ایک طرف عمران خان اور پی ٹی آئی فیصل آباد میں ایک کارکن کی ہلاکت پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں تو دوسری طرف سندھ اور بلوچستان کی بہت سی حیران پریشان مائیں اپنے بیٹوں کے لاپتہ ہونے پر ماتم کناں ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ ان کے لیے ملک کو کون بند کرے گاتاکہ ریاست جواب دینے پر مجبور ہو سکے کہ ان کے بیٹے کیوں کبھی گھر نہیں آئیںگے۔ ہم سب گمشدہ افراد کے کیس اور بلوچستان میں ملنے والی تشدد زدہ لاشوں کو معمول سمجھ چکے تھے کہ سندھ میں بھی یہی خونیں کھیل شروع ہوگیا۔
سندھ میں قتل اور لاشوں کا ملنا کوئی نئی بات نہیں، 1980ء کی دہائی کے بعد سے اس صوبے میںکسی نہ کسی وجہ سے قتل و غارت گری کا کھیل جاری رہا ، لیکن خونریزی کی موجودہ لہر ایک نیا انداز لیے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھی قوم پرستی کے جذبات پھر سے بیدار ہو گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں ملنے والی چھ لاشیں پرتشدد کارروائیاں کرنے والے قوم پرستوں کی نہیں تھیں، بلکہ ان میں سے پانچ کا تعلق عام افراد سے تھا۔ ان کی کسی زمانے میں جیے سندھ موومنٹ سے وابستگی رہی تھی لیکن آج کل یہ افراد نہ تو کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث تھے اور نہ ہی ان کا پارٹی پالیٹکس سے کوئی تعلق تھا۔ بہرحال ریاست کی نگاہ میں سندھ کے حالات بلوچستان سے مناسبت نہیں رکھتے۔
1980ء کی دہائی میںسندھ میں لوگوں نے اُس وقت کی فوجی حکومت کو چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں خون بھی بہا۔ اُس وقت بلوچستان کی طرح سندھ میں سیاسی تحریک اپنے عروج پر تھی، سندھی میڈیا اور دانشور سیاسی طور پر بہت متحرک تھے اور وہ عوام کے دل میں اپنی ماں بولی کی اہمیت کااحساس اجاگر کررہے تھے۔ اس کے بعد 2000ء کی دہائی شروع ہوئی اور حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ اگرچہ یہاں کا میڈیا تاحال متحرک ہے لیکن اس کا رویہ بھی اب باقی ملک کے میڈیا جیسا ہوچکا ہے۔ اب جس آواز کو ریاست خرید یا دبانہیں سکتی، اُسے طاقت ور ڈان خرید کر اپنا ہم نوا بنالیتے ہیں۔
یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ جب ریاست سندھ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے دیگر دو ذرائع بھی استعمال کررہی تھی تو پھر اس قتل و غارت کی ضرورت کیوں؟یہ 1980ء کی دہائی والا سندھ نہیں۔ پہلا یہ کہ مشرف دور میں سندھ سے تقریباً80,000 جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا گیا، یہاں پرانی اور نئی چھائونیوں کی فعالیت کو بڑھایا گیا اور صوبے کے مختلف علاقوں میں کیڈٹ کالج قائم کیے گئے۔ درحقیقت بیرونی ممالک میں آباد سندھی افراد اور دانشور اس حق میں دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے افراد کو سول اور ملٹری اداروں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔ یہاں کے بہت سی بااثر خاندانوں کے نوجوان لڑکوں نے اسٹیبلشمنٹ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنے خاندان کے اثر ورسوخ میں اضافہ کیا۔ اختیار کیا گیا دوسرا راستہ بڑے منظم طریقے سے سندھ میں بتدریج جہادی تنظیموں، مدرسوں اور انتہا پسندی کے دیگرانفراسٹرکچرکا جال پھیلانا تھا۔ یہاں بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں اپنا حلقہ ٔ ارادت وسیع کررہی تھیں۔ 1990ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے خالد سومرو( مرحوم)کو ملنے والے غیر متوقع طور پر زیادہ ووٹ اس علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلی کا اظہار تھے۔ سندھ میں جاگیردارانہ طبقے کے‘ جن کی جگہ اب نئے جاگیرداروں نے لے لی ہے‘ کمزور پڑتے ہوئے بیانیے اور ان کی ماند پڑتی ہوئی سیاسی طاقت سے پیدا ہونے والے خلا کی وجہ سے سندھ کا درمیانہ طبقہ مذہبی نعروں کی طرف کشش محسوس کرنے لگا۔ وہاں دیوبندی مکتبِ فکر کواپنے نظریات کی ترویج کا بھرپور موقع ملا، چنانچہ وہاں اس فرقے نے ایک نئے چیپٹر کے طور پر سراٹھایا اور سماجی اور سیاسی معروضات پر اثرانداز ہونا شروع کردیا۔
اس پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے عقل حیران ہے کہ اب سندھ میں نئی آگ بھڑکانے کی کیا ضرورت تھی؟اس خونریزی کے نتیجے میں خاص طور پر نوجوان طبقے میں اشتعال اور غصے کے جذبات بھڑک سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں ریاست اور سیاسی حکومت ، دونوں نے نظر انداز کررکھا ہے۔ یہاں ناقص حکومتی نظم و نسق، بدعنوانی، نااہلی اور عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے جیبیں بھرنے کی پالیسی کے ہوتے ہوئے یہ مشکل ہے کہ پی پی پی کی حکومت کو مورد ِالزام نہ ٹھہرایا جائے۔ بطور ایک سیاسی جماعت، پی پی پی تشدد کی لہر کی شکار بھی ہے اور اس کی ذمہ دار بھی۔ اس نے اس صوبے میں، جس پر اس کا سیاسی دعویٰ ہے، ہونے والے تشدد کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے اہم رہنمائوں اور اداروں کے درمیان خفیہ اشتراک اور عوام کے استیصال سے اس کے کردار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر نہ تھمی، تو اس کی تپش اسی جماعت کو سب سے زیادہ محسوس ہوگی۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہوگی اگر یہ جماعت صوبے کو پرتشدد قوم پرستی سے پاک کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے ساتھ اشتراک کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سندھی ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے چیئرمین قادرمگسی نے حال ہی میںجیے سندھ موومنٹ کو مسلح جدوجہد سے خبر دار کیا ہے کیونکہ اس صورت میں سندھی نوجوانوں کا بھاری جانی نقصان ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ تشدد کے نتیجے میں بعض اداروں اور جماعتوں کو اپنے قدم مزید مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے بعد معاملات اتنے الجھائو کا شکار ہوجائیں گے کہ یوں لگے گا کہ کوئی بھی (شاید چینیوں کے سوا)انہیں سلجھانہ پائے گا۔
اگر ان واقعات کا سلسلہ نہ رکا تو سندھ کا امن ہمیشہ کے لیے غارت ہو جائے گا۔ یہاں کی روایتی برداشت، ملنساری اور تحمل پر مبنی صوفی روایات ،جس میں مختلف کلچر اور روایات جمع ہوجاتی ہیں، آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ بہت جلد یہ ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔صورت ِحال اس قدر کنفیوژن کا شکار ہے کہ قوم پرست بھی نہیں جانتے کہ اُنہیں کس وقت انتہا پسندوں کی مدد لینا پڑ جائے۔ ہم بلوچستان میں دیکھ چکے ہیںکہ القاعدہ بلوچ قوم پرستی کی موقف کی حمایت کرتی نظر آتی ہے ، کیا خبر سندھ میں بھی یہی صورت ِحال پیدا ہو جائے اور انتہا پسند یہاں کی سیاست کا تعین کریں۔
اگرچہ ہم اس راز کو جاننے کی کوشش میں ہیں کہ سندھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے، اہم بات یہ ہے کہ معتدل مزاج سیاسی قوتیں رفتہ رفتہ غائب ہورہی ہیں۔ حالیہ دنوں جے یو آئی (ف) کے خالد سومرو کے قتل سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ چھ برسوںسے پی پی پی اور جی یو آئی (ف) کے درمیان ہونے والے اشتراک کی وجہ سے انتہا پسندوں کو سندھ میں قدم جمانے کا موقع ملا کیونکہ جے یو آئی (ف) ایسی تنظیموں کے لیے چھتری کا کام دیتی ہے۔ ڈاکٹر سومرو دراصل ایک ایسی سیاسی شخصیت تھے جو سندھی قوم پرستی کے غالب جذبات رکھتے تھے۔ اگر وہ زندہ رہتے تو بھی سندھ میں ایک فرقے کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کے سامنے خود کو بے بس پاتے۔ کچھ افرا د کا کہنا ہے ان کی ہلاکت کو ان کے قوم پرستی کے موقف کے حوالے سے دیکھا جائے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ ایک جماعت اپنی تاریخ اور روایت کے اعتبار سے سرکاری قوم پرستی کی مخالف ہے۔ اس کے علاوہ یہ وہ جماعت ہے جہاں پاکستانی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا اتصال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سومرو جیسے رہنما کی ہلاکت سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ سندھ میں ایسے نئے انتہا پسندگروہ سراٹھارہے ہیں جن کی کچھ حلقوں کے ساتھ قربت ہے۔ اس طرح ایک نیا معاشرہ تشکیل کے مراحل میں ہے۔ سندھ عظیم تاریخی روایات کا امین ہے۔ اگرچہ ہم سوچ رہے ہیں کہ اس میں پھیلی ہوئی دہشت کا ذمہ دار کون ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خونریزی کو روکنے کے لیے ہمارے پاس وقت بالکل نہیں؛ چنانچہ ریاست کو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سامنے آکر اس قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔