فارسی میں کہتے ہیں ؎ آنچہ دانا کند‘ کندناداں۔ لیک بعداز خرابیٔ بسیار (دانا جو کام کرتا ہے، کرنا نادان کو بھی وہی ہوتا ہے مگر نقصان اٹھانے کے بعد)
کسی ایک کی تخصیص نہیں، مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کی قیادت نے اپنی اپنی ساکھ خراب کرنے کے بعد بالآخر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ ایک مدمقابل کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھا‘ دوسرا مخالف کی ناک سے لکیریں نکلوانے کا آرزو مند۔ دونوں کو بالآخر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوا۔ کاش عمران خان یہ ستمبر میں مان جاتے اور اے کاش میاں نوازشریف رحیم یار خان کے جلسے میں عمران خان کے لچکدار موقف کو غنیمت جانتے ہوئے مذاکرات کی بساط بچھاتے !!! دونوں مگر ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے۔
ماضی کا ماتم روا نہیں، یہ حالات کا جبر ہے، عمران خان کی احتجاجی مہم کا دبائو یا فیصل آباد میں گرنے والے خون ناحق کی تاثیر، حکومت بالآخر مذاکرات کی میز پر آگئی، کسی پیشگی شرط اور چوں چرا کے بغیر ؎
لائے اس بت کو التجا کر کے
کُفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
پاکستان میں سیاسی مذاکرات کا تجربہ کچھ خوشگوار نہیں۔ احتجاجی تحریکوں کے بعد ہونے والے مذاکرات ، گاہے حکومت کی ضد، کبھی اپوزیشن کی ہٹ دھرمی اور کبھی کسی تیسرے فریق کی 'کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ کی عادت کی بنا پر ناکامی سے دو چار ہوئے اور جمہوریت کو لے ڈوبے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہوگئے، ایوب خان بالغ رائے دہی کا اصول مان گئے اور اپنے صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام میں تبدیل کرنے پر سو فیصد تیار مگر بھٹو اور بھاشانی نے یہ بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔
1977ء میں پیپلزپارٹی پی این اے کے مابین مذاکرات کو بے اعتمادی اور بے تدبیری لے ڈوبی۔ مارشل لاء کے نفاذ تک سب متفق تھے کہ مذاکرات میں غیر ضروری طوالت، معاہدے کی تدوین و تیاری میں فنی و تکنیکی موشگافیاں اور دونوں کی فوج سے غیر معمولی توقعات نے کام خراب کیا‘ بعدازاں مگر خوب افسانہ نویسی ہوئی ۔سیاستدان معصوم ، سادہ لوح اور پوتر قرار پائے۔ قصور وار فوجی قیادت ٹھہری جو مارچ سے جولائی تک صبرو برداشت کا مظاہرہ کرتی رہی ۔ حتیٰ کہ عوام کے مدمقابل کھڑے فوجیوں نے بدترین دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کردیا اور تین بریگیڈیئرز مستعفی ہوگئے۔ بعض دانائوں کی اب بھی یہی رائے ہے کہ تین کیا تین سو تیرہ فوجی افسر بھی استعفے پیش کردیتے تو فوجی قیادت تماشہ دیکھتی اور فوج و ملک کے بکھرنے کا انتظار کرتی۔
پیپلزپارٹی پی این اے مذاکرات کے حوالے سے پروفیسر عبدالغفور احمد کی کتاب منظر عام پر آئی تو لاہور کے ایک ہوٹل میں تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ اسمبلی ہال کے عقب میں واقع اس تاریخی ہوٹل میں منعقد ہونے والی اس تقریب کی صدارت بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان فرما رہے تھے اور مقررین میں نامی گرامی سیاستدان، صحافی اور دانشور شامل تھے۔ ہرمقرر کی تان اس پر ٹوٹتی کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے مگر جنرل ضیاء الحق نے مداخلت کرکے کھیل بگاڑ دیا۔
جسٹس (ر) عامر رضا خان، ضیاء الحق کے زخم خوردہ تھے، بطور جج پی سی او پر حلف لینے سے انکار انہوں نے کیا اور حکومت پی این اے مذاکرات کے وہ عینی شاہد تھے۔ جسٹس (ر) فخرالدین ابراہیم اور عامر رضا خان دونوں نے پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا، فخرو بھائی کو خوب داد ملی‘ آج تک مل رہی ہے عامر رضا خان خدمت خلق میں جُت گئے۔ عہدہ و منصب کی طلب سے لاپروا، گوشۂ رحمت تک محدود۔مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے۔
جسٹس رضا خان کی باری آئی تو بولے '' میں پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کا قانونی مشیر تھا اور ہر روز طے پانے والے نکات کا آئین و قانون کی روشنی میں جائزہ لے کر ترتیب دینے کا ذمہ دار۔ مذاکراتی ٹیم جب بھی وزیراعظم ہائوس سے لوٹتی‘ قانونی ٹیم کو پیشرفت سے آگاہ کرتی ۔ آخری روز تک بعض نکات تصفیہ طلب تھے کیونکہ اعتماد کا بحران تھا اور نوابزادہ صاحب، مفتی صاحب، پروفیسر صاحب اس بات کے شاکی کہ بھٹو صاحب مذاکرات کو سمیٹنے کی بجائے بلاوجہ طول دیتے چلے جارہے ہیں۔ مذاکرات کب سو فیصد کامیاب ہوئے ؟اور معاہدے پر کہاں کس نے دستخط کیے ؟ ذرا مجھے بھی بتادیجیے ورنہ اس قدر غلط بیانی نامی گرامی سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتی‘‘ ہال تالیوں سے گونج اٹھا‘ کتاب کے مصنف اور صدر مجلس ایک دوسرے کی طرف دیکھا کیے۔
اس سال ستمبر میں بھی ایک مرحلے پر اسحاق ڈار اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے پانچ نکات پر اتفاق رائے کی نوید سنائی تھی،1971ء کے بھٹو مجیب مذاکرات کی طرح جن میں ساڑھے پانچ نکات پر اتفاق کا مژدہ سنایاگیا مگر صرف آدھے نکتے پر اختلاف پاکستان کی تقسیم کا باعث بن گیا۔اگر یہ مان لیا جائے کہ اسحاق ڈار اور شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مذاکراتی ٹیموں نے پانچ نکات طے کرلیے تھے، صرف وزیراعظم کا استعفیٰ کامیابی میں رکاوٹ بنا تو پھر موجودہ مذاکراتی ٹیم کو کچھ زیادہ نہیں کرنا۔ طویل بحث و مباحثے کی ضرورت نہ تکرار و انکار کا اندیشہ۔ مذاکراتی ٹیم نے پرانے مسودے کی نوک پلک درست کرکے اپنے اپنے لیڈروں کی رضا مندی حاصل کرنی ہے۔ استعفے کا ایشو ایجنڈے پر موجود ہی نہیں۔ ایک نہیں تو دو دن میں معاہدہ طے پاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو دن مزید قانونی مشاورت کے لیے درکار ہوں گے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ یا حکومت اور حقیقی اپوزیشن میں سمجھوتہ طے پانے کے بعد جوڈیشل کمشن کی تشکیل سب کی خواہش ہے، باقی کام جوڈیشل کمشن کے کرنے کا ہے‘ جس کی تشکیل کے بعد عمران خان احتجاجی تحریک معطل کرنے پر خوش دلی سے راضی ہیں لیکن اگر اس سب کے باوجود مذاکرات شیطان کی آنت کی طرح پھیلے دھاندلی کے لفظ پر لایعنی بحث ہوئی۔ پانی میں مدھانی چلی اور نکتہ سنجی بالآخر شکر رنجی میں بدلی اور دونوں فریق کسی با مقصد آبرو مندانہ سمجھوتے پر نہ پہنچے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ دال میں کہیں نہ کہیں کالا ہے۔ مذاکرات محض ڈھونگ ہیں، عوام اور مقتدر قوتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کارروائی۔
تیس پینتیس حلقے کھول کر بآسانی پتا چلایا جاسکتا ہے کہ دھاندلی کے الزامات میں کس قدر صداقت ہے ؟ اور 2013ء کا مینڈیٹ اصلی ہے یا جعلی ؟ مذاکرات کی کامیابی قومی مفاد میں ہے اور ناکامی کا یہ ملک متحمل ہوسکتا ہے نہ جمہوری نظام۔ اپوزیشن کا کام تو جاری ہے۔ جلسے جلوس، ہڑتالیں اور تندو تیز بیان بازی۔ حکومت جمود کا شکار ہے ،کاروبار سلطنت معطل اور نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیت سے دوچار۔ گزشتہ روز خبر شائع ہوئی کہ پی ایس او نے پی آئی اے کوادائیگی کے بغیر تیل کی سپلائی سے انکار کردیا۔ گردشی قرضے ایک بار پھر پانچ سو ارب تک پہنچ چکے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 62ڈالر کی کم ترین سطح پر آجانے کے باوجود حکومت مقامی مارکیٹ میں تیل کے نرخ 2006ء کی طرح 56روپے کرنے سے قاصر۔ حالانکہ یہ تقاضائے انصاف اور مارکیٹ اکانومی کی شرط ہے۔
مزید کھینچا تانی کا نقصان حکومت کو زیادہ ہے۔ تحریک انصاف پر زیادہ سے زیادہ موسم کا دبائو ہے۔ کسی دن عمران خان نے جی کڑا کرکے دھرنا ختم اور احتجاجی لے تیز کردی تو حکومت کو لگ سمجھ جائے گی۔ فیصل آباد میں حکومت نے فارسی محاورے کے مطابق نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ کا سامنا کیا۔15دسمبر تک معاملات طے نہ ہوئے تو لاہور کی بندش رہی سہی ساکھ تباہ کردے گی جس کا احساس میاں صاحب کے جھگڑالو مشیروں کو ہوناچاہیے۔ جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے بعد حکومت کی ایگزٹ پالیسی کیا ہوگی؟ ابھی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ تھیلا تو جس حلقے کا کھلا‘ ردی کا ڈھیر برآمد ہوگا۔ ردی کا وزن البتہ مختلف ہوسکتا ہے کہیں چالیس کلو تو کہیں صرف دس کلو۔ نتیجہ معلوم !۔