تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2014

عسکری قیادت کا پیغام

سچی مفاہمت کا اصول مگر مختلف ہے۔ خوش دلی سے‘ اصولوں کی بنیاد پر۔ اعتماد سازی کے ساتھ۔ کیسے لیڈر ہیں یہ؟ جی نہیں‘ قوم کو نگراں رہنا ہو گا۔ 
غصہ ایک سادہ سی چیز نہیں۔ بعض اوقات اس کے عوامل پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اگر ایک ہتھیار کے طور پر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور بدقسمتی سے‘ اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو یہ ایک عادت بن سکتی ہے۔ خالق نے تمام زندگیوں کو بخلِ جان پر جمع کیا‘ زندگی کی حفاظت کا جذبہ ہر جذبے سے قوی ہے۔ زندہ رہنے کی تمنا اس قدر شدید ہے کہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے آدمی آمادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں گمان اگر یہ ہو جائے کہ وہ ایک اعلیٰ مقصد کا خدمت گزار ہے‘ ایک چنا ہوا آدمی جسے دوسروں کی رہنمائی کرنی ہے تو غلبے کی قدیم جبلت غیر معمولی اعتماد پیدا کر دیتی ہے۔ مقبولیت کی آرزو اس کے سوا ہے اور حواس پر چھا جانے والی۔ مفادات کا سلسلہ فکر انسانی کے گرد ایک نہ ٹوٹنے والا جال بُن سکتا ہے۔ 
فقط دو لیڈروں سے نہیں‘ اب ہمارا واسطہ دو ایسے گروہوں کے ساتھ ہے۔ میاں محمد نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک محبوب آدمی ہیں۔ قوم کی اکثریت ان کی ہمنوا ہے۔ ملک کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر وہ گامزن کر سکتے ہیں۔ مزاج ان کا شاہانہ ہے۔ اپنے حامیوں سے نہیں‘ مخالفین سے بھی وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہیں۔ قاعدے قانون کے کبھی وہ زیادہ قائل نہ تھے بلکہ بہر صورت ہدف حاصل کرنے کے۔ اقتدار ان کی کمزوری ہے اور روپیہ بھی۔ حرف انکار سننے کی تاب ہی نہیں۔ معاف کرنا جانتے ہی نہیں۔ علم کچھ زیادہ نہیں مگر سیاست کا تجربہ اب طویل ہے۔ اس بات پر انہیں حیرت ہوتی اور غصہ آتا ہے کہ سول سروس کے قاعدے‘ قومی دفاع کے تقاضوں سے جنم لینے والی عسکری قیادت کی ترجیحات یا اپوزیشن پارٹیاں ان کی راہ میں مزاحم ہوں۔ 
الیکشن جیت لیا۔ اپنے کارناموں سے زیادہ‘ آصف علی زرداری کی ناکامی اور عمران خان کی غلطیوں کے طفیل۔ ایجنڈا ان کا طویل تھا۔ ہیرو بن کر ابھریں۔ فوج کا کردار وہ محدود کریں۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر‘ ہاں‘ سب سے بڑھ کر تالی بجوانے کی خواہش؛ اگرچہ اس کے لیے اقتدار کو وہ خطرے میں ڈال سکتے اور نہ اپنے کاروبار کی قربانی دے سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو تھام سکتے‘ خود تنقیدی فرما سکتے اور حکمت سے کام لیتے تو فضا ان کے لیے سازگار تھی۔ ترجیحات مرتب نہ تھیں اور تیاری انہوں نے کی نہ تھی۔ ماحول بدل چکا تھا اور اس کا ادراک تھا نہیں۔ بھارت کے ساتھ مراسم بڑھانے کے لیے اتنے بے تاب اگر نہ ہوتے۔ فوج کو اگر ساتھ لے کر چل سکتے۔ اپوزیشن اور میڈیا کو اگر ملحوظ رکھتے۔ افسروں کا انتخاب اگر ذاتی پسند اور ناپسند کی بجائے‘ اہلیت کی بنیاد پر کرتے۔ دہشت گردوں سے مذاکرات‘ دوسرے الفاظ میں خوف اور ژولیدہ فکری کا شکار ہونے کی بجائے‘ قانون کی بالاتری کا علم اٹھاتے۔ گیس اور بجلی کے منصوبوں پر غور و فکر کیا ہوتا۔ اگر یہ سمجھ سکتے کہ امن کا قیام اور نظامِ انصاف کی بہتری‘ معیشت کے فروغ کی کلید ہے تو آج سرخرو ہوتے۔ 
کوہِ پیما جب دشوار اور ہیبت ناک بلندیوں کا قصد کرتے ہیں تو منزل نہیں‘ اگلے قدم کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ایک ایک اینٹ ڈھنگ سے رکھی جائے تو عمارت تشکیل پاتی ہے۔ مگر وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ پینے کو صاف پانی میسر نہیں۔ کروڑوں آدمی یرقان کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہیں مگر میٹرو بس سوجھتی ہے یا ایک کے بعد دوسری موٹروے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ایک اور موٹروے کا ارادہ ہے۔ شہر لاہور کے قلب میں۔ جیل روڈ پر میاں محمد منشا کے دفتر سے لے کر‘ فیروزپور روڈ کو کاٹ کر وہاں سے گندے نالے کے ساتھ ساتھ سمن آباد سے ہوتی ہوئی گلشن راوی اور وہاں سے موٹروے۔ کوئی ضرورت اس کی نہیں کہ نہر کا راستہ کشادہ ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو اس کا مطلب ہے‘ 50,60 ارب روپے کی بربادی۔ وہ بھی اس حال میں کہ ٹیکس وصولی کے ہدف میں ایک سو ارب کی کمی کا خدشہ ہے۔ بجلی کمپنیوں‘ سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کا آغاز بھی ہو نہ سکا۔ بے سبب نہیں کہ میاں صاحب کے گزشتہ دونوں ادوار میں معاشی نمو کی اوسط تین فیصد سے کبھی بڑھ نہ ہو سکی۔ اب اس کا امکان تھا‘ بالخصوص چینی سرمایہ کاری کے علاوہ سونے‘ تیل‘ کوئلے اور لوہے کے بے پناہ ذخائر کی کان کنی سے۔ ملک کو جب قرار ہی نہیں اور ہنگامہ مسلسل برپا ہے تو ابتدا بھی کیسے ہو؟ جیسا کہ صدر اوباما سے ملاقات کے فوراً بعد‘ اس کے اندازِ اظہار سے آشکار ہوا‘ یادداشت ان کی پہلی سی نہیں‘ حرکت کم ہے اور قوت فیصلہ بھی۔ اس پر بھی قوم سے مطالبہ ان کا یہ ہے کہ بہرحال ان کی اطاعت کے لیے آمادہ رہے۔ کیا کسی کی مجال ہے کہ انہیں یاد دلائے؟ 
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا 
ناز بھی کر تو با اندازۂِ رعنائی کر 
ادھر خان صاحب کا حال بھی یہی ہے۔ پذیرائی کے نشے میں مگن۔ 11 مئی 2013ء کے بعد خیالوں کے گرداب میں گم تھے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے مگر اب حکمرانوں سے اکتائے درمیانے طبقے میں مقبولیت نے ہوا کے گھوڑے پر سوار کر دیا ہے۔ دھاندلی کے باب میں ان کی رائے بہت سوں نے قبول کر لی ہے؛ اگرچہ اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ نقب زنی ظاہر اگر نہ ہوتی‘ تب بھی جیت وہ نہ سکتے تھے۔ ایک تہائی سیٹوں پر تو ان کے امیدوار ہی نہ تھے۔ باقی آدھے نالائق۔ انتقام کی خو‘ اب جاگ اٹھی ہے۔ جس شیر پر وہ سوار ہیں اس سے نیچے اتر نہیں سکتے۔ بدلہ چکانے کے آرزو مند کارکن بپھر کے باہر نکل آئے ہیں۔ اس سے بھی بڑی خوش بختی یہ کہ پرویز رشید ایسے نقاد انہیں ملے ہیں۔ عوامی ردعمل کو جو جنم دیتے ہیں۔ میڈیا ٹوٹ کے ان پر گرا ہے کہ شخصیت سحر انگیز ہے اور ساری قوم دل کا بوجھ ہلکا کرنے (Catharsis) کی آرزو مند۔ 
مثال نہیں ملتی کہ کسی لیڈر کو ہر روز کئی گھنٹے ہر چینل پر ملتے ہوں۔ ہر روز کروڑوں سامعین اور ایجنڈا کیا ہے؟ فقط الیکشن کی دھاندلی۔ سول سروس‘ پولیس‘ صحت‘ تعلیم‘ ایف بی آر اور نظامِ عدل‘ توانائی‘ خارجہ پالیسی‘ معیشت جس چیز پر وہ چاہتے‘ قومی شعور اجاگر کر سکتے۔ کمیٹیاں بناتے‘ ہر شعبے کے لیے تجاویز پیش کر کے‘ دبائو ہمہ جہتی کر دیتے۔ اس کے سوا سرکار کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی بات سنے۔ فعال طبقات کی اکثریت ڈٹ کر ان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی۔ سیاسی بصیرت مگر بازار میں نہیں ملتی‘ اہل علم اور اہل نظر کی بارگاہ میں البتہ۔ یہ مگر پتہ ماری کا کام ہے اور خان صاحب کی توجہ حریف کو پامال کرنے پہ رہتی ہے۔ غیر محتاط اس قدر کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر بے سبب تنقید کی۔ وزیرستان میں کارروائی اب رک نہیں سکتی۔ اپنے بارے میں تحفظات البتہ پیدا کر لیے۔ 
جی نہیں‘ بار دگر عرض ہے کہ قوم کو فقط دو عدد لیڈروں پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ایک کے بعد دوسری‘ پہاڑ سی غلطی کے جو مرتکب ہیں۔ جنہیں ادراک ہی نہیں کہ خوشامدیوں کی صحبت کیسی خطرناک چیز ہے۔ خود تنقیدی کے سوا‘ کامیابی کا کوئی راستہ ہوتا ہی نہیں۔ 
قوم تنگ آ گئی۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ عسکری قیادت نے دونوں لیڈروں کو مفاہمت کرنے کا پیغام دیا ہے۔ معیشت برباد‘ مستقبل کے لیے خدشات ہی خدشات‘ جب کہ ہم بھارت کے پڑوسی ہیں۔ جب کہ مغرب نے ہزاروں این جی اوز بنا دی ہیں۔ ان پر سالانہ ایک سو ارب روپے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کس لیے؟ حالات کے دبائو میں مصالحت تو شاید اب ہو رہے گی۔ سچی مفاہمت کا اصول مگر مختلف ہے۔ خوش دلی سے‘ اصولوں کی بنیاد پر۔ اعتماد سازی کے ساتھ۔ کیسے لیڈر ہیں یہ؟ جی نہیں‘ قوم کو نگراں رہنا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved