تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-12-2014

کب تماشا ختم ہوگا؟

امرِ واقع یہ ہے کہ دھاندلی تو ہوئی ہے۔ کتنے حلقوں میں ہوئی ہے؟ انفرادی طور پر ہوئی ہے یا اجتماعی طور منظم منصوبہ بندی سے ہوئی ہے؟ دھاندلی ہوئی ہے یا دھاندلا ہوا ہے؟ یہ چیزیں شاید کبھی ثابت نہ ہو سکیں کہ بہت سے ثبوت ضائع ہو چکے ہیں‘ کر دیے گئے ہیں یا انہیں ثابت کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا؛ تاہم جو شخص اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے وہ یا ''ن لیگی‘‘ ہے یا پھر سیاسی بددیانت ہے۔ حکومت کا دھاندلی کی تحقیقات سے پس و پیش ہی سارے معاملے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ 
اس بات پر بحث سوائے بدنیتی کے اور کچھ نہیں کہ فلاں چیز آئینی ہے اور فلاں غیر آئینی۔ فلاں چیز کی آئین میں گنجائش ہے اور فلاں چیز کی آئین میں گنجائش نہیں۔ آئین‘ نظامِ ریاست چلانے کے لیے ایک سہولت کار دستاویز ہے اور معاملات کو سلجھانے کے لیے شاید آخری دنیاوی طریقہ کار بھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے مسائل کے مطابق اس میں ترامیم ایک ایسا ''آئینی طریقہ کار‘‘ ہے جو بذات خود آئین کا حصہ ہوتا ہے اور اسی طریقہ کار کے مطابق آئین میں ضرورت اور حالات کے مطابق ترمیم کر لی جاتی ہے۔ خود آئین پاکستان میں اب تک بیس ترامیم ہو چکی ہیں۔ پہلی سات ترامیم تو خود اس آئین کا خالق ہونے کے دعویدار ذوالفقار علی بھٹو نے کیں۔ آٹھویں اور سترھویں ترامیم جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے کیں جن سے سارا آئین ہی بگڑ گیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے جمہوری حکمرانوں نے تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کی اور بقیہ دو ترامیم بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی‘ الیکشن کمشن کے معاملات اور آزادانہ الیکشن کے بارے میں تھیں۔ اگر حکومت کے دل میں چور نہ ہوتا تو وہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم اور موجودہ جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے متفقہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ جوڈیشل کمشن اور متنازعہ حلقوں کو کھولنے جیسے معاملات پر اکیسویں ترمیم لا بھی سکتی تھی اور منظور بھی کروا سکتی تھی مگر دل کا چور اور نیت کی خرابی کا کوئی علاج نہیں۔ 
یہ بات درست ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں عمران خان سے بے شمار سیاسی حماقتیں سرزد ہوئیں اور سنجیدہ طبقے اس پر اپنے تحفظات بھی رکھتے ہیں مگر دوسری طرف مکمل بدنیتی اور فریب کاری کارفرما رہی۔ عمران نے معاملات درست طریقے سے نہ چلائے مگر دوسری جانب سے سوائے وقت حاصل کرنے اور معاملات کو لٹکا کر ختم کرنے کی پالیسی نے کوئی مسئلہ حل ہی نہ ہونے دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی معاملات اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ عمران خان اگر اپنا مقصد ابھی تک حاصل نہیں کر سکے تو حکمران بھی اب تک سکون کا سانس نہیں لے سکے۔ عمران کی حکمت عملی اگر اب تک اپنے نتائج سے دور ہے تو حکمران بھی معاملات کو لٹکا کر نہ تو اب تک اپنی مشکلات کم کر سکے ہیں اور نہ ہی عمران خان کا پریشر کم کر سکتے ہیں۔ یہ سارا وقت ایک بے نتیجہ کشمکش میں گزرا ہے۔ جہاں احتجاجی اور دھرنے کی سیاست پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان دھرنوں اور جلسے جلوسوں سے ملکی معیشت کو اتنے ارب کا نقصان ہو چکا ہے‘ وہیں یہ بات بھی طے ہے کہ اس سارے معاشی نقصان میں کم از کم پچاس فیصد حصہ حکمرانوں کی بدنیتی اور فریب کاری کا بھی 
ہے کہ وہ اس معاملے کو سلجھا کر ختم کر سکتے تھے مگر وہ دھرنے کی وجوہ کو دور کرنے کے بجائے اس انتظار میں رہے کہ دھرنے والے خود ہی تھک تھکا کر گھر چلے جائیں گے۔ انہتر دن بعد طاہرالقادری گھر کو سدھارے۔ عمران کا دھرنا پھیلتا اور سمٹتا رہا۔ حکمران سردی کے انتظار میں بیٹھ گئے کہ اسلام آباد میں سردی پڑے گی تو دھرنے والے گھروں کو رخصت ہو جائیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ڈی چوک بند تھا‘ اب فیصل آباد‘ کراچی‘ لاہور اور پھر پورا پاکستان اس زد میں آ رہا ہے۔ حکمرانوں نے اپنی حماقتوں سے چار حلقوں کے معاملے کو پوری پارلیمنٹ کی سلامتی سے جوڑ لیا ہے اور ڈی چوک کے احتجاج کو پورے پاکستان میں پھیلا دیا ہے۔ 
کل ایک جگہ پر چار چھ دوست جمع تھے اور موجودہ ملکی صورتحال پر بات ہو رہی تھی۔ عمران کے حامی بھی موجود تھے اور میاں صاحبان کے متوالے بھی۔ تمام لوگ اس بات پر متفق تھے کہ عمران خان سے سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے بڑی غلطیاں ہوئی ہیں مگر دوسری طرف حکمران بھی نیت کی خرابی کے نقطہ عروج پر ہیں۔ بحث اس بات پر تھی کہ آخر اس کا حل کیسے نکل سکتا ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ عمران خان اگر اپنی حکمت عملی درست کر لیں اور اپنے بعض مہم جو ٹائپ مشیروں کے چنگل سے آزاد ہو کر تھوڑا تحمل کا مظاہرہ کریں اور مثبت طریقے سے پریشر بلڈ کر کے قابل عمل مطالبات پیش کریں اور انہیں کچھ ضامنوں کی موجودگی میں حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف دو تین دوستوں کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ عمران خان سے سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے چند نہیں شاید بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہوں مگر اس حکومت سے عقل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کچھ منوانا ناممکن ہے کہ چکر دینے میں‘ وقت ضائع کرنے میں‘ بے مقصد مذاکرات کرنے میں‘ کہہ کر مکر جانے میں اور نیت کی خرابی میں ان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ بھلا ایسے لوگوں سے سیدھے طریقے سے کیا بات کی جا سکتی ہے؟ اور کیا نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ 
چودھری بھکن کا کہنا تھا کہ اگر سکول کی کسی کلاس میں کسی بچے کی کوئی چیز چوری ہو جائے اور استاد کلاس کے سارے بچوں کے بستوں کی تلاشی لینے لگے تو جس بچے نے چیز چوری کر کے اپنے بستے میں نہیں رکھی وہ ازخود بستہ کھول کر ڈیسک پر رکھ دیتا ہے اور جس بچے کے بستے میں چوری کا مال ہو وہ بستہ کھولنے میں پس و پیش کرتا ہے۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو خواجہ سعد رفیق ازخود رضاکارانہ طور پر حلقہ کھولنے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ یا کم از کم عدالتوں میں اپیل کرنے سے ہی باز آ جائیں۔ اسی طرح اپنے سپیکر صاحب اپنا حلقہ کھولنے پر راضی ہو سکتے ہیں۔ الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے تھیلے کھلوانے پر راضی ہو سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کرنے کے بجائے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اگر یہ حضرات واقعتاً پرچیوں کی تعداد کی بنیاد پر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں تو دوبارہ‘ سہ بارہ گنتی سے ڈرتے کیوں ہیں؟ 
چودھری بھکن کہنے لگا‘ پہلے مقابلہ عمران خان کی حماقتوں اور حکمرانوں کی بدنیتی کے درمیان تھا اور بڑا زوردار تھا۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون پہلے نمبر پر ہے لیکن فیصل آباد میں ہونے والے واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ حکمران نہ صرف یہ کہ بدنیت ہیں بلکہ حماقتوں میں بھی نمبر لے گئے ہیں۔ فیصل آباد میں حکمران پارٹی کی حکمت عملی نے ملک کو عملی طور پر خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی ایک نہایت خطرناک کوشش کی ہے۔ حکمران اس معاملے کو سیاسی حکمت عملی سے یا انتظامی طور پر حل کرنے کے بجائے جس خوفناک طریقے سے حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اس سے ایک چیز تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ حکمران کسی سیاسی یا انتظامی فیصلے کی صلاحیت سے عاری بھی ہیں اور اس میں ناکام بھی۔ اور جو طریقہ کار وہ اپنا رہے ہیں وہ تباہ کن بھی ہے اور ان کی نااہلیت کا ثبوت بھی۔ 
اگر کبھی سیاسی حماقتوں کی ''گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ مرتب کی گئی تو موجودہ حکمرانوں کی سیاسی حماقتوں کا درجہ عمران خان کی سیاسی حماقتوں سے کہیں اوپر والے نمبروں میں ہوگا۔ لکھا جائے گا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے شروع ہونے والے معاملے نے بالآخر دو سو بہتر حلقوں اور ستر مخصوص نشستوں والی پارلیمنٹ کو برباد کر کے رکھ دیا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور بیس کروڑ آبادی والے ایٹمی پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے حماقتوں اور ڈھٹائی پر مشتمل سرکس کا نہ ختم ہونے والا ایک ہی شو چلے جا رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved