پاکستانی میڈیا لمبی تان کے سو رہا ہے ۔
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشمِ گریہ ناب
مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
پہلی بار یورپ فلسطین کے مسئلے پر کھل کے بات کررہا ہے ۔ آئرلینڈ، برطانیہ اور فرانس میں فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں قرار دادیں منظور ہوئی ہیں اور فرنچ سینیٹ میں بھی ۔ سویڈن نے فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے ۔سب سے بڑی پیش رفت یہ ہے کہ 18دسمبر کو یورپی پارلیمنٹ اس بارے میں مشترکہ فیصلہ کرنے کے لیے ووٹنگ کرے گی ۔ فلسطین پہ بمباری کے دوران بڑے پیمانے کی سویلین شہادتوں پر ڈنمارک نے جنیوا کنونشن کے تحت اجلاس طلب کر لیا ہے ۔ 1949ء سے اب تک اس کے صرف دو ہی اجلاس بلائے گئے ہیں اور دونوں مرتبہ اسرائیل کے خلاف۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کی نمائندہ کیرولین نے شکایت کی کہ یورپی یونین نے حالیہ دنوں میں اسرائیل مخالف روّیہ اختیار کیا ہے تو ڈنمار ک کے سفیر جیسپر سے ان کی سخت تلخ کلامی ہوئی ۔کیرولین نے یورپی یونین کو ڈبل سٹینڈرڈز کا حامل قرار دیا تو جیسپرنے یہ کہا: فلسطینی کمزور ہیں؛لہٰذا ان سے اور اسرائیل کے ساتھ ہمارا روّیہ مختلف ہوگا ۔ یورپی یونین کے تین اہم ترین ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ ایک قرار داد
کے مسوّدے پہ غور کر رہے ہیں ، جس میں سلامتی کونسل فلسطین اور اسرائیل کو دو سال کے اندر اندر امن معاہدے تک پہنچنے کا حکم دے سکتی ہے ۔
دنیا کے 135ممالک فلسطین کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جہاں تک یورپ کا تعلق ہے ، چند جزائر پہ مشتمل ایک ناقابلِ ذکر سے ملک کے علاوہ کسی نے ابھی تک یہ قدم نہیں اٹھایا تھا۔ اس ساری صورتِ حال کا پسِ منظر یہ ہے کہ جولائی میں شرو ع ہونے والی پچاس روزہ ''جنگ ‘‘نے امریکی کوششوں سے شروع ہونے والے امن مذاکرات کا خاتمہ کر دیا ہے ۔اس دوران کل 2200افراد شہید ہوئے ۔ عظیم اکثریت غیر مسلّح نہتے افراد ، حتیٰ کہ بچّوں کی تھی ۔اس دوران ہسپتالوں ، حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی عمارت میں پناہ لینے والوں کو بھی بارود سے اڑا دیاگیا۔ یہ روداد بیان کرتے ہوئے ، اقوامِ متحدہ کا ایک انگریز کارکن آنسوئوں کے ساتھ روپڑا۔ فلسطین کے قلب سے مغربی میڈیا نے سارا ماجرا نشر کیا۔ سوشل میڈیا پہ ایک فلسطینی بچّی کی التجا جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ''میرا نام ... ہے ۔ میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔میں زندہ رہنا چاہتی ہوں ، مجھے مت ماریے ‘‘
یورپی مما لک کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین پہ مشتمل دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا قیام اس مسئلے کا واحد حل ہے ۔ یہ بھی کہ اسرائیل نے اس Two State Solutionکو سبوتاژ کر دیا ہے ؛لہٰذا فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل پر دبائو بڑھایا جائے ۔
تین ماہ بعد اسرائیل میں الیکشن ہوں گے ۔ عالمی دبائو کے تحت اسرائیلی فوج سویلین ہلاکتوں کے پندرہ واقعات کی ''انکوائری ‘‘پر مجبور ہو گئی ہے ۔ ادھر دورانِ جنگ اپنی فوج کی ڈٹ کے حمایت کرنے والا صہیونی میڈیا اب اپنی حکومت کے لتّے لے رہا اور اسے اقوامِ عالم میں خود کو تنہا کر دینے والی حکمتِ عملی کا مرتکب قرار دے رہا ہے ۔
کب کھلا تجھ پہ یہ راز
انکار سے پہلے کہ بعد
یروشلم پوسٹ کا الزام ہے کہ حافظ سعید کی قیاد ت میں جماعت الدعوۃ غزہ کی پٹی میں متحرک ہو چکی ہے اور عالمی امن کو اس سے خطرہ لاحق ہو سکتاہے ۔ اخبار ان کی سرگرمیوں کو پاکستان کی سرکاری پالیسی قرار دیتے ہوئے بڑے بھدّے انداز میں اس کا ربط آرمی چیف کے اس بیان سے جوڑتاہے ''عالمی امن کے لیے مسئلہ ء کشمیر اور فلسطین کا حل ضروری ہے ‘‘۔
قارئینِ کرام ، کیا عالمی امن کے لیے ان مسائل کا حل ضروری نہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دفترِ خارجہ کو پاکستان پہ عائد ان الزامات کے بارے میں کچھ علم ہے ؟
زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ اور عالمی صہیونی اثر و رسوخ یورپ کو اس بار رام کرنے میں کامیاب ہو جائے گالیکن پہلی بار اسرائیلی حمایت کی کچھ حدود اور ضابطے طے ہو رہے ہیں ، یورپی یونین جن سے باہر نہیں نکلنا چاہتی ۔ گو 18دسمبر کو یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے فلسطین کے حق میں فیصلہ بھی خارج از امکان نہیں لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ وقتی طور پر اسرائیل اس مشکل صورتِ حال سے نکل جائے گا۔ بہرحال میرے خیال میں اب اس کے لیے پہلے جیسا جارحانہ روّیہ اختیار کرنا ،فلسطینی زمین پر نئے شہر بسانا اور مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرنا پہلے جیسا آسان نہ رہے گا۔
یورپی یونین کے بدلے ہوئے روّیے کی وجہ حماس کی مسلّح جدوجہد نہیں ، فلسطینیوں کا سرخ لہو اور ان کی مظلومیت ہے ۔ ہوسکتاہے کہ کشمیر کا حل بھی اسی راستے سے گزر کر ممکن ہو ۔اور کچھ نہیں مگر اپنا گریباں چا ک کرتے ہوئے ،میں یہ ضرور کہوں گا کہ بعض معاملات میں ملوّث افراد کے خلاف اگر ہم قانون کے مطابق کارروائی کرتے تو ہمارے لیے بہتری کی راہیں نکلتیں ۔ افواجِ پاکستان کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ پاکستانی مفاد کا تعین کرتے ہوئے وہ مسلّح جدوجہد کرے ۔ افغانستان سے امریکی و مغربی انخلا کی وجہ سے وقتی طور پرپاکستان ایسی مضبوط پوزیشن میں ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی پیٹھ تھپک رہی ہے ۔ یہ صورتِ حال ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ۔
زیادہ حیرت اس بات پہ ہے کہ پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا فلسطین کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور خود پہ عائد الزامات کے جواب میں لمبی تان کے سو رہا ہے ۔ کسی اور ملک میں یہ ماجرا برپا ہوتا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔