تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     12-12-2014

بسم اللہ! تم نے میرا پائوں مَسل دیا

1940ء میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو لاہور میں جمع کیا تھا اور مسلمانوں نے یہاں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ بن کے رہے گا پاکستان... بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ اور پھر پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ کے نعروں کی فضا میں 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا... پھر اسی مقام پر ''مینارِ پاکستان‘‘ بنایا گیا۔
4، 5 دسمبر 2014ء کو ''نظریۂ پاکستان‘‘ کے احیاء کے لئے ''جماعۃ الدعوۃ‘‘ کے زیراہتمام اجتماع کا انعقاد ہوا۔ لاکھوں لوگوں نے اس اجتماع میں شرکت کی... میرا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہے جن کے سروں پر تقریر کا بھی بوجھ ہوتا ہے... اور جب کسی کے ساتھ بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی توقعات بھی ہوں تو یہ بوجھ اور بڑھ جاتا ہے... چنانچہ میں نے سوچا کہ حضرت ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب پڑھتا ہوں۔ اس کتاب کا نام ''سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ‘‘ ہے۔ اس میں اپنے موضوع سے متعلق احادیث دیکھتا ہوں تاکہ خطاب کا حق ادا ہو سکے مگر دن گیارہ باقی ہیں اور ''سلسلہ‘‘ کی جلدیں بھی گیارہ ہیں۔ 4035احادیث ہیں، یہ کام کیسے ہو گا؟ 
میں نے اپنے اللہ کا مبارک نام لے کر کام شروع کر دیا۔ اندازاً گیارہ دنوں میں ہر حدیث میری نظروں کے سامنے سے گزر گئی۔ شرح صرف اس حدیث کی پڑھی جو میرے موضوع سے متعلق تھی... اس دوران مولانا شمشاد سلفی صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے دو تین احادیث پر گفتگو شروع کی تو البانی صاحب کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ میں نے شیخ البانی کو آج کے دور کا ''امام بخاری‘‘ کہہ دیا۔ مولانا سلفی صاحب فرمانے لگے، امام بخاری رحمہ اللہ کا مقام بڑا بلند ہے پھر ان کے دور میں علم کے ذرائع بھی محدود تھے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے سامنے علم کے تمام دفاتر موجود تھے۔ میں نے کہا‘ اچھا تو پھر آپ شیخ البانی کو کیا کہیں گے؟ فرمانے لگے، میں انہیں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہوں گا... میں نے ان سے اتفاق کر لیا۔
ابن حجر حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی شرح لکھی۔ اس کا نام ''فتح الباری‘‘ رکھا یعنی باری تعالیٰ ان کا سلسلہ کھولتے چلے گئے اور شرح بنتی چلی گئی۔ حضرت حافظ عسقلانی رحمہ اللہ کی شرح کو شرح کی کتابوں میں وہی مقام حاصل ہے جو صحیح بخاری کو حدیث کی کتابوں میں حاصل ہے، لہٰذا میں نے آج کے حافظ ابن حجر عسقلانی یعنی شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی گیارہ جلدوں کے حامل ''سلسلہ صحیحہ‘‘ پر کہ جس کی ہر حدیث صحیح ہے... نظر ڈال لی، چند موتی سمیٹ لئے اور اجتماع کے لاکھوں سامعین کی جھولیوں میں ڈالنے کا عزم کر لیا۔ 
چار دسمبر کو فجر کی نماز پڑھ کر ذرا آنکھ لگی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا سلسلہ کتابی صورت میں میرے سامنے ہے۔ اس کے اردگرد پھولوں کی لڑی بنی ہوئی ہے اور میں حضرت البانی رحمہ اللہ کے لئے مسنون الفاظ اپنی زبان سے بول رہا ہوں... اے اللہ! ان کو بخش دے، رحم فرما دے، ان کو عافیت عطا فرما دے۔ ان کی مہمان نوازی باکمال فرما دے، اور ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی... اب چار دسمبر کو عشاء کی نماز کے بعد پہلا خطاب مجھ گناہ گار کا تھا۔ میں نے اپنے خطاب کا آغاز ''سلسلہ‘‘ یعنی لڑی میں پروئے ہوئے جس موتی سے کیا اور جو پھول سامعین کی جھولی میں ڈالا، وہ ایسا پھول تھا کہ جسے دیکھ کر میں آنسوئوں کی لڑیاں پروتا رہا۔ اسے اب قارئین کی جھولی میں ڈالنے لگا ہوں۔
میرے پیارے رسول کریمﷺ کے اردگرد اجتماع ہو گیا، یعنی لوگ ہی لوگ جمع ہو گئے... مگر یہ اجتماع اس وقت ہوا جب اللہ کے پیارے رسول کریمﷺ مکہ فتح کرنے کے چند دن بعد حنین کا میدان بھی فتح فرما چکے تھے... ''جِعِرّانہ‘‘ کے مقام پر موجود تھے، دشمن فوج بھاگ چکی تھی، اس کا جو سامان ہاتھ لگا وہ بہت زیادہ تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں اونٹ، گائیں، بھیڑیں، بکریاں اور جنگی سازوسامان تھا... اللہ کے رسولﷺ یہ سامان تقسیم فرما رہے تھے، نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگ جو دیہاتی تھے، آگے سے آگے بڑھ رہے تھے تاکہ وہ مال غنیمت سے پیچھے نہ رہ جائیں... اس دوران میں اللہ کے رسولﷺ کی چادر مبارک بھی فضا میں اچھلی اور درخت پر لٹک گئی... معلوم ہوتا ہے حضورﷺ کے مبارک جوتے بھی پائوں سے پھسل گئے اور حضورﷺ کے قدم مبارک نعلین مبارک کے بغیر ہو گئے... پھر کیا ہوا، وہی واقعہ جو سنانے چلا ہوں، امام دارمی اسے لائے ہیں اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے اپنی سنہری لڑی یعنی ''سلسلہ‘‘ میں پرویا ہے۔
ایک دیہاتی شخص خود بتلاتا ہے کہ میرے پائوں میں سخت قسم (غالباً لکڑی) کا جوتاتھا۔ چنانچہ ''فَوَطِئْتُ عَلیٰ رِجْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ بے خیالی میں اللہ کے رسولﷺ کے پائوں مبارک کو مسل دیا... اللہ کے رسولﷺ کے ہاتھ مبارک میں کوڑا تھا۔ آپﷺ نے کوڑے سمیت اپنا ہاتھ مبارک مجھے لگاتے ہوئے دھکیلا اور فرمایا! ''بِسْمِ اللّٰہِ اَوْجَعْتَنِی‘‘ اللہ کے نام کے ساتھ... تم نے تو مجھے درد دے دیا (میرا پائوں مسل دیا)۔
قارئین کرام! حضورﷺ کے اس جملے نے مجھے بڑا ہی رلایا، کس قدر عظیم اخلاق ہے میرے رسولﷺ کا اور کس قدر تعلق ہے اپنے مولا کریم سے... کہ میرے حضورﷺ کا ننگا پائوں مبارک ایک سخت جان دیہاتی نے اپنے سخت اور درشت جوتے سے مسل دیا اور کچل کے رکھ دیا ہے اور حضورﷺ بسم اللہ کہہ کر... اپنے اللہ کا نام لے کر اسے پیچھے ہٹا رہے ہیں... اب ذرا آگے مزید سنئے۔
وہ دیہاتی کہتا ہے کہ میں رات کو جب لیٹا (یعنی جِعرانہ کے میدان میں مجاہدین نے جو خیمے لگا رکھے تھے، وہاں سونے لگا تو اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا اور اپنے آپ سے کہنے لگا کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو درد دیا ہے۔ بہرحال! اللہ ہی جانتا ہے کہ میری وہ رات کس کرب میں گزری... جب ہم صبح اٹھے تو ایک آدمی اعلان کر رہا تھا کہ وہ بندہ کون ہے (جس نے اللہ کے رسولﷺ کا پائوں مسلا ہے) میں آگے ہوا اور کہا وہ میں ہی ہوں جس سے کل غلطی ہوئی تھی، اب میں اس کے ساتھ چلنے لگا اور دل ہی دل میں ڈر رہا تھا (کہ اب نہ جانے کیا ہو گا، شاہِ عربﷺ کو میں نے درد دیا ہے) مگر جب میں اللہ کے رسولﷺ کے سامنے گیا تو آپﷺ نے مجھ سے فرمایا! ''تم نے اپنے جوتے کے ساتھ کل میرا پائوں مسل دیا تھا، مجھے بڑی درد ہوئی تھی لہٰذا میں نے تمہیں ہلکا سا کوڑا لگا دیا تھا، یہ 80عدد دنبے، دنبیاں تمہارے لئے ہیں۔ ''فَخُذْھَا بِھَا‘‘ اُس کوڑے کے بدلے میں یہ سب لے لو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved