عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کراچی میںطاقت کا مظاہرہ کر کے دکھا چکے ہیں۔ جمعہ12دسمبر کو انہوں نے شہرِ قائد کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا تھا،مبصرین کی بڑی تعداد کا اندازہ تھا کہ ایسا ہو نہیں پائے گا۔ اس شہر کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیشتر نشستوں پر ایم کیو ایم (متحدہ قومی موومنٹ) کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو چکے ہیں۔جناب الطاف حسین کی ایک کال پر ہزاروں افراد اکٹھے ہو جاتے اور گھنٹوں اُن کا خطاب صرف سنتے ہی نہیں، اس پر سر بھی دھنتے ہیں۔ وہ جس وقت جو کہہ دیں، اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جاتا ہے۔ اُن کے ایک اشارے پر اُن کی جماعت کے بڑے بڑے چھوٹے اور چھوٹے چھوٹے بڑے بن جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بلا شرکت غیرے صوبائی حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ پوری انتظامیہ اس کی ''مٹھی‘‘ میں ہے۔ اس کے اشاروں پر مناصب ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہوتے ہیں اور بڑے بڑے منصب دار اپنے طروںکی حفاظت کے لئے اس کی درگاہ میں سجدہ ریز پائے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی کا حلقہ اثر موجود ہے، مختلف مذہبی جماعتوں کی قوت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی مدرسوں کے طلبہ اور اساتذہ اپنی طاقت کے مظاہرے بھی کر سکتے ہیں، ان سے بھی بڑھ کر یہ تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں تک جا پہنچی ہے اور ایک دو ہی سہی نشستیں تو بہرحال حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، لیکن اس سب کے باوجود سمجھا یہی جا رہا تھا کہ وہ کچھ نہیں ہو گا، جو12دسمبر کو ہو گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کو کسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ہمارے دوست حبیب اکرم صبح صبح یہ خبر دے رہے تھے کہ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کی غیر مشروط حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کا دائرہ کراچی تک پھیلایا جائے، اس معاملے کو محض پنجاب تک محدود نہ کیا جائے۔اگر کراچی کی انتخابی دھاندلیوں کو بھی احتجاجی سرگرمیوں میں نمایاں جگہ دے دی جائے تو پھر جماعت اسلامی خضوع و خشوع سے بندش کے کاروبار میں متحرک ہو جائے گی، ایسا نہیں ہو گا، تو پھر ویسا بھی نہیںہو گا، یعنی عمران خان اور ان کے ہم نوائوں کو اپنا کام آپ کرنا پڑے گا۔ بتایا یہی جا رہا تھا کہ تحریک انصاف غیر مشروط تعاون کی طلب گار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو کسی اور کا تعاون مطلوب نہیں ہے۔ اس کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی، جو کہ ایم این اے کا لا حقہ بھی لگوا چکے ہیں،اس طرح دھاڑ رہے تھے کہ ان کی سابقہ منمناہٹ یاد ہی نہیں آ رہی تھی۔ وہ دندان ساز ابن دندان ساز ہیں، لیکن اب دندان شکنی پر اترے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایمبولینسوں کے علاوہ کسی پہیے والی چیز کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی زور دیا جا رہا تھا کہ احتجاج پُرامن ہو گا کسی پر دبائو نہیںڈالا جائے گا اور جو اپنا کاروبار بند رکھنا چاہے گا، وہ ایسا کرے گا، جس کو دکان کھولنے کا شوق ہو گا، اس کے کام میں خلل نہیں ڈالا جائے گا۔
بہرحال... تحریک انصاف کے جوانوں ( یا جیالوں) نے صبح ہی سے سڑکوں کو بند کرنا شروع کر دیا،کہیں دھرنے دیے، کہیں ٹائر جلائے اور ٹریفک کو روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہر شے سو فیصد بند نہ رہی ہو تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شہر بند نہیں ہوا۔ واقعہ یہ تھا کہ شہر میں کچھ بھی معمول کے مطابق نہیں تھا۔ سکول،کالج، دفاتر، مارکیٹیں ہر شعبے میں کسی شے کی کمی محسوس کی جا رہی تھی اور وہ شے تھی چہل پہل،... ہر جگہ سناٹا تھا، یا کوئی اِکا دُکا آتے جاتے دیکھا جا رہا تھا۔ تاجر رہنمائوں نے اس پر خوب شور مچایا اور تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ حضرات حساب کر کے بتا رہے تھے کہ کس کس مد میں کتنا کتنا نقصان ہو چکا ہے، مجموعی طور پر اعداد و شمار اربوں تک جا پہنچے تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ یہ سب تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈیبٹ (DEBIT)کر دیا جائے۔ تحریک والے سود و زیاں سے بے نیاز کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم کے بڑے فائدے کے لئے افراد کے چھوٹے نقصانات کی پروا نہیں کی جا سکتی، وہ دھاندلی کا حساب لے رہے ہیں، آئندہ انتخابات کو شفاف بنوا کر عوام کا حق ِ حکومت بحال کرا رہے ہیں، اس لئے وہ اس بھاری منافع کے لئے اپنے کسی نقصان کی پروا تو کیا، اس کا تذکرہ بھی نہ کریں ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
تاجر رہنمائوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ جب سڑکیں (زبردستی) بند کر دی گئیں ، وہاں سے کسی حرکت والی شے کا گزر ممکن نہ رہنے دیا گیا تو پھر شہر تو بند ہونا ہی تھا۔ گردن دبا دی جائے گی تو آنکھیں تو باہر اُبل ہی پڑیں گی۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی طرف جو لوگ امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، ان کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے کوئی دخل دے کر وفاقی اور پنجاب حکومت کی بلا کو اپنے سر لینے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے بھی اگر ہزاروں بپھرے ہوئے نوجوان کمر بستہ ہو جائیں تو ان کے سامنے کھڑے ہو کر ہنگامہ بڑھایا تو جا سکتا ہے، امن و امان کو بحال نہیں رکھا جا سکتا۔ پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس تک ماحول کو آتشیں بنا سکتے ہیں، اس میں امن کے پھول نہیں کھلا سکتے۔
تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اپنا لوہا منواتی جا رہی ہے۔ کراچی میں بھی اس کی افرادی طاقت کا انکار ممکن نہیں رہا، ملک بھر میں پڑھے لکھے نوجوانوں (جن میں پشتونوں کی تعداد انتہائی قابل ِ ذکر ہے) کو اس نے ایک نئی سیاست سے آشنا کر دیا ہے۔ ایک نئی چاٹ لگا دی ہے... فیصل آباد میں مسلم لیگ کے بعض مُنہ زور رہنما اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر یہ حقیقت بھلا بیٹھے کہ سیاست میں طاقت کا مقابلہ حکمت سے ہوتا ہے،طاقت سے نہیں۔ جلوس کے مقابلے میں جلوس نکال کر کشت و خون کو دعوت تو دی جا سکتی ہے، مقابل کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ فیصل آباد میں جاں بحق ہونے والے حق نواز کا خون مسلم لیگی رہنمائوں کا تعاقب کر رہا ہے اور ان سے بات بنائی نہیں جا پا رہی۔
15دسمبر کو خان صاحب لاہور کو بند کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ کراچی کی حکمت عملی کے مطابق یہاں بھی بڑی شاہراہوں کو بند کرانے کی سعی ہوگی، نتیجہ جوبھی نکلے ، یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو بہرحال کامیاب ہونا چاہئے۔ منصفانہ انتخابات کے مطالبے کا وہ نتیجہ نہیں نکلناچاہئے، جو ماضی میں نکل چکا ہے۔ تاریخ کو دہرانا نہیں، اس سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے مست (بلکہ بدمست) اچھی طرح یاد کرلیں کہ انگریزی محاورے کے مطابق ''واقف کار بھوت، اجنبی بھوت کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے‘‘
(Devil you know is better than the devil you don't know)
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)