تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-12-2014

نام میں کیا رکھا ہے

ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور میرے یار دیرینہ میاں محمد صدیق کا میانہ نے ساہیوال سے فون پر کہا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نا م اویس کس خوشی میں رکھا ہوا ہے‘ آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں‘ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اویس کا مطلب بھیڑیا ہے؟میں نے حضرت اویس قرنی کا حوالہ دیا تو بولے کہ ان کا نام تو بعثت اسلام سے پہلے کا ہے‘خیر ‘ اب کیا ہو سکتا تھا۔ میاں صاحب نے میرے ساتھ ہی ایل ایل بی کیا تھا۔ چند سال پہلے عالم یہ تھا کہ ان کے بڑے بیٹے بلال صدیق کامیانہ اوکاڑہ میں ڈی پی او اور چھوٹے خالد صدیق کامیانہ تحصیلدار تھے۔اس پر آفتاب نے پھبتی کسی کہ اگر میاں صاحب کو بھی یہاں ڈسٹرکٹ کونسل وغیرہ میں لگوا دیا جائے تو تینوں باپ بیٹے اکٹھے ہو جائیں گے۔ اوکاڑہ چونکہ کافی زرخیز تحصیل تھی اس لیے خالد صدیق کوئی تین چار بار یعنی جی بھر کے وہاں تعینات رہے اور آخر ان کا تبادلہ فیسکو میں کر دیا گیا۔
نام کے بجائے اویس کو مجھ سے یہ شکایت ضرور رہی کہ وہ چونکہ منجھلا ہے ‘اس لیے اسے پوری محبت نہیں ملی اور اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ مثلاً بچپن میں کہیں آس پاس جانا ہوتا تو میں جنید کو سائیکل کے ڈنڈے پر بٹھا لیتا اور اسے کہتا کہ پیچھے بھاگتے آئو‘ اور ‘ یہ ایک باقاعدہ متھ ہے کہ منجھلے کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ میرے برادر نسبتی قاضی انعام الحق منجھلے تھے۔انہیں بھی شکایت تھی مثلاً یہ کہ انہیں پوری تعلیم نہیں دلوائی گئی۔ حالانکہ شنید یہی ہے کہ پوری تعلیم حاصل نہ کرنے میں ان کا اپنا کردار زیادہ تھا۔ تاہم‘بالعموم یہ پڑھی لکھی فیملی ہے‘ جن میں دو وکیل‘ایک پروفیسر ‘ ایک ڈپٹی اکائونٹنٹ 
جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ایک فارن آفس میں ہیں‘ جو دو چار ملکوں میں سفیر رہ چکے ہیں۔ رضوان الحق بتاتے ہیں کہ ایک دن سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کی بیگم ان کے دفتر آئیں تو ان کی میز پر میری کلیات (اب تک) کی جلد اول پڑی دیکھ کر بولیں‘ یہ یہاں کون لایا ہے؟ رضوان نے بتایا تو وہ کتاب یہ کہتے ہوئے اٹھا کر لے گئیں کہ آپ کو یہ واپس تب ملے گی جب آپ میرے نام لکھی ہوئی یہ کتاب لا کر دیں گے!
اسے آپ ایک نیم سیاسی گھرانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔سب سے چھوٹے بھائی قاضی اکرام الحق بلدیہ دیپالپور کے وائس چیئرمین رہے‘ جبکہ قاضی انعام الحق کے بیٹے ضرغام الحق دو تین بار مقامی بار ایسوسی ایشن کے صدر اور ایک بار پنجاب بار کونسل کے رکن رہے۔1977ء میں‘ میں نے اوکاڑہ سے قومی اور انہوں نے دیپالپور سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا۔ میں نیشنل عوامی پارٹی کا امیدوار تھا اور وہ جے یو آئی (ایف) کے۔ ہم دونوں ہار گئے تھے۔اسی سال کراچی سے جمیل الدین عالی نے بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور ہارے۔اس کے بعد 85ء میری اہلیہ یعنی ضرغام الحق کی پھوپھی نے صوبائی اسمبلی کی خواتین کے لیے مخصوص نشست پر انتخاب میں حصہ لیا اور ایک ووٹ سے ہار گئیں‘ یعنی اگر انہیں میاں منظور وٹو کا ووٹ مل جاتا تو وہ جیت گئی تھیں۔میاں صاحب اگرچہ میرے ذاتی طور پر انتہائی قدر دان تھے اور جب ان 
کے ساتھ میرا پہلا تعارف ہوا تو میرے کئی اشعار انہیں زبانی یاد تھے ،اصل بات یہ ہوئی کہ میاں زمان میرے رشتے دار تھے‘ جو وٹو صاحب کے مخالف دھڑے سے تعلق رکھتے تھے۔لطیفہ یہ ہے کہ جب نتیجہ آیا تو آفتاب نے کہا کہ امی اچھا ہوا کہ آپ ہار گئیں ورنہ رانا پھول خان کے ساتھ آپ کا سکینڈل مشہور ہو جانا تھا!(ہمارے گھر کی شروع سے ہی ایسی بے تکلفانہ فضا رہی ہے)
میرا مقابلہ ڈسٹرکٹ پیپلز پارٹی کے صدر رائو خورشید علی خاں کے ساتھ تھاجبکہ میں نے بھی کچھ عرصہ پہلے ہی پارٹی چھوڑی تھی۔ مجھے ٹکٹ دلانے میں کامریڈ عبدالسلام پیش پیش تھے جو کہ ستلج کاٹن ملز کی مزدور یونین کے صدر اور سینئر اخباری رپورٹر تھے۔نیشنل عوامی پارٹی پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھی جس میں مسلم لیگ ‘جماعت اسلامی اور کئی دیگر دینی جماعتیں بھی شامل تھیں،لاہور سے میرے جلسوں میں تقریریں کرنے کے لیے دیگر اکابرین کے علاوہ مخدوم جاوید ہاشمی اور اکرم شیخ ایڈووکیٹ بطور خاص آیا کرتے تھے یعنی قومی اتحاد پر دائیں بازو کا واضح غلبہ تھا ۔ہوا یہ کہ کامریڈ عبدالسلام‘ جو کہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے‘ کے ساتھیوں نے ان پر زور دیا کہ اس طرح تو ایک لبرل پارٹی کو چھوڑ کر آپ مولویوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔بیشک نیشنل عوامی پارٹی ایک لبرل پارٹی ہے‘ لیکن‘ قومی اتحاد تو مولویوں سے بھرا پڑا ہے‘ آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں‘ چنانچہ اپنے ساتھیوں کے دبائو میں آ کر راتوں رات کروٹ بدلی اور میں یونین کے ہزاروں ووٹوں سے محروم ہو کر ہار گیا۔
بعد میں بھٹو کی دھاندلی کے خلاف ہم نے تحریک چلائی۔ اس سلسلے میں گرفتاری بھی دی اور کوئی تین ماہ تک جیل کی سیر بھی کی۔واضح رہے کہ اس کا یا کلپ کے بعد بھی میں کوئی 50ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ان دنوں میں جناب مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزے میں لکھا کرتا تھا‘ جو بندش کی وجہ سے آئے دن تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ جیل سے میری تازہ تازہ اور گرما گرم شاعری بھی وہیں شائع ہوا کرتی۔ جب میں جیل سے رہا ہوا تو اس وقت مہر جیون خان ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ میری انقلابی شاعری جب ماند پڑتی نظر آئی تو مہر صاحب نے اپنے اور میرے کچھ دوستوں سے کہا کہ ظفر اقبال صاحب کو ایک بار پھر نہ اندر کر دیا جائے؟
اس کے بعد ایک بار پھر میری ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو گئیں کیونکہ یہ اور جماعت اسلامی اگر کسی کے اندر داخل ہو جائیں تو پھر نکلتی مشکل ہی سے ہیں۔ میاں زمان چونکہ ڈسٹرکٹ کونسل کے الیکشن میں میری مخالفت کر چکے تھے‘ اس لیے اگلے قومی اسمبلی کے الیکشن میں‘ میں نے ان کی مخالفت کی اور ان کے مدمقابل رائو سکندر اقبال کو کامیاب کرایا۔بعد میں ضلعی بار ایسوسی ایشن کے صدارتی الیکشن میں رائو صاحب نے میری بھر پور مدد کی اور مجھے کامیابی سے ہمکنار کرایا۔یعنی عوض معاوضہ گلہ ندارد۔ 
بات نام سے چلی تھی۔ شہزاد احمد کا پہلا مجموعہ ''صدف‘‘ شہزاد احمد شہزاد کے نام سے شائع ہو چکا تھا۔ ہم اکٹھے گورنمنٹ کالج ہی میں تھے‘ میں نے اسے کہا کہ نام میں دو بار شہزاد کچھ اچھا نہیں لگتا۔ چنانچہ انہوں نے اسے ترک کیا ۔فیصل آباد سے چند سال پہلے ''زرنگار‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت ادبی رسالہ شائع ہونا شروع ہوا‘ جس کے ایڈیٹر علامہ ضیا حسین ضیا تھے میں نے ایک بار ان سے کہا کہ یہ نام ویسے بھی بہت لمبا ہے‘ اور ‘ ساتھ علامہ لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ لقب آپ دوسروں کے لیے چھوڑ دیں‘ آپ خود اپنے آپ کو علامہ کہتے اچھے نہیں لگتے۔ چنانچہ انہوں نے اس سے درگزر کیا۔ اسی طرح جدید اور خوبصورت لب و لہجے کے شاعر افضل گوہر اپنے آپ کو رائو افضل گوہر لکھا کرتے ۔میں نے ان سے رائو چھڑوایا اور اب وہ نہایت شریفانہ طور پر اپنا نام افضل گوہر ہی لکھتے ہیں۔ ان سب کا شکریہ ! ہمارے شاعر دوست پہلے صابر ظفر والوی کے نام سے لکھتے تھے پھر شاید انہیں خود ہی عقل آ گئی اور والوی کا لاحقہ ترک کر کے صابر ظفر ہو گئے۔
آج کا مطلع
دل کو بے سود ہی مصروف ہوں سمجھانے میں
یہ وہ گتھی ہے الجھتی ہے جو سلجھانے میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved