پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی نے ایک حالیہ تقریر میں بھرپور عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ آئندہ بیس سالوں میں بطور وزیر ِ اعظم پاکستان کی خدمت کر سکتی ہیں ۔نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی بلاشبہ پاکستانیوں کے لئے باعثِ فخر ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ جہاں پاکستانیوں کی اکثریت ملالہ پر رشک کرتی ہے وہیں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ملالہ کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملالہ کی ڈائری پر بھی بہت سے لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ ایک دور افتادہ علاقے میں رہنے والی 8سالہ بچی ڈائری کیسے لکھ سکتی ہے جس میں ناخواندگی کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے ساتھ تعلیم کے فروغ کا پرچم بلند کرے ۔گل مکئی کی ڈائر ی ایسے علاقے سے لکھی جارہی تھی جہاں انٹرنیٹ جیسی سہولت کی فراہمی ایسے ہی ہے جیسے تھر میں غذائی اجناس کی فراہمی ،جیسے تحریک ِ انصاف کو جوڈیشل کمیشن کی فراہمی یا جیسے ن لیگ کی حکومت میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی ۔ ملالہ کی اتنی بڑی کامیابی پر شک اسلئے بھی کیاجارہاہے کہ ہمارے بڑے بوڑھے جب کچھ نہیں کرپائے تو وہ چھوٹوں کی کامیابیوں کوبھی کسی ملی بھگت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
تما م شکوک و شہبات اپنی جگہ ،پاکستان میں امن کا نوبل انعام آنا ایک خوش آئند بات ہے ۔پاکستان کا وزیر ِ اعظم بننے کی خواہش رکھنا ملالہ یوسف زئی کا حق ہے ۔پاکستان میں وزارت ِ عظمیٰ کا ''ہما‘‘ کسی کے سر پر بھی بیٹھ سکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک کی تاریخ ''نظام سقوں ‘‘ سے بھری پڑی ہے ۔ہمارے ہاں اکثر سینئر بینکر حضرات جب کسی بینک کے وائس پریزیڈنٹ بن جاتے ہیں تو اس کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی پوسٹ کے لئے اپنا ''سی وی‘‘ ہر وقت تیار رکھتے ہیں۔ پہلے معین قریشی پھر محمد میاںسومرو اور بعد میں شوکت عزیز صاحب نے سینئر بینکرز کے حوصلے بلندکر دیئے ہیں ۔شوکت عزیز تو سیاست کے بوم بوم ثابت ہوئے تھے۔ بینک سے وزارت ِ خزانہ اور پھرڈائریکٹ وزیر ِاعظم ۔یہ وہ دور تھا جب ہمایوں اختر خان کے وزیر ِ اعظم بننے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں‘ یہاں تک کہ خان صاحب نے اپنی ''رسمِ حلف برداری‘‘ کے لئے شیروانی بھی سلوا لی تھی ۔ہمایوں اختر خان آج تک اس حنوط شدہ شیروانی کو دیکھ کر یقینا یہی گاتے ہوں گے ؎
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
مستقبل میں ملالہ کا وزیر ِ اعظم بننا کو ئی تعجب کی بات نہیں‘ کیونکہ ماضی میں ہمارے ملک میں حلالہ وزیر ِ اعظم بھی بن چکے ہیں اور یہ اکلوتا اعزاز حاصل ہے چوہدری شجاعت حسین صاحب کو ۔کوئی کچھ بھی کہے ،چوہدری صاحب ایک کھرے انسان ہیں۔ اگر انہوں نے ہمیشہ آمریت کا ساتھ دیا تو وہ کبھی اس بات سے انکاری نہیں ہوئے ۔اکثر موقعوں پر چوہدری صاحب نے برملا کہا کہ وہ مستقبل میں بھی اسی دلیری کے ساتھ آمریت کا ساتھ دیں گے ۔چوہدری صاحب کم از کم ان سیاستدانوں سے تو بھلے ہیں جو آمریت کی گود میں پل بڑھ کر اپنے حریفوں کو ''تیسری طاقت‘‘ کے طعنے دیتے ہیں۔چوہدری برادران کے ہاں وزارت عظمیٰ کا عہدہ ڈیڑھ گنا رہاہے۔چوہدری شجاعت نوے دن کے لئے پورے وزیر اعظم جبکہ چوہدری پرویزالٰہی پیپلز پارٹی کے دور میں ڈپٹی وزیر اعظم رہے۔چوہدری برادران کے مخالفین ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدے کے لئے ''چھوٹاوزیر اعظم‘‘ کے آوازے بھی کستے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت تو جیسے ''ڈبل وکٹ‘‘ میچ تھی۔ پہلی باری جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کی تھی جن کے ''ریٹائرڈ ہرٹ ‘‘ ہونے کے بعد راجہ پرویز اشرف صاحب نے اننگز پوری کی‘ حالانکہ راجہ بابو کے وزیر ِ پانی و بجلی ہونے پر بھی پوری قوم کو تحفظات تھے ۔بعض لوگ راجہ پرویز کو پیپلز پارٹی کے لئے راجہ پورس قراردیتے ہیں۔ اس کی وجہ رینٹل پاور سکینڈل ہے جس نے زرداری حکومت کی ساکھ کو کچل کررکھ دیاتھا۔ عمران خان صاحب فیس بک پر تو بھاری مینڈیٹ حاصل کر چکے ہیں‘ تاہم عملی طور پر وزیر ِ اعظم بننے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔خان صاحب کے سیاسی مخالفین کا کہناہے کہ لوگ کپتان کے ساتھ ضرور ہیں لیکن وہ اپنی غیر سیاسی سوچ اورطرز عمل سے وزیراعظم نہیں بن سکیںگے۔جو لوگ یہ پیشین گوئی کرتے ہیں‘ ان کاکہنا ہے کہ عوامی حمایت کے علاوہ اندرونی اوربیرونی قوتیں جو کسی مقبول عام سیاستدان کو وزیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں‘ کپتان آئے دن انہیں بیزار کرتے رہتے ہیں‘ اس لیے کپتان کا وزیر اعظم بننا آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان کی سیاسی پچ کے کامیاب ترین کھلاڑی میاں محمد نواز شریف ثابت ہوئے ہیں جو وزارتِ عظمیٰ کی ہیٹرک کرنے والے واحد سیاستدان ہیں ۔عمران خان کا الزام ہے کہ میاں صاحب امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتے ہیں‘ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ جس امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا خان صاحب انتظار کر رہے ہیں وہ ''تھرڈ امپائر‘‘ ہے ۔میاں صاحب بھلے ہی امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتے ہیں لیکن بطور کرکٹر خان صاحب کو علم ہونا چاہئے کہ امپائر کے فیصلے کے بعد پویلین لوٹ جانے والا کھلاڑی واپس نہیں آتا ۔چاہے اب ''ری ویو ‘‘ کا آپشن شامل ہو چکا ہے لیکن اس میں تاخیر کے نتیجے میں اپیل کرنے والے کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا ۔
ہمیں تاریخ میں شہید وزیر اعظم بھی میسر آتے رہے ہیں۔ لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم تھے جنہیں سرعام قتل کیا گیا۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی سرعام قتل کرکے شہید کا درجہ دے دیاگیا۔یہ تاریخ کا عجب اتفاق ہے کہ تینوں وزرائے اعظم ایک ہی شہر میں دارِ فانی سے گئے جس کا نام راولپنڈی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو16اکتوبر 1951ء میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ خطاب کرنے کے لئے کمپنی باغ میں سجائے گئے سٹیج پر آئے تھے۔ 2007ء میں 27دسمبر کی شام اسی کمپنی باغ‘ جسے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کے نام سے منسوب کردیاگیاتھا‘ میں محترمہ بے نظیربھٹو کو شہید کردیا گیا۔پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دی گئی۔ بعدازاں جنرل محمد ضیاالحق نے اسے مسمار کرادیا۔جنرل ضیا کا خیال تھاکہ عین ممکن ہے کہ بھٹو کے چاہنے والے قتل گاہ کو ان سے منسوب کرکے دربار یا آستانہ بنا لیں جس سے کوئی مزاحمتی تحریک جنم لے لے سکتی ہے‘ اس لیے اس کا نام ونشان مٹادیاگیا۔
وطن عزیز میں ایسا بھی ہوتارہاہے کہ ''ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم ٹائپ وزیر اعظم ‘‘ بھی ایکسپائری ڈیٹ آنے پر گھر بھیج دئیے گئے۔جنرل ضیاالحق نے تو محمد خان جونیجو کو اسلئے وزیر اعظم بنایا تھا کہ وہ ایک شریف النفس انسان تھے مگر جنرل صاحب جلد ہی جونیجو صاحب سے بھی اکتا گئے ۔جنرل ضیانے وزیر اعظم پاکستان محمدخان جونیجو کو برخاست کرنے کا ''آرڈر‘‘ سادہ کاغذ پر کردیا تھا۔وقوعہ یہ ہوا تھا کہ وزیر اعظم جونیجو بیرونی دورے سے جب اپنے خصوصی طیارے سے باہر آئے تو انہیں ایک سادہ کاغذ تھمادیاگیاجس پر لکھی تحریر کامفہوم یہ تھاکہ ''آپ اب وزیر اعظم نہیں‘ اس لیے براہ کرم گھر واپس چلے جائیں‘‘۔ جنرل ضیاالحق نے جونیجو حکومت پر بدعنوانی ،کرپشن اور نااہلی کے گھسے پٹے الزامات عائد کئے تھے۔ضیاالحق نے اسمبلیاں توڑتے ہوئے غالب کا یہ مشہور شعر پڑھا تھاکہ ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
جنرل سکندرمرزا،جنرل ایوب خاں، جنرل یحییٰ، جنرل ضیااور جنرل مشرف بدعنوانی اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنے کیلئے آتے رہے لیکن جب گئے تو یہ پہلے سے بھی زیادہ تنومند ہوتی رہیں۔ملالہ کو وزیر اعظم کی عمر تک پہنچنے کے لئے ابھی 20سال کا عرصہ درکارہے۔ اس سے قبل کئی ایک وزیر اعظم ''زیر تعمیر‘‘ ہیں۔ عمران خان ہر روز کہتے ہیںکہ وہ وزیر اعظم بن کر نئے پاکستان کی تعمیرکریں گے۔ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ڈھلتی ہوئی عمرسے پریشان ہیں اسی لئے نہیں چاہتے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے ۔خان صاحب کو حوصلہ رکھنا چاہئے کیونکہ ہمارے ملک میں میر ہزار خان کھوسو 84 سالہ وزیر ِ اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور بقول اسلم رئیسانی ''وزیرِاعظم تو وزیر ِ اعظم ہی ہوتا ہے ،چاہے نگران ہو یا منتخب‘‘۔