تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-12-2014

امجد صاحب اور گجرات یونیورسٹی کا مشاعرہ

ایک ہمدمِ دیرینہ معیزالدین احمد نے ساہیوال سے فون پر یاد دلایا کہ مجید امجد پتلون کے کپڑے (کارڈرائے) کا پرمٹ بھی دیا کرتے تھے اور انہوں نے خود بھی اس طرح سے ایک پتلون سلوائی تھی۔ پھر یاد آیا کہ اس زمانے میں تو چینی‘ مٹی کا تیل‘ ڈالڈا گھی اور کوئلہ تک پرمٹ کے بغیر دستیاب نہیں تھا۔ بہرحال مقصد امجد صاحب کا ذکرِ خیر تھا۔ ان کی تعزیت کے حوالے سے جو اجتماع ہوا اور اس میں‘ میں نے جو چند اشعار پیش کیے تھے‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھا ؎ 
تری یاد میں جلسۂ تعزیت 
تجھے بھول جانے کا آغاز تھا 
یہ شعر میرے ریکارڈ اور یادداشت میں نہیں تھا بلکہ چند سال پیشتر مرحوم کی ایک برسی کے موقعہ پر لکھے گئے کسی کالم میں یہ ذکر تھا کہ اس موقعہ پر پیش کیے گئے ہدیۂ اشعار میں ظفر اقبال کا یہ شعر بھی تھا۔ میرے آوارہ اشعار میں سے اگر کوئی کہیں سے بازیاب ہو جائے تو میں اس زمین میں نئی غزل لکھنے کا تردد کرتا ہوں؛ چنانچہ نئی غزل میں یہ شعر تھوڑے سے تصرف کے ساتھ تھا‘ یعنی ؎ 
مری یاد میں جلسۂ تعزیت 
مجھے بھول جانے کا آغاز تھا 
اسی طرح محبی عابد فاروق نے بھی میری ایک گم شدہ غزل کا یہ شعر سنایا ؎ 
بہت زیادہ ضروری ہے مچھلیوں کی طرح 
یہ رات دن مری آنکھوں کا آب میں ہونا 
چنانچہ اس شعر کی خاطر بھی نئی غزل کا تکلف کرنا پڑا۔ 
امجد صاحب کے لیے میرا ایک اور شعر بھی کچھ اس طرح سے ہے: 
جہاں پہ قبر ہے زندہ مجید امجد کی 
سلام کرنا اُسے جھنگ سے گزرتے ہوئے 
معیز الدین احمد صاحبِ کتاب شاعر مولانا عظامی کے صاحبزادے ہیں جو علامہ اقبال کے استاد مولانا گرامی کے شاگردِ رشید تھے۔ 
ناجی صاحب کا بھی ان وقتوں میں ساہیوال ہی میں قیام تھا۔ ''شہرِ غزل‘‘ میں جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں‘ صاحبِ موصوف کی غزلیں اور تصویر بھی شامل تھی۔ امجد صاحب کے ساتھ ان کا تعلق زیادہ قریبی شاید اس لیے بھی تھا کہ دونوں جھنگوی تھے‘ اگرچہ اس وقت تک لشکرِ جھنگوی متعارف نہ ہوا تھا! 
یہ سطور زیر تحریر تھیں کہ ہمارے دوست اور شاعر طارق کریم کھوکھر نے‘ جو نارووال کے اے ڈی سی ہیں‘ مجھے فون پر گجرات یونیورسٹی میں ہونے والے مشاعرے میں شرکت کے لیے دوسری بار پھانسنے کی کوشش کی اور جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ مجھے اس ضمن میں شاعرہ حمیدہ شاہین کو بھی ساتھ لے کر جانا تھا۔ ان کے لیے منہ بولی کہنا تو کچھ مناسب نہ ہوگا البتہ انہیں میری معنوی بیٹی ضرور کہہ سکتے ہیں۔ آپ کُلیۃ البنات ڈگری کالج میں تدریسی فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ میرے اس سوال پر کہ آپ وہاں کون سا مضمون پڑھاتی ہیں‘ بتایا کہ اب وہ وائس پرنسپل ہیں اور پڑھاتی وڑھاتی نہیں ہیں۔ اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ایک صاحب باتیں کرنے والا طوطا خریدنے کے لیے طوطوں کی دکان پر گئے‘ جنہیں تین طوطے بطور خاص دکھائے گئے‘ جن کی قیمت دو ہزار‘ پانچ ہزار اور دس ہزار تھی۔ قیمت زیادہ ہونے کی وجہ پوچھنے پر دکاندار نے بتایا کہ دو ہزار قیمت والا طوطا کمپیوٹر پر کام کر سکتا ہے جبکہ پانچ ہزار قیمت والے طوطے کی خوبی یہ ہے کہ کمپیوٹر خراب ہو جائے تو یہ اسے ٹھیک کر سکتا ہے۔ 
''اور‘ یہ دس ہزار والا طوطا؟‘‘ اُن صاحب نے پوچھا تو دکاندار بولا: 
''یہ کرتا کراتا کچھ نہیں‘ باقی سارے طوطے اسے ''باس‘‘ کہتے ہیں!‘‘ 
سو‘ میں نے کہا کہ اگر آپ کالج کی وائس پرنسل ہو گئی ہیں تو آپ کو درس و تدریس میں سر کھپانے کی واقعی کیا ضرورت ہے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ اپنے شوہرِ نامدار‘ جو واقعی نامدار ہیں‘ شاعر‘ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن کے ساتھ راوی کے پل پر منتظر تھیں‘ جنہیں ساتھ لیا اور منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ 
اب تو سٹیج پر باقاعدہ صوفوں یا کرسیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ مشاعرے حسبِ روایت فرشی ہوا کرتے تھے اور جوتے اُتار کر سٹیج تک پہنچا جاتا۔ ایک بار اختتامِ مشاعرہ پر استاد احسان دانش نے جب اپنا جوتا تلاش کرنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تو خالد احمد بولے: 
''استاد‘ آپ جوتا تلاش کر رہے ہیں یا پسند کر رہے ہیں؟‘‘ 
فرشی مشاعرے میں شرکت‘ ہم جیسوں کے لیے‘ انور مسعود کی نظم ''بَنین‘‘ والا معاملہ ہی ہے کہ اول تو آپ فرش پر بیٹھ ہی نہیں سکتے اور اگر بیٹھ جائیں تو اٹھ نہیں سکتے۔ انور مسعود اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف فرما تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ اہلِ زبان ہیں اور ان کے گھر میں اردو ہی بولی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ ان کے بچے بھی اردو ہی میں بات کرتے ہیں۔ البتہ ایک دفعہ ان کے ایک بچے نے باقاعدہ پنجابی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ فیصل آباد میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے تو استقبال پر اُن کے گلے میں ایک بہت بڑا ہار ڈال دیا گیا جس میں کاغذ کے رنگا رنگ اور خوشنما پھول بھی موجود تھے‘ اور وہ ہار اس قدر طویل تھا کہ باقاعدہ ان کے ٹخنوں تک آ رہا تھا۔ میں نے نیچے نظر ڈالی تو اس پر لکھا تھا ''شادی مبارک‘‘! یہ سن کر اُن کا بیٹا بولا: 
''فیر تسیں کلّے ای گھر آ گئے؟‘‘ (پھر آپ اکیلے ہی گھر آ گئے؟) 
دریائے چناب کے پل سے گزرتے ہوئے ضمیر جعفری مرحوم کا یہ شعر بہت یاد آیا ؎ 
کچھ روز گزارے ہیں گجرات میں ہم نے بھی 
دریائے چناب اول، دریائے چناب آخر 
لیکن ا ب تو اس کی حالت ہمارے راوی سے بھی ابتر ہو چکی ہے یعنی پانی کی بجائے اب وہاں صرف خاک اڑتی ہے‘ اس سلسلے کا ایک میرا بھی شعر دیکھیے ؎ 
موڑ کر دریا کو دشمن لے گئے اپنی طرف 
اور، اِدھر روئے زمیں پر داغِ دریا رہ گیا 
اسی طرح ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے ہم نے ہوائی جہاز میں اسلام آباد جانا تھا تو فوکر جہاز تھا اور چلتے ہوئے اس نے ٹیکسی کرنے میں ہی بہت دیر لگا دی تو ہم میں سے کسی نے پوچھا: 
''یہ اسلام آباد کتنی دیر میں پہنچے گا؟‘‘ تو مرحوم گلزار وفاؔ چودھری جو بلا کے بذلہ سنج تھے‘ بولے: 
اگر وزیرآباد والا پھاٹک کھلا مل گیا تو کوئی دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ وزیرآباد چاقو چھریوں کے علاوہ منو بھائی کے لیے بھی مشہور ہے۔ ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کی بیوی بھی آپ کو منو بھائی ہی کہتی ہیں؟ تو بولے: 
''نہ صرف کہتی ہے بلکہ سمجھتی بھی ہے!‘‘ 
اس خوبصورت تقریب میں داد کے دوران کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے طلبہ اور طالبات کے علاوہ انور مسعود‘ عباس تابش‘ شاہین عباس‘ ادریس بابر‘ ڈاکٹر شہزاد نیر‘ تہذیب حافی‘ تیمور حسن‘ رحمن فارس اور دیگران شامل تھے۔ واپسی پر حمیدہ شاہین کو اسی جگہ ان کے میاں کے سپرد کیا جہاں سے انہیں لیا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں کسر صرف یہ رہ گئی کہ طارق کریم کھوکھر اپنی منصبی مصروفیات کی بنا پر شریک نہ ہو سکے۔ یار زندہ صحبت باقی! 
آج کا مقطع 
ایک اُلجھن میں پڑے رہتے ہیں دن رات، ظفرؔ 
اور اس کام سے رخصت بھی نہیں چاہتے ہم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved