ابھی اس بات کا لطف اٹھا ہی رہا تھا کہ کالم سے کیسی جان خلاصی ہوئی ہے کہ اتنے میں یکایک جنید آ گیا ع
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
حق بات تو یہ ہے کہ منجھلے بیٹے اویس کے لیے میرا دل زیادہ دھڑکتا ہے ‘ شاید‘ اس لیے بھی کہ وہ نظروں سے دور‘ اوکاڑہ میں ہے جبکہ بڑا اور چھوٹا لاہور ہی میں ہیں بلکہ آفتاب کو تو مزید عنقریب سمجھیے۔ والد مرحوم میرے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اسے اولاد نہیں ہونی کہ ایک تو یہ شاعر ہے اور دوسرے بینگن شوق سے کھاتا ہے۔ مگر جب اولاد ہونے پر آئی تو اللہ نے لگاتار تین بیٹے دے دیے۔ اس کے بعد ارادہ تھا کہ اب یہ فیکٹری بند کر دی جائے لیکن پھر سوچا کہ ایک بیٹی بھی ہونی چاہیے بیٹے کیا کہیں گے کہ ہماری کوئی بہن ہی نہیں ؛ چنانچہ رسک لیا اور بیٹی بھی عنایت ہو گئی۔
عجیب بات ہے کہ جس چیز یا جتنے پیسوں کی کبھی مجھے اشد ضرورت آن پڑی ‘ مجھے مل گئے ۔آفتاب کے پیدا ہونے میں ابھی ایک آدھ روز ہی باقی تھا۔اہلیہ میکے گئی ہوئی تھیں۔ میں وہاں پہنچا تو یہ سوچ کر کہ ڈلیوری اپنے ہی گھر ہونا چاہیے‘اوکاڑہ جانے کی ٹھانی لیکن میری جیب میں تو اتفاق سے ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ وکالت کا ویسے بھی ہوائی سا رزق ہوتا ہے‘ آیا‘ آیا ‘ نہ آیا تو نہ آیا۔ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ میرے سکول فیلو ملک شبیر حسین،جو ان دنوں اوورسیئرتھے، آگئے، جن کے خلاف کسی نے عدالت میں استغاثہ دائر کر رکھا تھا مجھے انہوں نے وکیل کیا‘ پانچ سو روپے فیس کے دیئے اور اس طرح میرا مسئلہ حل ہوا۔
اس سے بڑھ کر ایک اور بھی ، آفتاب کوئی سال بھر کا ہو گا کہ اسے پیچش ہو گئی۔ ایک دو دن کی دوا سے قدرے افاقہ ہوا تو دوا ختم ہو گئی جو کوئی تین چار روپے ہی میں دستیاب تھی لیکن جیب اس دن بالکل خالی تھی ۔ اوپر سے شدید بارش ہو رہی تھی۔ گھر کے باہر بھی گوڈے گوڈے پانی کھڑا تھا۔ ادھر اس کی دوا کا وقت ہو رہا تھا اُدھرپریشانی میں اضافہ ۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی باہر گیا تو وہ میرا کلائنٹ صادق تھا جسے عرف عام میں صادو پائولی کہا جاتا تھا اور جو ہمارے ایک بزرگ میاں عبدالحق کے پاس باورچی رہا تھا‘ اور جو بقایا فیس کے 50 روپے لایا تھا ‘ سو یہ مشکل اس طرح آسان ہوئی۔
اسی پر بس نہیں‘ کوئی دس بارہ برس پہلے میری اہلیہ کی آنکھ کا آپریشن تھا جس کی فیس25ہزار روپے تھی ڈاکٹر کی دی ہوئی تاریخ سر پر آ پہنچی تھی اور شام پانچ بجے کا وقت طے تھا اور میرے پاس اس وقت بھی کوئی پیسہ نہیں تھا جبکہ ایک ادائیگی جو کسی جگہ سے ہونا تھی وہ بھی نہ ہوئی۔آفتاب کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ ان دنوں میں ''پاکستان‘‘ اخبار چھوڑ چکا تھا لیکن اس کے ہاں میرا کھاتہ چل رہا تھا اور ابھی کچھ پیسے واجب الادا تھے ۔مجھے کچھ زیادہ امید تو نہیں تھی تاہم‘ چلا گیا تو اکائونٹس والوں نے کہا کہ آپ کے واجبات میں سے ہم فی الحال 25ہزار دے سکتے ہیں میں نے کہا‘ فی الحال مجھے بھی اتنے ہی درکار ہیں!
اور سنیے‘ گاوں میں میرے چچا نے اپنی کچھ زمین فروخت کرنا تھی۔ مجھے پیشکش کی لیکن میں نے معذرت کر دی اور انہوں نے کوئی دس ایکڑ رقبہ کسی اور کو بیچ دیا۔میں نے اللہ کا نام لے کر اس پرشفعہ کر دیا۔مقدمہ چلا تو اسی دوران فریق ثانی کو کسی نے بتایا کہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ مخالف وکیل نے عدالت میں بیان دے دیا کہ انہیں زمین کی قیمت دیدی جائے تو وہ اس سے دستبردار ہوتے ہیں۔ تھوڑا بہت قانون میں بھی جانتا تھا اور جس کی گنجائش بھی تھی‘ چنانچہ میں نے عدالت سے درخواست کی کہ ادائیگی کے لیے مجھے تین ماہ کی مہلت دی جائے جو کہ دے دی گئی اور کیس مشروط طور پر میرے حق میں ڈگری ہو گیا لیکن معاملہ تین چار لاکھ کا تھا اور میرے پاس چار سو بھی نہیں تھے دماغ لڑایا تو ایک ترکیب نے ذہن میں سر اٹھایا۔
انہی دنوں میرا چوتھا مجموعہ کلام زیر طبع تھا میں نے اپنے پبلشر سے کہا کہ اس کے دو تین ہزار نسخے مزید چھپوا لیجیے۔ کتاب کی قیمت100روپے تھی۔ میرے ایک قدر دان رائے محمد امین اوکاڑہ میں مجسٹریٹ دفعہ 30رہ چکے تھے اور اب بوریوالہ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے اور ان کے ساتھ رابطہ بھی رہتا تھا۔ کتاب چھپی تو میں انہیں ملنے چلا گیا کتاب انہیں پیش کی جسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ نہایت دانشمند آدمی تھے بولے میاں صاحب‘ اس کتاب کے بارے کوئی حکم ہو تو بتائیں۔ میں نے کہا اسے اگر بکوا دیں تو میرا ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس پر کہا کہ ایک ہزار نسخہ مجھے بھجوا دیںسو ‘میں نے کتابیں انہیں دوسرے دن ہی بھجوادیں اور موصوف نے پچاس پچاس ہزار روپے مختصر وقفے سے بھجوا دیے۔
تاہم‘ اہلیہ کا زیور فروخت کرنے کے بعد بھی ابھی مزید کوئی ڈیڑھ لاکھ روپے درکار تھے۔ چنانچہ ایک ترکیب سوجھی اور میں نے تقریب رونمائی کے لیے اس کتاب کا بروشر چھپوا لیا‘ جس میں دس دس ہزار روپے کے اشتہارات شائع ہوئے تھے۔ چودھری سردار محمد ‘ ان دنوں آئی جی پولیس تھے جو صحیح معنوں میں ادب دوست آدمی تھے ۔ ان کے ساتھ اس وجہ سے ملاقات بھی رہتی تھی۔ ان سے کہا تو انہوں نے ڈی آئی جی فیصل آباد اور ڈی آئی جی سرگودھا کو فون کر دیا کہ ظفر اقبال صاحب ہمارے دوست ہیں آپ کے پاس آ رہے ہیں ‘ ان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا جائے‘ جنہوں نے ایسا ہی کیا‘ اشتہار بھی دلوائے اور کتاب بھی بقدر حصہ رکھ لی۔ اور تھوڑے ہی عرصے بعد ادائیگی بھی کر دی۔ اس سلسلے میں جاوید قریشی جو اس دوران چیف سیکرٹری پنجاب اور خود شاعر بھی تھے۔ اور میرے قدر دان بھی‘ اور جس کسی سے
میرا تعارف کراتے بلکہ خود بھی کئی بار کہا کہ آپ کی شاعری اور کالم دونوں ہی اعلیٰ معیار کے ہیں،انتقال کر چکے ہیں‘ خدا اس مبالغہ آرائی پر انہیں معاف فرمائے۔ سو اس طرح یہ مسئلہ بھی حل ہوا اور میں عدالت میں مطلوبہ رقم جمع کروانے کے قابل ہوا۔ یہ کوئی ایسا قابل فخر یا قابل بیان واقعہ نہیں تھا کیونکہ اپنی شہرت اور نام و نمود کے حوالے سے اس طرح کے مالی مفادات حاصل کرنا یقینا میرے نزدیک کوئی مناسب بات نہیں ہے، لیکن زندگی میں آدمی اس طرح اپنی ضرورتیں پوری کرے اور اپنی مشکلات و مسائل حل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بلکہ میں نے تو اس سے بھی گھٹیا حرکتیں کر رکھی ہیں جن میں سے ایک یہ رہی کہ کافی عرصے کی بات ہے ‘ میں نے ایک خوانچے والے سے پانچ روپے کی کوئی چیز خریدی اور اسے دس کا نوٹ دیا جس نے مجھے پانچ روپے واپس کرنے کی بجائے 45روپے دے دیے‘ اس غلط فہمی میں کہ میں نے سے پچاس کا نوٹ دیا تھا پہلے تو میں اسے 40روپے واپس کرنے لگا کہ غریب آدمی ہے اور نادانستگی میں 40روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے‘ لیکن میں اس وقت شاید اس سے بھی زیادہ غریب تھا‘ اس لیے میں نے اپنی غریبی پر ترس کھاتے ہوئے وہ پیسے رکھ لیے۔ع
تفو بر تو اے چرخ گرداں! تفو
آج کا مقطع
میں اب کہ اُس کا بھی احسان مند ہوں جو، ظفرؔ
غریب خانے پہ اُس خوش نما کے ساتھ آیا