو 1977ء جیسے حالات پیش آ سکتے ہیں۔ لوگوں نے جمہوریت سے مایوس ہو کر ڈنڈے اٹھا لیے‘‘۔ 
1977ء میں تو خیر جو ہوا سو ہوا۔ سیاستدانوں نے لڑ بھڑ کر غیر مرئی قوتوں کی مداخلت کی راہ بعد میں بھی کئی بار ہموار کی اور اس بات کو جھٹلایا کہ فوجی قیادت اقتدار پر قبضے کے لیے سیاستدانوں کو لڑاتی ہے یا فوج مداخلت کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ 1999ء میں تو یہ اس قدر بھونڈے انداز میں لڑے کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم‘ ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔ 12 اکتوبر 1999ء سے قبل پاکستان میں ایک سیاسی اتحاد جی ڈی اے کے نام سے بنا جس کا یک نکاتی ایجنڈا حکومت کا خاتمہ تھا۔ اپوزیشن اور حکومت میں سے کسی نے اس لڑائی کا انجام سوچا نہ سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے آپس کے معاملات خوش اسلوبی اور جذبہ مفاہمت سے طے کیے۔ ایک کو اقتدار کا زعم تھا‘ دوسرے کو کھیل بگاڑنے کی صلاحیت کا۔ بالآخر وہی ہوا جس کا حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سوا سب کو اندیشہ تھا۔ سیاسی دشمنی اور ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کی مجنونانہ خواہش سے مغلوب جمہوری دیوتائوں کو احساس تک نہ ہوا اور زمین ان کے پیروں سے نکل گئی۔ ایک ''میں نہ مانوں‘‘ پر بضد‘ دوسرا نوازشریف جائے‘ اس کی جگہ کھٹو مل رام پر راضی۔ 
12 اکتوبر کا فوجی اقدام ہوا تو جی ایچ کیو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور سیاستدانوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلے۔ ہر ایک اس بات پر خوش تھا کہ میاں نوازشریف کے ہاتھ سے اقتدار کی ہانڈی چھن گئی‘ اب ان کا بھی ہماری طرح خانہ خراب ہے جبکہ حکمران اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بعد ہمیشہ خود ترحمی کا شکار رہے کہ وہ تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے لگے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے آ کر سارا کھیل بگاڑ دیا۔ آج بھی ان میں سے کسی کے منہ سے غلطی کا لفظ کبھی نہیں نکلا‘ اس لیے لچھن وہی ہیں اور نورتن بھی کم و بیش وہی۔ کوئی کمی رہ گئی تو پرویز مشرف کے درباریوں کو ساتھ ملا کر پوری کی گئی۔ 
قید و بند اور جلاوطنی کا عذاب سہنے والوں کو بھلا کون سمجھائے کہ جمہوریت صرف انتخاب جیتنے کا نام نہیں‘ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ بہتر ریاستی انتظام و انصرام‘ فیصلہ سازی میں مشاورت اور شفافیت‘ بلاتفریق احتساب اور جمہوریت کے ثمرات تک عوام کی رسائی اس کا جزو لاینفک ہیں اور سیاسی قوتو ںسے مفاہمت کے بغیر جمہوریت اور آمریت میں فرق کرنا مشکل ہے۔ سول اور فوجی ڈکٹیٹر میں فرق فیصلوں‘ رویوں اور اقدامات کا ہوتا ہے۔ مخالفین پر گولی ایوب‘ ضیاء اور پرویز مشرف دور میں چلے یا نوازشریف کے عہد میں‘ بہرصورت غلط ہے اور بدامنی‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدعنوانی اور ظلم و بربریت کا گراف خواہ دور آمریت میں بلند ہو یا بسیار خور جمہوریت میں‘ باعث شرم ہے۔ عوام کو آم کھانے سے غرض ہوتی ہے گٹھلیاں گننے سے نہیں کہ یہ اسحق ڈار ٹائپ کسی منشی منقیٰ کا کام ہے۔ 
فیصل آباد میں جو ہوا‘ مسلم لیگ اور حکومت کی غلط حکمت عملی اور بے جا خوف کا نتیجہ تھا۔ خوف و ہراس مسلم لیگی کارکنوں کے سڑکوں پر آنے اور تحریک انصاف کے کارکنوں سے گتھم گتھا ہونے کے بعد پھیلا اور فائرنگ بھی اس طرف سے ہوئی۔ ندیم اور شاہد کا تعلق مسلم لیگ سے تھا یا نہیں؟ غیرجانبدارانہ تحقیقات سے پتہ چلے گا مگر نون لیگ کی بدحواسی اور تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کا نقش جما اور لاہور میں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات روشن ہوئے۔ تحریک انصاف کے کارکن پرجوش ہیں‘ مسلم لیگی کارکن کنفیوژ اور پولیس و انتظامیہ پہلے سے زیادہ محتاط۔ مقامی تاجروں کا جوش و جذبہ بھی ماند پڑ گیا ہے‘ حکومت اور انتظامیہ کی ہلہ شیری پر پریس کانفرنسیں کرنے والے تاجر بھی ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے تصادم اور قیمتی جانوں کا زیاں ہو۔ 
تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کو کمزوری اور شکست خوردگی کی علامت سمجھ کر حکمران ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں بدلتے حالات کا شعور ہے نہ عوامی جذبات کا قرار واقعی احساس۔ ورنہ سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح سانحہ فیصل آباد پر مٹی ڈالنے اور ظالم کی جگہ مظلوم پر الزام دھرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر حق نواز کا قاتل واقعی مسلم لیگی نہیں تو صفائیاں پیش کرنے کے بجائے ملزم کو پکڑا جائے۔ پکڑا گیا ہے تو عوام کے سامنے لایا جائے مگر بیان بازی ہے‘ تشہیری مہم اور حامد کی پگڑی محمود کے سر باندھنے کی تدبیر۔ 
ماضی کا تجربہ یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کا فائدہ تیسری قوت اٹھاتی ہے۔ حکمران آخری لمحے تک ہمیشہ خوداعتمادی اور خودفریبی کا شکار ہوتے ہیں‘ جب تک کوئی ان کے دفتر یا بیڈروم کے دروازے پر دستک دے کر نہیں بتاتا کہ ''دی پارٹی اِز اوور‘‘ یہ بے چارے بسم اللہ کے گنبد میں بند رہتے ہیں۔ اقتدار چلا جاتا ہے تو محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ذہین۔ تیز طرار سیاستدان اور پیدائشی حکمران کے منہ سے نکلتا ہے ''ٹکے ٹکے کے صحافیوں کو علم تھا کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے مگر مجھے بے خبر رکھا گیا‘‘۔ 
تحریک کی شدت اور احتجاج کی حدت بڑھی تو موجودہ جرنیلوں کی حد سے زیادہ جمہوریت پسندی رکاوٹ بنے گی نہ امریکی دبائو کام آئے گا۔ جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے حکومت کے حق میں باضابطہ بیان جاری کردیا تھا اور 1999ء میں امریکہ کی طرف سے بھی ایک بیان سامنے آیا تھا مگر جب حالات نے پلٹا کھایا‘ حکمرانوں نے مفاہمت کے بجائے محاذ آرائی اور مذاکرات کے بجائے زور آزمائی کا وطیرہ اختیار کیا تو سب عہد و پیمان قصۂ ماضی ہوئے اور ہونی ہو کر رہی۔ مضبوط اور مقبول جمہوری سیاسی حکومت پر ہاتھ ڈالنا واقعی دل گردے کا کام ہے‘ امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر ناممکن۔ مگر جب سیاستدان ایک دوسرے کی ہانڈی توڑنے کی خواہش سے مغلوب اور من مانی میں مشغول ہوں تو 7 اکتوبر‘ 5 جولائی اور 12 اکتوبر جیسی واردات ممکن ہے‘ صرف ممکن نہیں ناگزیر۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved