تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-12-2014

خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

اللہ کی بستی چالاک لوگوں کی چراگاہ نہیں ہے۔ رزم گاہِ حیات میں پائیدار کامیابی‘ عیار نہیں صاحبانِ حکمت کے لیے ہوا کرتی ہے۔ 
فیصل آباد کا واقعہ حکومت کے حلق میں اٹک گیا ہے۔ ایک عمران خان ہی نہیں دوسرے بھی اس پہ برہم ہیں۔ سچائی تو تحقیق ہی سے سامنے آتی ہے۔ ملوث فریقین کا نہیں‘ یہ غیرجانبدار لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ میڈیا کا‘ ثالث کا اور بالآخر عدالت کا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی۔ اب پولیس پر تو کسی کو اعتبار ہے نہیں۔ حکومت نے اسے یکسر غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا۔ کون اس کی تفتیش پر اعتماد کرے گا۔ سول ایجنسیاں بھی اپنے طور پر بروئے کار نہیں آ سکتیں۔ عسکری اداروں کے پاس معلومات اگر ہوں بھی تو لازم نہیں کہ سامنے آئیں۔ ایسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے الزام کو درست تسلیم کرنے کی طرف مائل ہو گی کہ مجرم کو نون لیگ کے لیڈروں نے چھپا رکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین الزام یہ ہے کہ وہ اسے سمندر پار بھیج سکتے ہیں یا قتل کرا سکتے ہیں۔ 
قانون کا احترام جب باقی نہیں رہتا۔ من مانی کی خواہش جب بے قابو ہو جاتی ہے تو یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ فقط نون لیگ نہیں‘ ایک کے بعد دوسری حکومت نے عدل عطا کرنے والے اداروں کو بتدریج بالکل بے معنی کر دیا۔ طوائف الملوکی کے آثار اب نمایاں ہیں۔ حکومت کا وجود کہیں ہے اور کہیں بالکل نہیں۔ 
سانحہ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اب تک کیوں نہیں سامنے آئی؟ اگر اس وقت انصاف مہیا کر دیا جاتا۔ اگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ وعدے کے مطابق مستعفی ہو جاتے تو یہ روزِ سیاہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ کسی طرح یہ بات حکمرانوں کے ادراک میں نہیں آتی کہ خود ان کا اپنا مفاد قانون کی بالاتری سے وابستہ ہے۔ 
آخر وہ کیا نفسیات ہے‘ جو اس غیر صحت مندانہ اندازِ فکر کو جنم دیتی اور قوت کے بل پر مخالفین کو برباد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ طاقت بدعنوان کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر بدعنوان۔ بار بار عرض کرتا ہوں کہ عقل اکثر تنہا نہیں ہوتی۔ آ سکے تو تعصبات اور مفادات سے آزاد ہو کر ہی وہ بروئے کار آتی ہے۔ انتقام کا جذبہ اگر غالب ہو تو بھٹو ایسے عبقری کو بھی خاک چاٹنا پڑتی ہے۔ کس نے مشورہ دیا تھا کہ شہر کو رانا ثناء اللہ‘ عابد شیر علی اور طلال چودھری ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا جائے۔ اس سے بھی پہلے‘ کس نے تجویز کیا تھا کہ پرویز رشید پیہم مخالفین کا تمسخر اڑاتے اور الزامات کی بارش کرتے رہیں۔ سیاست کا فہم رکھنے والے تجزیہ کاروں نے بار بار متوجہ کیا کہ حکومت کا کام اشتعال کی آگ بھڑکانا نہیں ہوتا بلکہ اسے ٹھنڈا کرنا ہے۔ 
رانا ثناء اللہ کی پریس کانفرنس بالآخر ان کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے۔ یہ زعم اور تکبّر تھا‘ حکمرانوں کو جس نے آمادہ کیا کہ وہ اپنے کارکنوں کو میدان کارزار میں اتاریں۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ صف بستہ پولیس کے سامنے قاتل جب آگ برسا رہا تھا تو وہ تماشا کیوں دیکھتی رہی؟ تماشا کہاں دیکھتی رہی‘ ٹی وی کی سکرین پر دکھایا گیا کہ انہوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیے۔ کیوں اسے گرفتار نہ کیا گیا۔ متاثرہ فریق کے ان الزامات کو اب قرین قیاس کیوں نہ سمجھا جائے کہ حکمرانوں کی اجازت اور ایما سے قاتل میدان میں 
اتارے گئے۔ دنیا ٹی وی کے کیمرہ مین اور روزنامہ دنیا کے فوٹو گرافر نے جس آدمی کی تصاویر اتاریں‘ اس کی بدن بولی میں اعتماد اور بے نیازی ہے۔ اگر اسے تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ نہ تھا‘ تو وہ اس قدر آزاد کیوں نظر آیا‘ انسانوں کا نہیں گویا وہ پرندوں کا شکار کھیل رہا ہو۔ پھر یہ کہ مجرم کی گرفتاری سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اپنا فرض نبھانے کی بجائے‘ معاملے کو الجھانے پر وہ کیوں مصر ہے۔ وہ فقط تحریک انصاف کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں تضادات تلاش کرنے پر کیوں تلی ہے؟ ایک آدمی قتل ہوا۔ سارے ملک نے مجرم کو دیکھا۔ یہ بنیادی حقیقت ہے‘ اس کی بجائے مخالفین کو موردِ الزام ٹھہرا کر سیاست چمکانے کی کوشش کیوں ہے۔ اصل اہمیت قتل کی ہے یا مقتولین کے خاندانی اور سیاسی ورثا کی حکمت عملی کے نقائص کی؟ کئی گھنٹے تک ہراس کا شکار رہ کر‘ جب انہیں مظاہرین کا خوف لاحق تھا‘ رانا ثناء اللہ سکرین پر نمودار ہوئے تو ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ ٹی وی مباحثوں میں معمول کے جارحانہ طریق کی بجائے‘ ان کا انداز معذرت خواہانہ کیوں تھا۔ کچھ تو ہے‘ جس کی پردہ داری ہے۔ 
واقعات کا ایک سلسلہ ہے‘ سیاق و سباق میں جسے دیکھنا ہو گا۔ انتخاب کے نتائج عمران خان نے تسلیم کر لیے تھے۔ فقط دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ تھا۔ اس پر ان کا تمسخر اڑایا جاتا رہا۔ اس وقت یہ مطالبہ کیونکر جائز ہو گیا‘ جب ایک جم غفیر کے ساتھ وہ اسلام آباد پہنچے۔ افواہوں کے جلو میں کہ عسکری قیادت کی تائید انہیں حاصل ہو سکتی ہے‘ چھ میں سے پانچ مطالبے کیوں مان لیے گئے؟ 
عمران خان اعلیٰ درجے کے حکمت کار ہیں اور نہ فرشتہ۔ ان کا تقاضا غلط تھا کہ وزیر اعظم اوّل اقتدار سے دستبردار ہوں۔ سب سے بڑی شہادت خود آنجناب نے فراہم کی کہ آخرکار خود ہی اس سے دستبردار ہو گئے۔ اب وہ اسی چیز کے طلب گار ہیں‘ وزیر اعظم کے ایما پر سہولت کار کا کردار ادا کرنے والے چیف آف آرمی سٹاف نے جس کی پیشکش کی تھی۔ تب انہوں نے انکار کر دیا اور خود وزیر اعظم بھی پیچھے ہٹ گئے۔ سب جانتے ہیں کہ 14 اگست کو کپتان کا ہدف دھاندلی کی تحقیقات نہیں بلکہ حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ علامہ طاہرالقادری ایسا مشکوک لیڈر ان کے ہم رکاب تھا۔ ہر شام اپنے حامیوں کو وہ خوش خبری سنایا کرتے تاآنکہ فوج کا کردار واضح ہو گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے کا تہیہ رکھتے تھے۔ جیسے ہی یہ نکتہ آشکار ہوا اور جوں جوں دھرنے کے شرکاء کی تعداد گھٹتی گئی‘ حکومتی روّیہ تبدیل ہونے لگا۔ وزیر اطلاعات کی روزانہ پریس کانفرنسیں‘ اب اس کے اندازِ فکر کا سب سے بڑا مظہر تھیں۔ کوئی الزام نہیں‘ جو اپوزیشن لیڈر پر انہوں نے عائد نہ کیا ہو اور کوئی الزام نہیں‘ جس کے شواہد وہ فراہم کر سکتے ہوں۔ 
بنیادی بات دھاندلی کا الزام ہے۔ بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ عدل کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ اس پر فیصلہ صادر ہونا چاہیے۔ یہ عدالت کا کام ہے۔ ثانیاً دھاندلی کے مرتکب ملزموں کا تعین‘ ثالثاً الیکشن کمیشن کے متنازعہ ارکان کا مسئلہ اور اس کی تشکیل نو۔ چاروں صوبائی کمشنروں کا مقدر نوشتۂ تقدیر ہے۔ کسی صورت اب وہ قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ با ایں حالات اب اس نہج پر آ گئے کہ مذاکرات اگر نہیں ہوتے‘ تحریک انصاف اور حکومت میں سمجھوتہ اگر نہیں ہوتا تو باہر سے مداخلت کا خطرہ جنم لے گا۔ تادیر ملک بدامنی کا متحمل نہیں‘ جو معیشت کو نگلتی جا رہی ہے۔ 
کیا وزیر اعظم کو پھر سے چیف آف آرمی سٹاف سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کرنی چاہیے؟ ایسے ہی عالم میں ضامن کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعتدال اور انصاف کی راہ اختیار کریں گے۔ فیصل آباد میں حکمرانوں کی حکمت عملی احمقانہ ثابت ہوئی۔ عملاً خود بھی انہیں اس کا اعتراف ہے کہ لاہور سے ایک دوسرے انداز میں نمٹنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے‘ وزیر اعظم کو اقدام کرنا چاہیے۔ ان ساتھیوں سے نہیں‘ جو اس بحران کے ذمہ دار ہیں‘ دانا لوگوں سے انہیں مشورہ کرنا چاہیے۔ 
اللہ کی بستی چالاک لوگوں کی چراگاہ نہیں ہے۔ رزم گاہِ حیات میں پائیدار کامیابی‘ عیار نہیں صاحبانِ حکمت کے لیے ہوا کرتی ہے۔ 
تصحیح: منگل کی شام کو جب کل کے اخبار میں شائع ہونے والا کالم لکھا جا رہا تھا‘ ایک چینل کی اطلاع تھی کہ تحریک انصاف نے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ اسی حوالے سے مختصر سا تبصرہ بھی ہوا۔ قارئین سے معذرت! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved