موجودہ نظامِ معیشت جہاں صنعت اور اقتصادیا ت میں بحران کا باعث ہے وہاں یہ زرعی شعبے میں دہقانوں اوردیہی آباد ی کو بھی مزید غربت اور ذلت کی کھائی میں دھکیل رہا ہے۔ جس جارحیت سے کارپوریٹ سرمایہ زرعی شعبے کو تاراج کررہا ہے اس کا اظہار گنے کی قیمت پر حالیہ تنازعے سے ہوتا ہے۔
پانچ اور چھ دسمبرکو گنے کے کاشتکاروں نے سندھ اور پنجاب کا بارڈر بند کردیا اور کئی گھنٹے ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت بند رہی۔کاشت کار گنے کی قیمتوں میں کمی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔گنے کے کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل فی من گنے کی قیمت 182روپے رکھی گئی تھی جسے بعد ازاں شوگر مافیا کے جبر اور دبائو پر کم کرکے 155روپے کردیا گیا۔ پہلے سندھ کی شوگر ملز نے قیمت خرید کم کی اور پھر پنجاب کی شوگرملز نے بھی یہی نرخ مقرر کردیے۔ کاشتکاروں کے پر زور مظاہروں کے بعد پنجاب حکومت نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے پرانا ریٹ بحال کر دیا۔ چند دنوں کی تاخیر کے بعد سندھ حکومت کو بھی کسانوں کی اس تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کر دی ۔ سندھ شوگرملز کنٹرول ایکٹ کے مطابق شوگرملز نے اکتوبر کے وسط سے کرشنگ سیزن ہر حال میں شروع کرنا ہوتا ہے مگر تاحال38 شوگرملز میں سے صرف چار نے کرشنگ شروع کی ہے۔کرشنگ ملتوی کرنے کے پیچھے کم قیمت پر گنا خریدنے کی نیت شامل ہے۔ علاوہ ازیں گنا پرانا ہونے پر وزن میں کمی اور مٹھاس میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مل مالک کو فائدہ اور کسان کو نقصان پہنچتا ہے۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے سیاست دانوں کی طرف سے شوگرملز
لگانے کا رجحان بڑھا ہے جس کی وجہ شوگرملز کا ہوشربا منافع ہے، خاص طور پر ضیاء الحق کے حمایتی سیاستدان اس صنعت پر حاوی ہیں۔ شوگر مل مالکان کتنا کما رہے ہیں ؟ اس کا اندازہ ان کی صنعتی ایمپائر کے حجم اور جائدادوں کی خریداری سے لگایا جاسکتاہے۔ اس دولت سے قائم سماجی برتری کی وجہ سے حکمرانی کے ایوانوں میں ان کا اثر و رسوخ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتیں شوگر مل مافیا کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کے سرخیل لیڈر اس معاملے میں خاصے نمایاں ہیں۔ اب تک ملک میں کام کرنے والی شوگرملز کی تعداد 88 ہوچکی ہے اور چینی کی پیداوار ضرورت سے کہیں زیادہ ہے مگر اس کے باوجود چینی کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں۔ اگر ہم پیداوار کا جائزہ لیں تو1950ء میں چینی کی پیداوار 6,775000 ٹن سالانہ تھی جو 1976-80ء کے دوران بڑھ کر 27,994000 ٹن سالانہ ،1991-1995ء میں 40902000 ٹن اور 2012-13ء میں 63,719000 ٹن سالانہ تک پہنچ گئی۔ شوگر ملز پوری پیداواری صلاحیت پر نہیں چلائی جاتیں تاکہ مصنوعی قلت برقرار رکھی جاسکے۔ 1950ء کے بعد اگر آبادی میں سات گنا اضافہ ہوا ہے تو چینی کی پیداوار دس گنا بڑھی ہے، لیکن یہ جنس صارف کی پہنچ سے دور ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں راشن سسٹم قائم کیا گیا اور عام لوگوں کو سبسڈائز کرکے مہنگی چینی سستے داموں فروخت کی جاتی رہی مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں نئے معاشی مافیا قائم ہوئے جس سے ایک طرف شوگرملز بڑھنا شروع ہوگئیں اور دوسری طرف چینی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران چینی کے نرخ گیارہ روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 21 روپے فی کلو گرام کر دی گئی جبکہ اسی دوران طاقتور خاندان نے افریقہ سے چینی امپورٹ کرکے ہندوستان کو فروخت کی جو وہاں پرچون میں 7 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کی جاتی رہی۔ یہ سلسلہ ہر ''جمہوری‘‘ اور فوجی دور حکومت میں جاری رہا۔ جنوری 2008 ء میں چینی کی فی کلو گرام قیمت26.06 روپے تھی جبکہ اگلے سال 2009ء کے دسمبر میں یہ نرخ دوگنا سے بھی بڑھ کر58.50 روپے فی کلو گرام ہوچکے تھے۔ نومبر 2011ء تک چینی کی قیمت 101روپے فی کلو گرام تک پہنچ گئی ۔
2009ء کے آخری مہینوں میں لاہور ہائی کورٹ نے چینی کی لاگت کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد چینی کے نرخ 40 روپے فی کلو گرام مقرر کئے تھے اور شوگرملز مالکان کی ایسوسی ایشن کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ نے اسی فیصلے کی توثیق کردی تھی۔ پانچ سال بعد بھی اس فیصلے پر کوئی حکومتی مشینری یا عدالت عمل نہیں کروا سکی۔ یہ ہے طاقت ور شوگرمل مافیا کی طاقت ! حکومت فوجی ہو یا جمہوری، یہ مافیا ہر وزارت اور مشاورت میں سرفہرست نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اقتدار میں چھوٹے کاشت کار اور غریب صارف کی کوئی نمائندگی ہے نہ ہی اس طبقاتی نظام جمہوریت میں ہوسکتی ہے۔ شوگر مل مالکان کا سندھ ہائی کورٹ میں موقف تھا کہ چینی اور گنے کے نرخوں کا تعین صوبائی یا وفاقی حکومت کی بجائے ''منڈی کی طاقتیں‘‘ کریں۔ ''منڈی کی طاقتیں‘‘ دراصل یہ مالکان خود ہیں !
یہاں بڑے جاگیر دار، صنعت کار بھی ہیں اور سرمایہ داروں نے انکم ٹیکس بچانے کے لئے بڑی بڑی جاگیریں خرید رکھی ہیں ۔ شوگرمل مالکان نے لاکھوں ایکٹر اراضی لیز پر لی ہوئی ہے۔ ایک طرف ہزاروں ایکڑ پر کارپوریٹ فارمنگ کرنے والے سرمایہ دار جاگیر دار ہیں تو دوسری طرف چند ایکڑ اراضی پر کاشتکاری کرنے والے چھوٹے کسان ۔ دونوں کی پیداواری لاگت، منافع، مسائل اور معاشرتی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بڑے جاگیر داروں کی جاگیروں سے بڑی بڑی نہریں گزر رہی ہیں جن کے موگے اور پانی کی روانی ان کی مرضی سے ہوتی ہے۔ چھوٹے کاشتکار پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ شوگرمل مالکان اورگنے کی کارپوریٹ فارمنگ کرنے والے ایک ہی زرعی وشوگر کارٹیل کے بزنس پارٹنر ہیں۔ بیشتر جاگیرداروں نے خود یا ان کے حاشیہ برداروں نے ''کسانوں کے حقوق‘‘ کے نام پر انجمنیں بھی قائم کی ہوئی ہیں جن کے مقاصد کا عام کسان یا چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کے ساتھ کوئی تال میل نہیں ہے۔ کسانوں کی کچھ حقیقی تنظیمیں اگرچہ بے لوث جدوجہدکررہی ہیں لیکن ان تنظیموں کے پاس ''کسان مسئلے‘‘ کا کوئی واضح تناظر اور لائحہ عمل نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ صرف فوری اور مخصوص نوعیت کے مسائل پر ہی سرگرم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تنظیمیں چھوٹے علاقوں تک محدود ہیں اور ان کا تمام تر پروگرام بھی ''موگوں کے سائز‘‘ ،گنے اور کپاس کے نرخوں تک سکڑ چکا ہے، ان کی قیادت ملکیت کے موجودہ رشتوں کو مقدس سمجھ کر اسی فہم سے زرعی مسئلے کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیر دارانہ ملکیتی رشتوں پر مبنی منافع اور منڈی کے اس نظام کو چیلنج نہ کیا جائے تو پھر کسی ''کسان تنظیم ‘‘ اور''کسان بورڈ‘‘ کے پاس کسانوں کو اس ذلت اور غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
صنعت، زراعت اور معیشت کی نجی ملکیت کا یہ نظام منافع کی ہوس کی تحت ہر شعبے میں مزدوروں اور دہقانوں کی زندگیاں اجیرن بناتا چلا جارہا ہے۔ دھرتی کا سینہ چیر کرچینی میں مٹاس بھرنے والا گنا جو دہقان اگاتے ہیں ان کے لئے ہی یہ چینی کڑوی بن گئی ہے۔ منڈی کی اس معیشت کو اکھاڑ پھینک کر صنعت، زراعت اور معیشت کو اشتراکی بنیادوں پر جب تک نہیں چلایا جائے گا سماج کا ہر پہلو تلخی، تنزلی اور بحران کا شکار رہے گا۔ ذائع پیداوار کی نجی ملکیت کے اس نظام میں کروڑوں محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت مٹھی بھر حکمران طبقے کے ہاتھوں میں مجتمع ہوتی رہے گی اور عوام کی آزادی و خوشحالی کے نعرے سیاسی فریب ہی رہیں گے۔