تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-12-2014

پرویز رشید اور ’سب رنگ‘ کی واپسی!

سابق بیوروکریٹ ظفر محمود ،جو آج کل ایک اہم سرکاری ادارے کے سربراہ ہیں، کراچی میں شکیل عادل زادہ سے مل کر لوٹے تھے اور اب لنچ پر میرے ساتھ تھے۔ 
کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو ساری عمر آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ ظفر بھی انہی ناموں میں سے ایک ہے جو بچپن سے لے کر کالج، پھر پروفیشنل یا ذاتی زندگی میں کہیں نہ کہیں میرا دوست بن ہی جاتا ہے ۔وہ ماموں ظفر ہوں، لیہ کالج ہوسٹل کا روم میٹ، ظفر بلوچ ہو، ڈاکٹر ظفر الطاف ہوں یا پھر ظفر محمود۔ان سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ اپنا پن رہا ہے ۔شاید کسی پچھلے جنم کا ساتھ...!
ظفر بلوچ سے یاد آیا،وہ لیہ کالج ہوسٹل میں میرا روم میٹ تھا ۔ فتح پور کے ایک گائوں سے آیا تھا۔قد کاٹھ میں اونچا اور پیچھے سے جھگڑالوقبیلے کا۔ایک دن ٹیکنیکل کالج کے لڑکے ،جو قبائلی علاقوں سے کوٹے پر پڑھنے آئے تھے ،رات گئے لڑنے کے لیے ہمارے ہوسٹل میں آگئے۔ سب کے پاس اسلحہ تھا۔ ظفر بلوچ ہوسٹل کی دیوار پھلانگ گیا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے اتفاقاً مجھے پہچان لیا۔ اس نے مجھے اپنے قریبی دوست فاروق خان کے گھر پر دیکھا تھا جس کے ساتھ ہم کرکٹ کھیلتے تھے ۔ اس پٹھان لڑکے نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا فاروق میرا دوست تھا ۔ جب میں ہاں میں نے سر ہلایا، تو اب ان کے لیے ہمیں پھینٹی لگانا کچھ مشکل ہوگیا تھا۔ اس بات پر ان کی آپس میں بھی کچھ تلخ کلامی ہوگئی جب گروپ کے ایک پٹھان لڑکے نے مجھے مارنے سے سب کو منع کر دیا کہ یار فاروق ناراض ہوگا،لیکن شرط یہ لگائی کہ اگلے دن فاروق کو لے کر ہمارے ہوسٹل آنا۔ اس نے کنفرم کیا تو ٹھیک وگرنہ تمہیں مارنے ہم دوبارہ آئیں گے۔ لیہ کے اپنے دوست فاروق خان کا شکریہ کہ اس کی وجہ سے ہم پھینٹی سے بچ گئے تھے۔
جب وہ چلے گئے تو ظفر بلوچ ہاتھ میں پستول لیے نمودار ہوا۔ ہم نے کہا،بلوچ تو کہاں بھاگ گیا تھا، ہم سب تو تمہارے سہارے بدمعاش بنے ہوئے تھے، وقت آیا تو ،دیوار پھلانگ کر نکل گیا تھا ۔ بولا،کہ میں نے برے وقت کے لیے پستول دوست کے فلیٹ پر رکھا ہوا تھا،وہ لینے گیا تھا۔خیر اس بات پر بڑے عرصے تک ظفر بلوچ کا مذاق اڑتا رہا ۔سب کا کہنا تھا کہ وہ ڈر کے مارے باہر پلاٹ میں بیٹھ کر لڑکوں کے جانے کا انتظار کرتا رہا، چلے گئے تو پستول ہاتھ میں لہراتا ہیرو بننے آگیا۔
ایک دن میں نے یونہی پوچھ لیا ،یار بلوچ بتائو اگر کل کلاں کو میں کچھ بن گیا تو کیا فرمائش کرو گے ؟ بولا،روفی یار،تمہیں پتہ ہے اپنے گائوں میں پھڈے چلتے رہتے ہیں۔تھانے آنا جانا لگا رہتا ہے۔اگر کچھ ہوسکے تو فتح پور تھانے میں کچھ پنکھے لگوا دینا۔ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے کہ بلوچ نے فرمائش بھی کی تو کیا ۔
میں اپنے خوبصورت ماضی سے بڑی مشکل سے باہر نکلا۔اپنے سامنے ایک اور ظفر نام کے دوست کو بیٹھے دیکھ کر پوچھا،تو پھر کیسی رہی شکیل عادل زادہ سے ملاقات؟وہ مسکرائے اور بولے،بہت اچھی رہی،شکیل عادل زادہ اب بھی ایک ایک لفظ پر بڑی محنت کرتے ہیں۔میں بولا ،یہ بات تو ہے ،اگر پاکستانی ادب میں کوئی ''مسٹر پرفیکٹ‘‘ کہلوا سکتا ہے تو وہ شکیل عادل زادہ ہیں ، جو لکھے گئے ایک ایک لفظ کو اپنے بچے کی طرح سمجھتے ہیں،ا س سے پیار کرتے ہیں،اس کے ناز اٹھاتے ہیں، نخرے برداشت کرتے ہیں، لفظ کوبڑی چاہتوں سے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور پھر کاغذوں پر 'سب رنگ‘ میں سجا دیتے ہیں۔
اس سال اگست میں نیویارک میں عارف سونی صاحب کے خوبصورت گھر کے لان میں جناب مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ اور آفاق فاروقی کے ساتھ سب رنگ اور شکیل عادل زادہ پر ایک گھنٹے تک ہونے والی گفتگو پر لکھے گئے کالم کے بعد مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کراچی سے ای میل آئے گی ۔ شکیل عادل زادہ کی ای میل میں صرف اتنا لکھا تھا: اتنی محبت کے جواب میں کیا کہا جائے!۔ اس کے بعد لکھا بھی کیا جاسکتا تھا!فون نمبر ای میل میں دیا گیا تھا ۔ امریکہ سے کال کی۔ میں نے عرض کیا، کچھ کیجیے، مزید صبر نہیں ہوتا۔کب تک عاشقوں کا امتحان جاری رہے گا؟ بولے ،وہ ذہنی طور پر تیار ہیں کہ 'سب رنگ ‘لایا جائے۔ ڈیکلریشن دوبارہ مل گیا ہے۔
وہ اپنے محبوب کو واپس گھر لے آئے ہیں۔دفتر ابھی تک برقرار ہے۔ دفتر کا کرایہ ،کچھ تنخواہیں اب بھی دی جارہی ہیں۔ ''تو کس چیز کا انتظار ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔وہ بولے ،لوٹ آئیں ،پھر بات کرتے ہیں۔
امریکہ سے لوٹنے کے بعد پہلی دفعہ ظفر محمود سے ملاقات ہوئی ۔ میں نے کہا ،ظفر صاحب مجیب الرحمن شامی وعدہ کر چکے ہیں۔دس لاکھ روپے انہوں نے دینے ہیں ۔ اور(میں نے ہنستے ہوئے کہا) امید ہے شامی صاحب کا امریکہ میں عارف سونی کے گھر سہیل وڑائچ اور آفاق فاروقی کی موجودگی میں کیا ہوا وعدہ چھٹے بحری بیڑے کی طرح کا وعدہ ثابت نہیں ہوگا۔میں خود اپنے وعدے کے مطابق حصہ دینے پر تیارہوں۔میں نے کہا ،ظفر صاحب آپ بھی 'سب رنگ ‘کے عاشقوں میں سے ہیں، آپ نے بھی اپنی ایک ماہ کی تنخواہ دینی ہے۔ وہ فوراً تیار ہوگئے۔ میں نے کہا،بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔آپ ایک بہت بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ ہیں۔ آپ کا محکمہ ہر سال کروڑوں روپے کے اشتہارات دیتا ہے۔ آپ 'سب رنگ ‘کو چند لاکھ روپے کے اشتہارات نہیں دے سکتے؟ آپ کو علم ہے یہ دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے۔اس رسالے کو پہلے اپنے پائوں پر تو کھڑا کیا جائے ،جس کے لیے پچاس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد شکیل عادل زادہ خود چلالیں گے ۔!
کہنے لگے ،انہوں نے کراچی جانا ہے اورشکیل عادل زادہ سے ملنا ہے اوراب وہ ان سے مل کر لوٹے تھے ہم دوبارہ لنچ پر اکٹھے تھے۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہی پوچھ لیا۔کیسی رہی ملاقات؟کہنے لگے :پہلی دفعہ شکیل عادل زادہ کو 'سب رنگ‘ دوبارہ جاری کرنے کے لیے تیار پایا ہے۔ ان کا خیال تھا میرے کالم کا ان پر اثر ہوا تھا، تاہم ظفر محمود کو ایک فکر تھی۔ بولے کہ انہوں نے شکیل عادل زادہ کو کہا ہے بازی گر کے علاوہ بھی انہیں دو سلسلے شروع کرنے ہوں گے،' سب رنگ ‘میں تین سلسلے ہی اس لیجنڈری رسالے کو دوبارہ اوپر لے جا سکتے ہیں۔اس پر شکیل عادل زادہ نے کہا کہ دو نئی کہانیاں ان کے ذہن میں ہیں۔میں اچھل پڑا۔اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔جہاں 'بازی گر ‘چلتا رہے گا ،وہیں دو نئی سلسلہ وار کہانیاں بھی پڑھنے کو مل سکیں گی۔مجھے علم نہیں ہے سب رنگ دوبارہ جاری ہوسکتا ہے یا نہیں؛ تاہم ایک سوال مجھے پریشان کررہا ہے کہ ہمارے ہاں وزارت اطلاعات ہو یا پھر وزارت کلچر۔یہ کیوں ایسے پروجیکٹس کے لیے پیسے فراہم نہیں کرتے؟موٹر ویز کے علاوہ یہ میگزین بھی تومعاشرے کی نشوونما کے لیے اہم شمار ہوتے ہیں۔
ابھی اپنے کولیگ عثمان منظور کی خبر پڑھی ہے کہ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے ،پچھلے چند برسوں میں اب تک پاکستان میں وکیلوں کی بار ایسوسی ایشن کو اسی کروڑ روپے گرانٹ کے طور پر دیے گئے ہیں ۔ اگر ان ایسوسی ایشنز کو ہمارے پیسوں سے اسی کروڑ روپے گرانٹ دی جاسکتی ہے تو پھر ایک ایسا رسالہ جسے ایک دنیا یاد کرتی ہے ،اس کے لیے صرف ایک کروڑ روپے کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟ کیا یہ کام ریاست کا نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی انٹلیکچوئل بھوک ختم کرنے کے لیے بھی اہتمام کرے۔'سب رنگ ‘بھی اس قوم کا ایک ناسٹلجیا ہے۔
ایک دن سوچا بھی کہ پرویز رشید سے درخواست کی جائے ،جس طرح پاکستان کے پریس کلب اور دیگر اداروں کو ان کی وزارت کی طرف سے لاکھوں روپے گرانٹ دی جاتی رہی ہے، وہ کیوں ایک کروڑ روپے 'سب رنگ ‘کے دوبارہ اجراء کے لیے جاری نہیں کرتے؟ پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ وہ ان دنوں تحریک انصاف کے ساتھ مقابلے میں مصروف ہیں۔ پھریہ بھی تو ممکن ہے کہ انہوں نے 'سب رنگ ‘کا کبھی نام ہی نہ سنا ہو۔ اگر سنا بھی ہو تو بھی انہیں اس میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ کسی ایسے منصوبے کے لیے گرانٹ دیں جس سے شاید کوئی سیاسی فائدہ نہ ہوسکے؟ سیاستدانوں کو میں کچھ کچھ جانتا ہوں۔بغیر فائدے کے ایسے کام نہیں ہوتے ،لیکن پھر سوچا اگرچہ پاکستان لوٹنے کے بعد پرویز رشید سے ملاقاتیں بہت کم رہی ہیں تاہم جب تک وہ لندن میں تھے ، اس طرح کے سیاستدان نہیں لگتے تھے کہ انہیں 'سب رنگ ‘کے دوبارہ اجراء جیسے معاملات میں سیاسی فائدے کی ضرورت ہوگی۔ پرویز رشید پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔میں بھی اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہوں لیکن تمام تر تنقید کے باوجود میرا خیال ہے پرویز رشید مالی طور پر کلین آدمی ہیں ۔لہٰذا لگتا تو ہے کہ وہ سیاسی فائدہ نقصان دیکھے بغیر 'سب رنگ ‘کے دوبارہ اجراء کے لیے گرانٹ جاری کر سکتے ہیں۔
ظفر محمود کب کے جا چکے ۔جب کہ میں ابھی تک اپنے ناسٹلجیا سے لڑائی میں مگن ہوں۔ گائوں کی میٹھی دھوپ میں چارپائی پر لیٹے 'سب رنگ ‘کے رنگوں میں غرق ...اور اب اس سوچ میں ڈوبا ہوا کہ اگر اسی کروڑ روپے وکیلوں کو مفت میں مل گئے، لاکھوں روپے پریس کلب والے لے گئے تو کیا 'سب رنگ ‘کے اجراء کے لیے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ نہیں دی جاسکتی؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved