شاہین عباس کا تعارف کرانا تو سورج کو چراغ دکھانا ہے‘ بس اتنا ہی کافی سمجھیے کہ جدید اردو غزل کے حوالے سے ان کا دم غنیمت ہے۔ موصوف کی یہ شاعری گجرات یونیورسٹی کے مشاعرے میں میرے ہاتھ لگی۔ آپ بھی دیکھیے:
اس گلی میں کچھ نہیں‘ بس گھٹتا بڑھتا شور ہے
اک مکیں کی خامشی ہے‘ اک مکاں کا شور ہے
شامِ شور انگیز‘ یہ سب کیا ہے بے حد و حساب
اتنی آوازیں نہیں‘ دنیا میں جتنا شور ہے
آنگن آنگن تکیہ برداروں کو اب کیا کیا بتائیں
آنکھ میں کیا خواب ہے اور خواب میں کیا شور ہے
خالی دل پھر خالی دل ہے‘ خالی گھر کی بھی نہ پوچھ
اچھے خاصے لوگ ہیں اور اچھا خاصا شور ہے
نقل کرتی ہے مرے چلنے میں ویرانی مری
یہ جو میرے شورِ پا سے ملتا جلتا شور ہے
بات قابو میں نہیں‘ آفات قابو میں نہیں
اک پرانی گونج ہے مجھ میں‘ پرانا شور ہے
دونوں میں سے ایک چُپ ہو جائے تو اندازہ ہو
تیرے میرے شور میں سے کس کا کتنا شور ہے
O
روشنی جیسے کسی شام کے آنے سے ہوئی
خاک دریافت مری‘ خاک اڑانے سے ہوئی
تُو نے چُپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی‘ زمانے سے ہوئی
اپنے بارے میں وہ اک بات جو ہوتی نہیں تھی
تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوئی
تھا‘ مگر ایسا اکیلا میں کہاں تھا پہلے
میری تنہائی مکمل ترے آنے سے ہوئی
O
زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا
میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا
وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا
وہ اس طرح سے مجھے دیکھتا ہوا گزرا
میں اپنے آپ کو بہتر دکھائی دینے لگا
O
ہوا کے چاک پر کُوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے تھے ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے‘ جانتے ہیں
کہ دن کیسے ہوا‘ جب رات بھی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا‘ آگ پہنچی تھی گھروں تک
اور ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں‘ یہیں ہیں
کہ جب موجودگی موجودگی ہوتی نہیں تھی
گزرنے میں بہت آسانی رہتی تھی اِدھر سے
یہ گھر ہوتے تھے لیکن یہ گلی ہوتی نہیں تھی
O
موجۂ خوں بھی پریشان کہاں جاتا ہے
مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے
بات یوں ہی تو نہیں کرتا ہوں میں رُک رُک کر
کیا بتائوں کہ مرا دھیان کہاں جاتا ہے
میں تو جاتا ہوں بیابانِ نظر کے اُس پار
میرے ہمراہ بیابان کہاں جاتا ہے
گھر بدلنا تو بہانہ ہے‘ بہانہ کر کے
اندر اندر ہی سے انسان کہاں جاتا ہے
داستاں گو کی نشانی کوئی رکھی ہے کہ وہ
داستاں گوئی کے دوران کہاں جاتا ہے
چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے
O
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری وجہ سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو
ہم اس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ
کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ہو
میں اپنی شرط پہ آیا تھا اس خرابے میں
سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو
مری خرابی کو یکجا کرو کہیں نہ کہیں
مرا معاملہ اب جا بہ جا خراب نہ ہو
آج کا مقطع
لباس بیچتا ہوں پہلے جا کے اپنا، ظفرؔ
جو کچھ خرید کے بازار سے نکلتا ہوں