تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-12-2014

بھارتی شرارت کا اندیشہ

سپین کی ایک مثال ہے اور پاکستان دشمن بھارتی دانشور اس کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقتدار کی ہوس نے‘ اس کے بے تاب آرزو مندوں کی باہمی کشمکش نے ملکوں اور قوموں کو بارہا برباد کیا ہے۔
اپنے جنون کو ہمیں تھامنا چاہیے کہ بھارتیوں پر وحشت سوار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ خود شکنی کا اب اختتام ہونا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ معقولیت آخر کار غالب آ گئی اور مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ دونوں طرف سے مگر اشتعال کا اس قدر مظاہرہ ہوا کہ عناد پیدا ہو چکا اور اسے تحلیل کرنا ہو گا۔ عزم اگر موجود ہو تو ہو جایا کرتا ہے۔ اقتدار کے حریص‘ حکمران یا اس کے آرزو مند نارمل لوگ نہیں ہوا کرتے۔ ایک طرح کے ذہنی عدم توازن میں وہ مبتلا ہوتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے Obsession کا لفظ برتا جاتا ہے‘ خبط۔ ایک خبطی سے اس کے سوا کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ اپنی خواہش کو ہر چیز پر وہ مقدم رکھے بلکہ گردوپیش پھیلی‘ وسیع و عریض زندگی کو اسی آرزو کے سیاق و سباق میں دیکھے‘ شاعر جیسے دنیا کو ایک قتالہ کے حوالے سے جانچتا ہے۔ جس طرح عاصمہ جہانگیر پاکستان کا مطالعہ بھارت اور مغرب کی نگاہ سے کرتی ہیں۔ 
جب آدمی ایک خبط میں مبتلا ہوتا ہے‘ دولت یا شہرت کی تمنا‘ کسی منصب کی خواہش یا مقبولیت کی‘ تو حیات کے باقی سب تقاضے اس کے لیے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ عمران خان پوری سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ 2013ء کا الیکشن وہ جیت رہے تھے۔ ہرگز نہیں۔ اخبار نویسوں میں اس ناچیز سے زیادہ کون ان کا ہمدرد تھا۔ ساری دنیا کو ناراض کر کے زندگی کے‘ اپنی زندگی کے بہترین اٹھارہ برس میں نے ان کو دیئے تھے۔ اس پر مگر قائل نہ 
کر سکا کہ جن کی سفارش پر وہ ٹکٹ دے رہے تھے‘ ان میں سے اکثر خودغرض ہیں یا بدعنوان۔ اس ناچیز کی بات کپتان ہمیشہ مان لیا کرتا ہے لیکن اکثر بعد از وقت‘ مثلاً 1996ء میں اسے الیکشن کے بائیکاٹ اور 2002ء میں ریفرنڈم کی حمایت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ 1996ء میں سال بھر وہ الیکشن میں شرکت کی وکالت کرتا رہا‘ ریفرنڈم پر اپنی غلطی کا احساس البتہ چند ہفتے بعد ہی ہو گیا۔ شیخ رشید کی رفاقت‘ اپنی پارٹی میں جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی اور دہشت گردی پر بھی اپنے خیرخواہوں کا مؤقف بالآخر اسے تسلیم کرنا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس وقت چڑیاں شاید کھیت چگ گئی ہوں گی۔ یہ سطور اس کی مذمت یا اپنی مدح کے لیے ہرگز نہیں‘ دو وجوہ سے لکھی ہیں۔ ایک تو خاکسار نے بھی کہہ دیا تھا کہ ایسی پہاڑ سی غلطیوں کے بعد وہ جیت نہیں سکتا‘ ثانیاً تحریک انصاف کے ان جواں سال کارکنوں کے لیے‘ جو یہ چاہتے ہیں کہ اخبار میں تنقید کرنے کی بجائے‘ عملاً یہ حقیر اس کے مشیر کا کردار ادا کرے۔ میں بھر پایا حضور‘ مگر ایسا بھی نہیں کہ غم پالوں اور غیر ضروری طور پر تنقید کروں۔ اس کا دم غنیمت ہے وگرنہ شریف خاندان معلوم نہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا‘ جس کے سربراہ کا ارشاد یہ ہے کہ پاکستان رہنے کے لیے موزوں ملک نہیں بس حکمرانی کے لیے۔ جن لوگوں نے اس چمن کو بگاڑ کر جنگل بنایا ہے‘ وہی اب اس کی بدوضعی کا گلہ کرتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ الطاف حسین‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی وغیرہ وغیرہ۔ گرد بیٹھ 
چکی اور منظر کھلا تو معلوم ہوا کہ محمود اچکزئی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ قول انہوں نے سچ کر دکھایا کہ طاقت اور دولت آدمی کو بدلتی نہیں‘ بے نقاب کرتی ہے۔ 
عسکری قیادت؟ سب سے زیادہ ذمہ دار وہی ہے۔ 1958ء‘ 1968ء‘ 1977ء اور 1999ء‘ ہر دس سال کے بعد مارشل لاء۔ نسبتاً مقبول اور نسبتاً کارگر لیڈروں کو معزول کر کے‘ سستے سیاستدانوں کو شریکِ اقتدار کرنے کا عمل۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ شاعر‘ منتظم کا اور منتظم شاعر کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ ہر آدمی کو ایک صلاحیت اللہ عطا کرتا ہے اور ہر آدمی کا پیشہ‘ اس کے فطری میلانات میں گوندھ کر مقدر کر دیا جاتا ہے۔ انتظار حسین کو افسانہ نگار ہی ہونا تھا۔ ساری دنیا مل کر بھی اس رومان پسند کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتی تھی۔ کتنے ہی نوجوان ہیں‘ جو ایم بی بی ایس کی ڈگریاں حاصل کرتے اور سول سروس کا امتحان دے کر افسر ہو جاتے ہیں۔ وقت برباد‘ روپیہ برباد۔ میٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی طالب علم کے پیشے کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی لوگ اس مقصد کے لیے ایک ادارہ بنانے کے آرزو مند ہوں تو اس آدمی کے گھر کا راستہ عرض کر دوں گا‘ جو اس فن کا منتہی ہے۔ 
اگر کچھ لوگ عسکری قیادت کو مارشل لاء نافذ کرنے کا مشورہ دیں تو سنی ان سنی ہی نہ کریں بلکہ پوری طرح ان کی حوصلہ شکنی۔ آج جس کشمکش سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس سے سیکھ کر ہمیں آگے بڑھنا اور ایک نظام تشکیل دینا ہے۔ جنرل کیانی کا اللہ بھلا کرے‘ یہ سبق اپنے ساتھیوں کو انہوں نے خوب ازبر کرا دیا کہ جتنے مسائل مارشل لاء حل کرتا ہے‘ اس سے زیادہ پیدا کر دیتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت غیر معمولی ہے‘ ملک کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ ضرب عضب کے بعد امریکہ میں ان کی بے پناہ پذیرائی نے انہیں بہت طاقتور بنا دیا ہے۔ ان کی خدمت میں البتہ ایک گزارش ہے: آپ کی تکریم‘ آپ کی اخلاقی برتری کے طفیل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مارشل لاء نافذ کرنے کا ہرگز وہ ارادہ نہیں رکھتے۔ ایسا ہو تو قرائن دکھائی دیا کرتے ہیں۔ اکسانے والے مگر باز نہیں آیا کرتے۔ جنرل کیانی نے صبر کیا اور تکریم پائی۔ جنرل راحیل شریف پر قدرت ان سے بھی زیادہ مہربان ہوئی۔ اس قدر محبت ان کے حصے میں آئی ہے کہ ایک عالم حیرت زدہ ہے۔ بدگمانی یا اشارۂ ابرو پر حرکت میں آنے والے ابھی سے افواہوں پر اتر آئے کہ امریکہ میں پسندیدگی کا مطلب‘ منصب کے مہ و سال میں توسیع ہوا کرتا ہے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے‘ بدکلامی کرنے والے کی زبان نہیں۔ یہ ناچیز عینی شاہد ہے کہ جنرل کیانی نے توسیع قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مجھ سمیت کتنوں نے منت سماجت سے آمادہ کیا۔ سب سے بڑھ کر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے۔ آج بھی اس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ 
بھارت سے خبر آئی ہے کہ مسلمانوں کو ہندو بنایا جا رہا ہے۔ اس پر مفصل اظہار خیال انشاء اللہ جلد ہی۔ ایک اور بڑا اندیشہ ہے۔ افغانستان میں قدم گاڑ کر پاکستان کو سینڈوچ بنانے کا بھارتی منصوبہ ناکام ہو گیا۔ امریکیوں کو ادراک ہوا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ اسی لیے چین کو بھی ایک کردار انہوں نے سونپا۔ بھارتی یہ گوارا نہ کر سکیں گے۔ اس لیے کہ پاکستان کو تحلیل اور تباہ کرنا ان کا خواب ہے‘ کم از کم منتشر اور کمزور رکھنا۔ عالمی سطح پر اسرائیل ان کا ہم نوا ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی اس کا مقابلہ کرنے کا اہل ہے‘ تو وہ یہی ملک اور یہی فوج ہے۔ خیال یہ ہے کہ صدر اوباما کے دورۂ بھارت کے بعد‘ وہ مشرقی سرحدوں پر مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ فی الحقیقت کئی ماہ پہلے سے آغاز وہ کر چکا۔ اندرونی محاذ پر بھی اگر کشمکش رہے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ 1971ء میں یہی ہوا تھا۔ عمران خان اور اس کے حامیوں کو یہ نکتہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ محترم میاں صاحب کو بھی‘ جناب شہباز شریف‘ اسحق ڈار اور چودھری نثار علی خان کو بھی۔ پرویز رشید تو ایک غیر ذمہ دار سا آدمی ہے‘ بچہ سا۔ میاں صاحب کو ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنی چاہیے۔ 
عمران خان اور میاں محمد نواز شریف دونوں کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وگرنہ عوام اور تاریخ ہی نہیں‘ اللہ کی بارگاہ میں بھی وہ مجرم ٹھہرائے جائیں گے ع 
حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں 
سپین کی ایک مثال ہے اور پاکستان دشمن بھارتی دانشور اس کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقتدار کی ہوس نے‘ اس کے بے تاب آرزو مندوں کی باہمی کشمکش نے ملکوں اور قوموں کو بارہا برباد کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved