تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     11-12-2014

انارکی اورافراتفری کی آکاس بیل

سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاستدان عوام کی بہبود‘ جمہوریت اور انصاف کے نعرے لگا کراقتدار میں آتے ہی احساس سے عاری کیوں ہو جاتے ہیں۔اُن کی بے حسی کا عکس پھر معاشرے میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہمیشہ سے نظرانداز ہونے والے نابینا افراد نجانے کتنی ہمت کر کے مال روڈ پر جمع ہوئے ۔ وہ بصیرت سے عاری‘ آنکھوں والے اندھوں کو ان مشکلات کا احساس دلانا چاہتے تھے جو وہ اپنی بے نور آنکھوں کے ساتھ سہتے ہیں۔ بے حس معاشروں میں معذور افراد کے حقوق کا کسی پالیسی‘ کسی پلاننگ‘ کسی سرکاری پروگرام میں خیال نہیں رکھا جاتا۔ سو بے نور آنکھوں کے ساتھ‘ سفید لاٹھیاں ٹیکتے ہوئے‘ بصارت سے محروم چند سو افراد اگر مال روڈ پر آ ہی گئے تو ان کے ساتھ ریاستی مشینری نے وہ سلوک کیا جس پر اخلاقیات اور انسانیت دونوں شرمندہ ہیں... پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے ان بے نور آنکھوں والوں پر لاٹھیاں برسائیں۔ سنا ہے کہ صدر مملکت کی وی آئی پی موومنٹ کے لیے سڑک کلیئر کروانا ضروری تھا۔ ایک ذمہ دار پولیس افسر نے انتہائی بے حسی سے فرمایا کہ یہ نابینا لوگ صبح سے ہی مال روڈ بلاک کر بیٹھے تھے۔ پولیس طاقت سے سڑک خالی نہ کراتی تو کیا کرتی۔ ایک تو اتنا انسانیت سوز واقعہ‘ اس پر ایک ٹویٹ نے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔نابینائوں پر تشدد کر کے ہم نے اپنی ٹوپی میں سرخاب کے ایک اور پر کا اضافہ کر کے دنیا کو بتایا ہے کہ یہاں پر سرکاری طور پر خصوصی افراد کی یہ اس طرح افزائی ہوتی ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں معذور افراد کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر یہاں گڈگورننس کی چھتری تلے نابینائوں پر پولیس نے تشدد کیا۔ اس پر بھی حکمرانوں کی بے حسی ایک مثال ہے! 
فیصل آباد کو 8 دسمبر کے روز میدانِ جنگ بنایا گیا۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کی قیادت، حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے جس طرح پی ٹی آئی کے ورکرز اپنے بھڑکے ہوئے جذبات کے ساتھ شہر بند کروانے پر مصر تھے‘ ن لیگ نے بھی جواباً اپنے جوشیلے کارکنوں کو میدان میں اتار دیا۔ شہر میں فضا ایک روز پہلے سے ہی کشیدہ تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے شرائط کی تمام رکاوٹیں توڑ کر پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے میز پر بلاتی مگر ان کی طرف سے ایک ہی رٹ تھی کہ دیکھتے ہیں پی ٹی آئی فیصل آباد کیسے بند کرواتی ہے۔ اس کشیدہ فضا میں پی ٹی آئی کے ایک کارکن 22 سالہ حق نواز پر سیدھی گولی چلائی گئی اور وہ دم توڑ گیا... گولی چلانے والے کی فوٹیج میں 
اس کے چہرے کے خدوخال واضح ہیں لیکن قاتل کو جانے زمین نگل گئی کہ آسمان کھا گیا۔ 
اس کہانی کو عجیب موڑ دیا جا چکا ہے۔ رانا ثناء اللہ پریس کانفرنس میں ثبوت کے ساتھ دعویٰ کر چکے ہیں کہ گولی مارنے والے شخص کا ن لیگ سے تعلق نہیں ۔ تو پھر یہ کون ہے؟ اس الجھی ہوئی کہانی کے دوسرے سارے زاویے بھی میڈیا میں آ چکے ہیں۔ بے اختیار افتخار عارف کا شعر زبان پر آ جاتا ہے۔ ؎
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے 
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا! 
سچ تو یہ ہے کہ یہ کہانی جس میں مرکزی کردار عوام کا ہے‘ آج نہیں بلکہ گزشتہ ساٹھ پینسٹھ برسوں سے اُلجھائی چلی آ رہی ہے۔ اس طرح کہ کہانی کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ اس الجھے ہوئے نظام کی بنیادیں طاقتور اشرافیہ نے اس طرح رکھی ہیں کہ یہ نظام صرف ان کی اور ان کی نسلوں کی پرورش کرتا رہے۔ طاقتور اشرافیہ میں سیاستدان بھی ہیں‘ بیوروکریٹس بھی ‘ فوجی بھی ہیں‘ صنعت کار بھی ہیں اور جاگیردار بھی ۔ 
اگر اس نظام کی بنیاد انسانی حقوق کی سربلندی‘ انسانیت کے پرچار پر رکھی جاتی تو کیا حالات کی تصویر یہ ہوتی‘ اس طرح سے تھر میں بھوک سے انسانوں کے بچے مرتے‘ بے نور لوگوں پر قانون نافذ کرنے والے بے دردی سے لاٹھیاں برساتے‘ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے دھاندلی اور دھونس کے ہر ممکن طریقوں پر عمل کیا جاتا اور پھر سانحہ ماڈل ٹائون میں 14 لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر گڈگورننس کے دعوے کیے جاتے؟ فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے کارکن کا بہیمانہ قتل، کنٹینروں پر کھڑے ہو کر جلائو‘ گھیرائو‘ مرو اور مارو کے نعرے لگانے والوں کے لیے معمولی واقعہ ہے‘ ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی‘ ایسا لگتا ہے دونوں طرف کے ذمہ داران وژن سے عاری‘ دماغ اور احساس سے تہی دل رکھنے والی، سفاک اشرافیہ ہیں۔ سماجی اور سیاسی حالات کی پارا پارا ہوتی اس تصویر کو دیکھ کر ممتاز آئرش شاعر ڈبلیو بی ییٹس (W.B.Yeats) کی لکھی ہوئی یہ لائنیں یاد آتی ہیں: 
Things fall apart;the centre cannot hold:Mere anarchy is loosed upon the world.
Yeats ایک شاعر بھی تھا اور آئرلینڈ کی سیاست کا ایک اہم کردار بھی تھا‘ اس نے حالات پر یہ تبصرہ کیا جب پہلی جنگ عظیم ہو چکی تھی مگر اس جنگ میں انسانیت نے جو زخم سہے ان سے ابھی لہو رِس رہا تھا۔ محبت اور انسانیت کو چھوڑ کر انسان نے طاقت اور اجارہ داری کو اپنا قبلہ بنا لیا تھا یعنی سفر الٹی سمت شروع ہو چکا تھا۔ 
آج پاکستان میں آئے روز ہونے والے حادثات‘ انسانوں کی تذلیل‘ سیاسی عدم استحکام‘ ریاستی جبر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے ڈبلیو بی ییٹس نے یہ لائنیں ہمارے ہی سیاسی اور سماجی حالات پر لکھی تھیں... جب قانون صرف کتاب تک محدود رہے گا معاشرے میں طاقت‘ دھونس اور دھاندلی کی حکمرانی ہوگی تو پھر چیزیں مرکز سے ہٹ کر ریزہ ریزہ ہونے لگتی ہیں...! 
سیاست ہو یا سماج‘ ہر طرف افراتفری‘ انارکی‘ اکاس بیل کی طرح پھیلتی دکھائی دیتی ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved